قومی احتساب بیورو نے اورنج لائن اور پنجاب کے دیگر ترقیاتی منصوبوں میں قومی خزانے کو 4ارب سے زائد کا نقصان پہنچانے کے الزام میں نیسپاک اور دیگر کمپنیوں کے سربراہوں سے تحقیقات کا فیصلہ کیا ہے۔ پنجاب کے تین بار وزیراعلیٰ منتخب ہونے والے شہباز شریف کے بہترین ایڈمنسٹریٹر ہونے کاپول 56 کمپنیوں میں 80 ارب کی کرپشن کی صورت میں ان کے اقتدار میں ہی کھلنا شروع ہو گیا تھا۔ صوبے کا سربراہ ہوتے ہوئے ان کے داماد پر ترقیاتی منصوبوں میں بدعنوانی کے الزامات لگتے رہے یہاں تک کہ بدعنوانی کی تحقیقات کا سلسلہ بھی ان کے اپنے دور میں ہی شروع ہو گیا تھا مگر اقتدار سے الگ ہونے کے بعد جس طرح ہر منصوبے میں اربوں کی بے ضابطگیوں اور آئے روز میگا کرپشن کے انکشافات ہو رہے ہیں ان کو محض سیاسی انتقام کے واویلا میں چھپانا ممکن نہیں۔ سابق حکمرانوں کی کرپشن کو حکومتی پراپیگنڈا سلئے بھی تسلیم نہیں کیا جا سکتا کیونکہ سابق حکومت کے صرف ایک افسر سے نیب نے پلی بارگین کرکے 1 ارب روپے کی خطیر رقم برآمد بھی کر لی ہے اور درجن بھر افسران وعدہ معاف گواہ بنے پر آمادہ ہیں۔ اب اورنج لائن اور دیگر منصوبوں میں بدعنوانی کے الزامات کی تحقیقات کا فیصلہ کیا ہے جو یقیناً قابل ستائش ہے۔ بہتر ہو گا نیب مزید نئے کیسز کی تحقیقات کے ساتھ پہلے سے زیر تفتیش مقدمات کو منطقی انجام تک پہنچانے میں بھی توجہ مرکوز رکھے اور قومی خزانہ لوٹنے والوں سے رقوم کی وصولی کے عمل کو تیز کیا جائے تاکہ بدعنوانی کی سرکوبی اور لوٹی ہوئی قومی دولت کی واپسی ممکن ہو سکے۔