کارگل جنگ کنٹرول لائن پر ہونے والی ایک محدود جنگ تھی جو پاکستان اور ہندوستان کے درمیان 1999ء میں لڑی گئی۔ اس جنگ میں واضح کامیابی توکسی کے بھی حصہ میں نہ آسکی لیکن پاکستانی فوج نے بھارت کے تین لڑاکا جہاز مار گرائے اس کے علاوہ بھارتی فوج کارگل سیکٹر میں توازن کھو بیٹھی اور 700 سے زائد فوجی ہلاک کر دیے اس جنگ میں بھارت کو برا جھٹکا لگا۔ کارگل جنگ میں فارمیشن کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ کشن پال نے اعتراف کیا کہ 1999 میں کارگل جنگ میں527 فوجیوں کی جانیں ضائع ہوئیں گو کہ بھارت نے علاقہ واپس حاصل کر لیا تھا لیکن میرے خیال میں جنگ میں اتنی جانیں ضائع ہونے کو کامیابی نہیں کہا جاسکتا۔ جنگ میں بھارت نہ صرف میدان جنگ میں بلکہ سفارتی محاذ پر بھی ناکام رہا۔جنرل پال نے یہ بھی کہا کہ جب کارگل میں دراندازی کا پتہ چلا تو فوج پر انہیں پسپا کرنے کے لیے زبردست سیاسی دباؤ تھا۔جنرل پال کے بیانات پر فوج کی جانب سے ابھی کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا ۔ بہرحال کارگل کے ایشو پر جس قدر ڈیفنس اور سٹریٹجک موضوعات پر ریسرچ کرنے والے پی ایچ ڈی سکالرز نے تحقیقاتی کام کیا ہے۔ ان میں بیشتر تھیسز (مقالات) کے مطابق یہ ایک بے مثال کامیاب فوج آپریشن تھا۔ اس جنگ کا مقصد یہ تھا کہ ریاست جموں و کشمیر میں کنٹرول لائن کے اس پار کارگل کی پہاڑیوں کی برفیلی چوٹیوں پر بھارتی فوج ہر سال سازگار موسم میں قبضہ کر لیتی تھی اور سرما کی شدت کے آغاز میں انہیں چھوڑ کر میدانی علاقوں کی طرف چلی جاتی تھی۔ فروری 1999ء کے اوائل میں جب ابھی بھارتی فوج اس علاقے میں واپس نہیں آئی تھی تو ناردرن لائٹ انفنٹری (نیم فوجی یونٹ) کے مجاہدین نے ایک دلیرانہ اور ماہرانہ مہم کے نتیجے میں ان پہاڑیوں پر قبضہ کر لیا۔ بڑی دیر تک بھارتی افواج اور انکی خفیہ ایجنسیاں اس صورتحال سے بے خبر ہیں۔ ایک روایت ہے کہ آخر وقت تک بھارتی انٹیلی جنس کارگل میں کشمیری مجاہدین کی موجودگی سے بے خبر رہیں اور یہ امریکی تھے جنہوں نے بھارت کو مجاہدین کی موجودگی سے آگاہ کیا۔ یہ ہندوستانی انٹیلی جنس کی مکمل ناکامی تھی کہ انہیں گلگت کے ایریا میں اس قدر وسیع پیمانے پر مجاہدین کی نقل و حرکت کا پتہ نہ چل سکا۔ اسکے فوراً بعد بھارت نے ایک طرف ان چوٹیوں کو مجاہدین سے خالی کرانے اور خود ان پر قبضہ کرنے کی سرتوڑ کوششیں شروع کر دیں تو دوسری طرف اس نے عالمی رائے عامہ کے سامنے اپنے آپ کو جارحیت کا شکار فریق ثابت کرنے اور اسکی ہمدردیاں حاصل کرنے کی وسیع کوششیں شروع کیں ۔ بھارت نے یہ شور بھی برپا کیا کہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات کو معمول پر لانے اور تنازع کشمیر کا حل تلاش کرنے کیلئے جو عمل مسٹر اٹل بہاری واجپائی کے دورہ پاکستان سے شروع ہوا تھا اور جسے بس ڈپلومیسی کا نام دیا گیا تھا وہ بھی سخت خطرے میں پڑ گیا ہے بھارت نے پوری دنیا میں پاکستان کی مبینہ جارحیت اور مہم جوئی کا زوردار پروپیگنڈا شروع کیا تو عالمی حلقوں نے بھارت کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے پاکستان سے مطالبہ شروع کر دیا کہ کارگل کی چوٹیوں کو مجاہدین اور بقول بھارتی حکومت پاکستانی فوجیوں سے خالی کرائے۔ بیرونی دنیا نے یہ تسلیم کر لیا کہ کارگل پر قبضہ کرنیوالے مجاہدین نہیں بلکہ پاکستانی فوج کے ریگولر دستے ہیں۔ بھارت اپنی فضائیہ اور مزید بری افواج کو اس سیکٹر پر جھونک دینے کے باوجود کارگل کی چوٹیوں کو واپس لینے میں کامیاب نہ ہو سکا۔ اگرچہ پاکستان کے مجاہدین کی بڑی تعداد بھی شہادتوں کے رتبے پر فائز ہوئی مگر کیپٹن کرنل شیر شہید (نشان حیدر) اور حوالدار لالک جان جیسے سینکڑوں بے باک، نڈر اور بہادر فوجی جوانوں نے بہادری اور دلیری کی داستانیں رقم کیں ۔ کارگل کے میدان جنگ میں پاکستانی فوج کے شیر دل جوانوں اور افسروں نے بہادری اور جرأت کی ایسی داستانیں رقم کردی تھیں کہ اگر سیز فائر نہ کیا جاتا تو مٹھی بھر یہ بہادرسپوت بھارت کو عبرتناک شکست کے بعد مقبوضہ کشمیر بھی واپس لے لیتے۔اس جنگ میں تاریخ کے ناقابل یقین واقعات بھی رونما ہوئے جس سے ایک پاکستانی فوجی افسر کی بہادری کے ساتھ اسکی اخلاقی جرات بھی سامنے آتی ہے۔اس جنگ میں پاک فوج نے عسکری تاریخ کے کئی نمایاں کارنامے انجام دئیے تھے۔ کارگل کی جنگ کے دوران کیپٹن کاشف بھی اپنے چودہ جوانوں کے ساتھ ایسی پوسٹ پر موجود تھے جب اکیس مئی کے دن دشمن کے اڑھائی سو فوجیوں نے بھاری اسلحہ سے لیس ہوکر ان سے پوسٹ چھیننے کی کوشش کی تو انہوں نے کسی جانی نقصان کے بغیر دشمن کو ایسا سبق سکھایا کہ وہ اڑتالیس لاشیں چھوڑ کر بھاگ گیا تھا۔ جب دشمن کے سپاہی بھاگ رہے تھے تو ان کے افسر اپنے جوانوں کو پکڑ کر روکنے کی کوششیں کرتے لیکن وہ اسلحہ پھینک کر بھاگ اٹھے جس پر بھارتی افسر اپنے سپاہیوں کو گالیاں دیتے ہوئے خود بھی بھاگ اٹھے۔اب صورتحال یہ تھی کہ بھارتی فوجیوں کی لاشیں گلنے سڑنے لگیں،ان سے بدبو آنے لگ پڑی۔دشمن سے رابطہ کر کے کہا کہ ہم بھارتی فوجیوں کی لاشیں واپس کرنا چاہتے ہیں تو وہ پریشان ہوگئے۔انکا افسر بولا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ہم تمہارے علاقے سے لاشیں اٹھانے آئیں اور تم پر فائر نہیں کھولو گے۔وہ سمجھ رہاتھا شاید ہم ان کے ساتھ کوئی چال چل رہے ہیں۔ پیغام بھیجنے کے بعد چوتھی رات چار سپاہی اندھیرے میں ٹارچ کی روشنی کرتے ہوئے آئے، وہ سب ڈرے سہمے تھے۔ ہم نے ان سے کہا’’ ڈرو نہیں، لاشیں اٹھالو ‘‘وہ ایک ایک لاش اٹھا کر واپس لے گئے۔ کارگل جنگ میں بھی ہمیشہ کی طرح اسرائیل کی مدد بھارت کو حاصل رہی۔ 10فروری 2008 کو نئی دہلی میں اسرائیل کے سفیر مارک سوفر نے ایک چونکا دینے والا انکشاف کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے ملک نے 1999ء میں پاکستان کے ساتھ کارگل کی جنگ کا رخ بدلنے میں بھارت کی مدد کی تھی۔ اسرائیلی سفیر نے بتایا کہ کس طرح کارگل کے بعد دونوں ملکوں کے دفاعی تعلقات کو فروغ حاصل ہوا جب اسرائیل نے ایک نازک مرحلے پر زمینی صورت حال بدلنے میں بھارت کو بچایا۔ سفیر نے کہا:’’میرا خیال ہے ہم نے بھارت کو ثابت کیا کہ وہ ہم پر بھروسہ کر سکتا ہے اور ہمارے پاس اسکے لیے وسائل موجود ہیں۔ ضرورت کے وقت ایک دوست ہی حقیقی دوست ہوتا ہے۔‘‘ ’’ہمارے بھارت کے ساتھ دفاعی تعلقات خفیہ نہیں، تاہم جو بات خفیہ ہے وہ یہ ہے کہ دفاعی تعلقات کی نوعیت کیا ہے اور تمام احترام کے ساتھ خفیہ حصہ ایک راز رہے گا‘‘۔