افغان طالبان کو دنیا بھر سے جو مفت مشورے مل رہے ہیں‘انہیں سن اور پڑھ کر لگتاہے کہ پورا کرہ ارض ‘ امن و سکون کا گہوارہ بن چکا ہے‘شمال سے جنوب‘مشرق سے مغرب تک انسانی حقوق بالخصوص خواتین کے حقوق سوفیصد محفوظ ہیں‘صحافی اور صحافت آزاد عام شہری مطمئن و پرسکون‘کہیں ظلم ہے نہ ناانصافی اور امریکہ‘یورپ‘افریقہ‘ایشیا‘ عالم عرب میں ہر جگہ اپنے سیاسی ‘مذہبی ‘نسلی‘ لسانی مخالفین کو کھلے دل سے گلے لگانے کا رواج ہے‘بس ایک افغانستان رہ گیا جہاں گوانتاناموبے اور ابو غریب جیل جیسے عقوبت خانے ڈاکٹر عافیہ صدیقی اور سید علی گیلانی ایسے قیدی موجود ہیں‘اس پسماندہ ریاست میں ڈیرک شون جیسے پولیس اہلکار بستے ہیں جو محض رنگ اور نسل کی بنیاد پر سیاہ فام جارج فلائیڈ کو جان سے مار دیتے ہیں اور ڈیڑھ کروڑ شہریوں کو Black Lives matter تحریک چلا کر قاتل کو سزا دلوانی پڑتی ہے‘یہ افغانستان ہی ہے جہاں کے منتخب حکمرانوں نے اسی لاکھ باشندوں کو سات لاکھ فوج کے ذریعے گزشتہ دو سال سے گھروں میں قید کر رکھا ہے‘میڈیا پر پابندی ہے‘ اقوام متحدہ کے مبصرین کو داخلے کی اجازت نہیںوغیرہ وغیرہ اسی باعث پوری دنیا طالبان سے مطالبہ کر رہی ہے کہ وہ حکومت بعد میں تشکیل دیں‘تعمیر نو کو چھوڑیں‘ تباہ حال ملک کا ریاستی ڈھانچہ بحال کرنے سے پہلے ہمارے مطالبات مانیں ‘ورنہ نو ارب ڈالر مالیت کے زرمبادلہ ذخائر ضبط‘ورلڈ بنک کی امداد معطل اور مختلف انواع کی سیاسی‘مالیاتی‘ سفارتی پابندیاں شروع‘امریکہ و مغرب تو خیر طالبان کے دشمن ہیں‘اس مطالبہ میں وہ بھی شامل ہیں جو عقیدے‘جغرافیے اور مفادات کے اشتراک کے باعث افغانستان کے فطری دوست سمجھے جاتے ہیں‘یہ مروت و لحاظ ہے یا فاتحین کا جذبہ تحمل و برداشت کہ وہ بے چارے سن رہے ہیں اور کھل کر یہ نہیں کہہ سکتے ؎ یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح کوئی چارہ ساز ہوتا‘کوئی غمگسار ہوتا امریکی اور یورپی سیاست دانوں‘ دانشوروں اور میڈیا کے نقطہ نظر سے عہد حاضر کے ’’گنوار‘‘ ’’پسماندہ‘‘ اور ’’جھگڑالو‘‘ طالبان بارہ تیرہ دن سے کابل میں بیٹھے‘قابض اتحادی فوج کے مکمل انخلا کا انتظار کر رہے ہیں‘صرف کابل ہی نہیں پورے افغانستان میں امن و سکون ہے اور دنیا بھر کا آزاد میڈیا حیرت میں مبتلا کہ وادی پنج شیر کے سوا کہیں سے مخالفانہ آواز اٹھ رہی ہے نہ انتقامی کارروائیاں‘ڈکیتی‘خواتین سے زیادتی اور لوٹ مار کے واقعات کی اطلاع ‘جو انقلاب فرانس اور امریکہ کی خانہ جنگی کے دنوں میں روز مرہ کا معمول تھا اور آج بھی ترقی یافتہ ریاستوں کا طرہ امتیاز ہے۔خانہ جنگی کی کیفیت نظر آتی ہے نہ وسیع پیمانے پر آبادی کے انخلا اور مہاجرین کی بیرون ملک روانگی کے مناظر ٹی وی چینلز کی سکرینوں پر نمایاں بھانت بھانت کے مفت مشورے مگر جلاّد کے کوڑے کی طرح طالبان کی پشت پر برس رہے ہیں اور لایعنی مطالبات کی طویل فہرست ہے جس میں روز بروز اضافہ ہو تارہا ہے‘یہ اپنی شکست کو فتح میں بدلنے اور رسوا کن پسپائی کے تاثر کو زائل کرنے کی تدبیر ہے یا افغانستان و عراق جنگ میں کودنے جیسی کوئی حماقت‘فی الحال راوی خاموش ہے یہ واضح ہے کہ افغانستان میں اب صرف وہ ہو گا جو طالبان چاہیں گے کہ انہیں آزادی کسی نے پلیٹ میں رکھ کر پیش کی ہے نہ کسی دوسری ریاست اور قوم کی خوشدلانہ اعانت کا نتیجہ‘1980ء کی دہائی میں افغان مجاہدین نے سوویت یونین کو شکست سے دوچار کیا تو اس فتح کے کئی دعویدار اور حصے دار تھے‘اب مگر طالبان اکیلے ہیں‘انہیں 9/11کے بعد مشورے دینے والے بعد میں یہ ڈھنڈورا پیٹتے رہے کہ ملا عمر اور ان کے ساتھیوں نے ہمارے مخلصانہ مشورے نہ مان کر تباہی کو دعوت دی اور اب وہ اپنے کئے کی سزا بھگتیں‘آج کوئی انصاف پسند شخص بیس سال پیچھے مڑ کر دیکھے‘ان مشوروں کی گرد جھاڑے اور غیر جانبداری سے تجزیہ کرے تو ندامت کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئے‘یہ طے ہے کہ حکومت سازی کے بعد طالبان ملک میں اپنی طرز کے شرعی نظام کی راہ ہموار کریں گے جس کی قبائلی معاشرے میں قبولیت پر دو رائے نہیں‘البتہ کابل‘مزار شریف اور جلال آباد میں جومعدودے چند امریکی اور برطانوی طرز کی جمہوریت کے خواہاں ہیں وہ شور مچاتے رہیں گے۔ افغانستان میں بیس سال تک کرپٹ‘نااہل اور عوام دشمن وار لارڈز نے جدید طرز کے جمہوری‘تعلیمی‘طبی ‘فوجی ادارے تشکیل دئیے نہ عام شہریوں کی فلاح و بہبود پر توجہ دی‘افغانستان کی اسی نوے فیصد آبادی آج بھی 9/11سے پہلے کے ماحول میں زندہ ہے‘طالبان اس اکثریت کے نمائندہ ہیں اور افغانوں کے لئے قابل فخر روایت ’’قومی غیرت و جرأت‘‘کی علامت‘طالبان نہ ہوتے تو افغان قوم کا شمار بھی ا ن میں ہوتا جو ہر طاقتور کے سامنے سر جھکاتے اور دولت کے عوض عزت و ایمان کا سودا کرتے نہیں شرماتے۔پاکستان میں بھی طالبان کو مشورے دینے والوں کی کمی نہیں‘ضرورت حالانکہ اس وقت ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنے اور حکمران اشرافیہ اس کے ہمنوائوںکو ستر پچھہتر سال کے سودوزیاں پر غور کرنے کی ہے۔ہم امریکہ اور اس کے پروردہ افغان حکمرانوں حامد کرزئی اور اشرف غنی کو تو کوس رہے ہیں کہ انہوں نے دو ہزار ارب ڈالر ضائع کر دیے افغانستان کو جدید طرز کی ریاست بنانے کی سعی نہ کی ‘ یہ نہیں سوچتے کہ یہی سوال اگر لاہور‘کراچی‘اسلام آباد سے چالیس پچاس کلو میٹر دور بسنے والا کوئی خاک نشین اپنے حکمرانوں‘سیاستدانوں‘فیصلہ سازوں سے کرے تو وہ تسلی بخش جواب دینے کی پوزیشن میں ہوں گے؟باقی باتوں کو تو چھوڑیے گزشتہ بیس پچیس سال سے احتساب کا جو نعرہ پاکستانی فضائوں میں گونج رہا ہے‘عوام نے جسے ہمیشہ پذیرائی بخشی اس کا حشر کیا ہوا؟کیا اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر کوئی شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ اس نے کسی قومی لٹیرے سے ملکی دولت کا دس فیصد بھی وصول کر کے پاکستانی خزانے میں جمع کرایا۔ ماضی میں یہاں امام خمینی‘ملا عمر کے حق میں نعرے گونجتے رہے‘یہ آیت اللہ خمینی کے مسلک سے وابستگی کا اظہار تھا‘نہ ملا عمر کی درویشی اور جرأت رندانہ کو خراج تحسین‘یہ دراصل اپنے ملک کے ظالم‘لوٹ مار کے خوگر اور عیش پسند طبقے سے اظہار نفرت تھا اور ان کے بے لاگ محاسبے کی آرزو تھی‘طالبان اگر افغانستان میں پُر امن‘سادہ‘ عوام دوست اور منصفانہ طرز حکمرانی کو فروغ دے پائے تو ناانصافی ‘جبر اور لوٹ مار سے اُکتائے پاکستانی عوام ایک بار پھر کسی مسیحا کی راہ تکنا شروع کر دیں گے‘ ریاست مدینہ کا نعرہ لگانے والوں کو اس بارے میں سوچنا ضرور چاہیے کہ تین سال انہوں نے بھی قوم کو وعدہ فردا پہ ٹرخایا۔