جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم نے 5 جولائی 1977ء کو اسول حکومت کا خاتمہ کیا۔ 1971ء میں وطنِ عزیز کی شکست و ریخت میں جنرل یحییٰ کے ساتھ شیخ مجیب اور ذوالفقار علی بھٹو کا کردار ہمیشہ زیربحث رہا ہے۔ جمہوریت کے ان علمبرداروں نے جمہوریت ہی کے بنیادی تقاضے پورے نہ کیے۔ جس کے نتیجے میں ملکِ عزیز دو لخت ہو گیا۔ شکست خوردہ اور بچے کھچے پاکستان میں اقتدار ملنے کے بعد بھٹو نے جس طریقے سے ملکی نظام کو چلایا وہ یقینا ملک کے اساسی جواز، قیام اور وجود کی نفی تھی۔ آئین میں چھ یکطرفہ ترامیم کیں اپوزیشن کے ارکان کو اسمبلی سے اٹھا کر باہر فٹ پاتھ پر پھینکا گیا۔ نا انصافی اور جبر کو فروغ دیا گیا۔ عدلیہ کا گلا گھونٹنے کیلئے اس کی Writ Jurisdiction سے باہر دلائی کیمپ قائم کیے گئے جہاں سیاسی مخالفین کو محبوس رکھ کر جسمانی ایذا ئیں دی جاتیں۔ FSF کے نام سے ایک فورس بنائی گئی جس کے ہاتھوں مخالفین پر جسمانی تشدد کرایا گیا۔ معزز اور بزرگ قومی راہنمائوں کی تذلیل کی گئی اور سیاسی قتل و غارت گری کی بنیاد ڈالی گئی۔جس میں سردار عطا اللہ مینگل کا بیٹا بھی گیا،قلم اور قلمکاروں کا مقدر عقوبت خانے ٹھہرے، راقم الحروف،الطاف حسن قریشی، ضیاء شاہد،حبیب وہاب الخیری،مجیب الرحمان شامی اور دیگر جیلوں میں تھے،مولانا مفتی محمود اور سردار عطا اللہ مینگل کی صوبائی حکومتیں توڑی گئیں۔ حیدرآباد ٹر بیونل قائم کر کے بغیر مقدمہ چلائے بلوچ اور دیگر راہنمائوں کو محبوس رکھا گیا۔ بلوچستان میں لشکر کشی کی گئی جس میں کئی قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا۔ لسانی جھگڑے پر کراچی کا امن و امان ہمیشہ کے لیے تباہ کر دیا گیا۔ چھوٹی سے چھوٹی صنعت کو قومیا کر پارٹی کارکنوں کے قبضے میں دے دیا گیا۔ وزیر اعظم براہ راست دھمکیاں دے رہے تھے۔ ’’میں کمزور ہوں مگر میری کرسی کمزور نہیں ہے‘‘۔ یہی وجہ ہے کہ عوام نے مارچ 1977ء کے عام انتحابات میں دھاندلی کے باوجود اس جماعت کو یکسر اور مکمل طور پر مسترد کر دیا۔ صوبائی انتخابات کا بائیکاٹ کر کے پاکستانیوں نے اس سے اپنی شدید نفرت کا واضح اعلان کر دیا جس کے نتیجے میں ایک بے مثال احتجاجی تحریک نے جنم لیا۔ ہزاروں انسانی حقوق کے علم برداروں کو، ڈیفنس آف پاکستان رو لز اور ۳، تحفظ امن عامہ کے تحت جیلوں میں ٹھونسا گیا مگرحکومت مخالف یہ تحریک پھیلتی گئی۔ اس میں مذہبی عنصر بھی شامل ہو گیا جس سے یہ تحریک مزید پر تشدد ہو گئی۔ حزبِ اختلاف نے پی این اے کے نام سے اتحاد قائم کر لیا جس کا یک نکاتی مطمع نظر مسٹر بھٹو اور اس کی حکومت سے چھٹکارا ٹھہرا۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ ملکی حالات بگڑتے گئے اور نظم و نسق کی صورتِ حال انتہائی دگر گوں ہو گئی۔ ہڑتالوں اور احتجاج نے ملکی نظام مفلوج کر دیا۔ جلائو گھیرائو میں شدت آ گئی۔ بے گناہ لوگوں کی ہلاکتیں ہوئیں اور عوام کے جان و مال کا تحفظ ناپید ہو گیا۔ سو ل انتظامیہ ناکام ہوئی تو لاہور کراچی اور حیدر آباد میں مارشل لاء نافذ کر دیا گیا لیکن عدلیہ نے اسے غیر آئینی قرار دے کر ختم کر دیا۔ حکمران جماعت نے حزبِ اختلاف کے ساتھ سیاسی بات چیت کا آغاز کر دیا مگر دونوں طرف عدمِ اعتماد، عدمِ برداشت اور سخت گیر مئوقف کے باعث کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہ ہو سکا۔ جون 1977ء کے آخری ہفتے میں راولپنڈی کے آرمی ہائو س میں چیف آف آرمی سٹاف نے تمام کور کمانڈرز کی غیر رسمی کانفرنس بلائی۔ ملکی حالات کا تفصیلی جائزہ اور صورتِ حال کی سنگینی کا ادراک کرتے ہوئے تمام شرکاء اس بات پر متفق اور متحد ہو گئے کہ اگر حکومت اور حزبِ اختلاف ملکی بحران کا کوئی سیاسی حل نکالنے میں ناکام رہتے ہیں تو ملک اور خطے کو عدمِ استحکام سے دو چار نہیں ہونے دیا جائے گا اور یہ کہ مسلح افواج آئین میں دی گئی اپنی ذمہ داریاں پوری کریں گی۔ اس سلسلے میں مسلح افواج کا کردار متعین، معین اور واضح ہے۔ اس مجوزہ اور متوقع کاروائی کو آپریشن فئیرپلے (Operation Fair Play) کا نام دیا گیا۔ فیصلہ کیا گیا کہ اجلاس میں موجود شرکاء کے علاو ہ مزید کسی بھی اور کو اعتماد میں نہیں لیا جائے گا۔ تاریخ اور وقت کاتعین چیف آف آرمی سٹاف کریں گے۔ ایک آواز آئی کہ آئین کے آرٹیکل 6 کا جائزہ بھی لیا جانا چاہیے۔ ایسے اقدام کی سزا پھانسی کا پھندا ہے۔سب نے کہا کہ وطن کو بچانے کے لیے یہ سزا ہمیں منظور ہے۔ یاد رہے کہ آئین میں آرٹیکل 6 شامل کر کے بھٹو نے اعلان کیا تھا کہ’’میں نے مارشل لاء کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے گہرا دفن کر دیا ہے‘‘۔مناسب وقت پر اعلیٰ فوجی قیادت نے صاف الفاظ میں بتا دیا کہ فوج کیا سوچ رکھتی ہے جس کے بعد بھٹو نے اعلان کیا کہ ’’اگر حزبِ اختلاف اپنی ضد پر قائم رہی تو ملک میں فرشتے آجائیں گے‘‘۔ بھٹو چاہتے تھے کہ فوج اس تحریک اور حزبِ اختلاف کو پوری قوت سے کچل دے۔ غلام مصطفیٰ کھر اپنے پارٹی کارکنوں میں اسلحہ تقسیم کر کے ان کو تشدد کے لیے تھپکی دے رہا تھا۔ جنرل ٹکا خان ریٹائرمنٹ کے فوراً بعد سیاسی عہدہ قبول کر کے پیپلز پارٹی کے مفاد سے وابستہ ہو چکے تھے۔ اُن کا خیال اور زور اس بات پر تھا کہ حصولِ مقصد کے لیے چند ہزار آدمی قتل کر دینا کوئی زیادہ بڑی بات نہیں ہو گی۔ عسکری قیادت حکمران جماعت پر بار بار زور دے رہی تھی کہ بحران کے خاتمے کے لیے جلد کوئی سیاسی حل تلاش کیا جائے۔ ایک مرحلہ پر بھٹو اور اس کے ساتھیوں نے سوچا کہ جنرل ضیاء الحق کو ہٹا کر اپنا کوئی خا ص وفادار جنرل اس کی جگہ پر لایا جائے کیونکہ ضیاء الحق اپنی عوام کے خلاف فوجی طاقت کے بے رحمانہ استعمال پر تیار نہ تھے۔ مولانا کوثر نیازی نے اپنی کتاب میں ایسے کسی جنرل کا نام بھی تحریر کیا ہے جس کی بطور چیف آف آرمی سٹاف تعیناتی کا فیصلہ کر لیا گیا تھا۔ بھٹو نے ذاتی اور انفرادی طور پر ہر کور کمانڈر سے رابطہ کر کے اس سے کہا کہ بطور وزیر اعظم میری تمام توقع، بھروسہ اور اعتماد صرف اور صرف آپ پر ہے۔ اس کو ہر طرف سے یہی جواب ملا کہ جناب وزیر اعظم میں اپنے چیف آف آرمی سٹاف کے تحت آپ کا ہر حکم بجا لانے کے لیے تیار اور پابند ہوں۔ اس کے بعد بھٹو نے محسوس کیا کہ کوئی کور کمانڈر بھی فوج کے مسلمہ اصولوں کے بر عکس چلنے اور پھر اُس کے نتیجے میں General Dyre بننے کو تیار نہیں تھا۔ مسٹر بھٹو سے جنرل ضیاء الحق کی ملاقاتیں اکثر ہوتی رہیں۔ ایسی ہی ایک ملاقات میں مسٹر بھٹونے جنرل ضیاء الحق سے اچانک کہا کہ ’’جنرل صاحب! سیاست میری، طاقت اور قوت آپ کی۔''Let Us , We Both Rule These People" چونکہ یہ ایک غیر متوقع، اچانک اور بے معنی بات تھی اس لیے جنرل ضیاء الحق نے کوئی جواب نہ دیا اور موضوع دوسرے رخ مڑ گیا۔ غالباً مسٹر بھٹو ضیاء الحق کی سوچ اور انداز فکر جاننا چاہ رہے تھے۔فوجی قیادت کے ا عصاب پر بے پناہ دبائو تھے۔ فوج کا اپنا اندرونی اور روایتی ڈھانچہ اور اس کا تحفظ، حکومتی احکامات اور خواہشات، خواتین کا چوڑیاں اتار کر فوجیوں کی طرف پھینکنا گلے میں قرآن مجید لٹکائے کلمہ طیبہ کا ورد کرتے نہتے مظاہرین کا فوج کی گولیو ں کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہو جانا، ماضی میں فوجی مداخلت کے تلخ تجربات اور نتائج، خطے میں سلامتی کی صورت حال، ملک کی بگڑتی ہوئی معاشی صورت حال، سیاسی عدمِ استحکام، فوج کا نہتے مظاہرین پر گولی چلانے سے انکار، عدلیہ کا ردِ عمل اور کردار، فوج میں نچلی سطح پر فوجی بغاوت اور ایسے ہی اور کئی بے شمار دبائو تھے۔ ایک بریگیڈیئر نے جو کہ ایک ڈویژ ن کی عارضی کمان کر رہے تھے۔ ملکی حالات کا دبائو اس قدر محسوس کیا کہ انہوں نے جنرل ضیاء الحق کو ایک فوری خط لکھ بھیجا۔ اس خط کے الفاظ کم و بیش یہ تھے۔پاکستان اسلام کے نام پر قائم ہوا۔ پاکستانی فوج ایک اسلامی فوج ہے ہر ظالم کا ہاتھ روکنا اس کا فرضِ اولین ہے۔ آپ اسلامی فوج کے مسلمان سربراہ ہیں۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ ایک ظالم اور جابر شخص دھاندلی اور سینہ زوری کے ذریعے ملک پر مسلط ہے۔ (جاری)