رائی سے پہاڑ اور بات سے بتنگڑ بنانا کوئی ہم سے سیکھے ۔ بھنے ہوئے تیتر اڑانا ہمارا مشغلہ ٹھہرا۔ مینڈکوں کا مسئلہ اٹھا اور کسی منچلے نے ایسے ہی کسی چیتھڑا اخبار میں سرخی جما دی کہ لاہور میں 5من مینڈک پکڑے گئے اس کے بعداس کی ضمنی سرخیاں تو لگنا ہی تھیں کہ یہ مینڈک لاہور کے بڑے بڑے ہوٹلوں میں سپلائی ہونے جا رہے تھے۔ مزید یہ کہ غالباً یہ گوشت پیزہ‘ شوارما اور برگرز میں استعمال ہونا ہو گا، بغیر تحقیق کے ہم نے دیکھا کہ پورے سوشل میڈیا پر ٹر ٹر ہونے لگی۔ ایسے ہی جیسے برسات کے دنوں میں گھروں کے اردگرد کھڑے پانی میں مینڈک ٹراتے ہیں۔ یہ بات اپنی جگہ دلچسپ کہ فیس بک کے تخلیق کاروں نے مینڈکوں پر خوب طبع آزمائی کی۔ حقیقت حال جاننے کے بعد بھی ابھی تک یہ سلسلہ تھما نہیں ہے۔ ابھی ابھی ایک پوسٹ لگائی گئی ہے۔ کہ ڈائناسور کے علاوہ لاہوریوں نے کوئی ڈش نہیں چھوڑی۔ کئی دنوں سے ایسی ہی پوسٹیں سوشل میڈیا کی زینت بن رہی ہیں۔ کوئی لکھتا ہے کہ لاہور جائو تو روزہ رکھ کر جائو۔ کسی نے تحریر کیا کہ شکر ہے کہ اس نے کافی عرصے سے برگر اور شوارما نہیں کھایا۔ ایک نے لکھا کہ کھوتا ڈش کے بعد ڈڈو ڈش بھی لاہوریوں کو مرغوب ہو گئی۔ ایک نے کہا اسی ڈش کے باعث کچھ لاہوریوں کو پھدکتے ہوئے دیکھا گیا۔ کسی نے کہا یہ زکام بھی مینڈکی کھانے کے باعث ہوتا ہے۔ یہی نہیں ایک صاحب نے کہا اب ڈڈو کھانے کے لئے کسی کو چین نہیں جاناپڑے گا یا یہ کہ چین والے یہاں آئیں گے تو لاہور کو اپنا اپنا پائیں گے۔ دو چار شاعروں نے تو مینڈکوں پر شعر بھی کہہ دیے۔ شعر سے مجھے ایک نہایت دلچسپ واقعہ یاد آ گیا کہ ہم شہزاد احمد کے گھر سے نکلے تو بابا منظور احمد ان کی نثری شاعری پر بات کرنے لگے۔ ہم نہر پر پہنچے تو میں نے یونہی فی الدیہہ کہا’’رنگین مینڈک نظر پڑا۔ تتلی اس پر بیٹھ گئی ۔ مینڈک نے اچھلنا شروع کر دیا وغیرہ وغیرہ‘‘بابا جی بولے واہ شاہ صاحب واہ واہ‘‘ میں نے قہقہہ لگایا اور کہا’’میں تو مذاقاً فقرے بول رہا تھا بابا جی کہنے لگے آپ کو پتہ ہی نہیں آپ کیا کہہ گئے۔ یہ تو مینڈک کی تحلیل نفسی کی بات ہے۔ اتنی خوبصورت شے مینڈک پر پہلے کبھی نہیں بیٹھی ہو گی’’پھر ہم دونوں ہنسنے لگے بابا منظور احمد کی یاد کے ساتھ ان کا مشہور نغمہ یاد آ گیا جسے میڈم نورجہاں نے گایا تھا! ’’روشن میری آنکھوں میں وفا کے جو دیے ہیں۔ سب تیرے لئے ہیں‘‘ اب آتے ہیں اپنے موضوع کی طرف کہ مینڈکوں کا اصل قصہ کیا ہے۔ میرا خیال ہے آپ وہ وائرل ویڈیو دیکھ چکے ہوں گے جس میں مینڈک پکڑنے والے اور مینڈکوں سمیت پکڑے جانے والے پولیس کی حراست میں ہیں اور ایک چینل نے ان سے انٹرویو کیا تو پتہ چلا کہ کھودا پہاڑ نکلا مینڈک۔پتہ یہ چلا کہ دو بھائی 115مینڈک تابکاری روڈ پر سپلائی کرنے گئے تھے کہ پولیس نے انہیں دھر لیا اور بقول ان کے مال مسروقہ سمیت تھانے لے آئے۔ لڑکے چیختے رہے کہ مینڈک پکڑنا ان کا خاندانی پیشہ ہے کہ وہ تابکاری روڈ جا کر دکان پر میڈیکل پریکٹیکل کے لئے مینڈک دیتے ہیں۔ مگر ان کی کون سنتا۔ انہوں نے فوراً میڈیا کو بلایا اور اپنے کارہائے نمایاں بیان کر دیے کہ 5من مینڈک پکڑ لئے ہیں وگرنہ یہ نہ جانے کون کون سے ہوٹل کو سپلائی ہوتے اور نہ جانے کون کون لوگ انہیں کھا کر ہضم کر لیتے۔ بڑی سیدھی سی بات ہے کہ میڈیکل کے شعبے میں مینڈکوں کو اساسی حیثیت حاصل ہے کہ ان کے وجود میں نظام انسان سے بہت ملتا جلتا ہے۔ ہم نے بھی ایف ایس سی میڈیکل میں انہی مینڈکوں پر ہاتھ صاف کئے تھے۔ لیبارٹری میں باقاعدہ مینڈک کی ڈائی سیکشن کروائی جاتی ہے۔ یعنی اس کی چیر پھاڑ۔ اس زمانے میں مینڈک سپلائی کا کوئی تصور نہیں تھا اور ہر طالب علم اپنا اپنا مینڈک پکڑ کر لاتا تھا۔ ہم بھی گائوں کے نالے سے جا کر انہیں پکڑتے تھے۔ مینڈک بیچارے کی بدقسمتی کہ اس کا اندرونی نظام انسان کے ساتھ مل گیا اور اس پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ جب سے میڈیکل پڑھایا جاتا ہے مینڈکوں کی شامت آتی رہتی ہے۔ اس کے سر میں ضرب لگا کر اس کے پنجوں کو فکس کر دیا جاتا ہے اور پھر اس کی سرجری ہوتی ہے۔ بس مینڈک کی یہی کہانی ہے۔ تابکاری روڈ پر ایستادہ دکانیں پریکٹیکل اشیا کی ہیں۔ اس مووی میں وہ سرٹیفکیٹ بھی دکھایا گیا کہ جس میں اسلام آباد کے ایک میڈیکل ادارے نے مینڈکوں کا آرڈر دیا ہے۔ گویا یہ مینڈک قانونی تھے۔ پانچ من مینڈک والی خبر صریحاً غلط ہے دلیل اس کی یہ کہ اس رکشے میں 5من مینڈک آ ہی نہیں سکتے ایک اور بات مشہور ہے کہ مینڈکوں کی پنج سیری تولنا ممکن نہیں۔ یعنی 5کلو مینڈک بھی تولے نہیں جا سکتے کہ وہ پھدک کر نیچے اتر جاتے ہیں۔ تو 5من مینڈک کیسے تول لئے گئے۔ یہ ساری ٹیبل سٹوری ہے وہی کہہ ’’خلقت شہر تو کہنے کو فسانے مانگے‘‘ سوشل میڈیا کے تو ہاتھ میں بات آنی چاہیے۔ پتہ چلا کہ وہ خاندان مینڈک سپلائی کرتا ہے ایک مینڈک کے انہیں ساٹھ یا پینسٹھ روپے ملتے ہیں۔ وہ 115مینڈک بلٹی کروانے جا رہے تھے یا دکان پر دینے جا رہے تھے۔ ان بچوں کی ماں کو پولیس نے تھانے میں ایک ٹانگ پر کھڑا کئے رکھا بچوں کو تھپڑ بھی مارے۔ میں سمجھتا ہوں یہ سب جہالت کا نتیجہ ہے پولیس والے پڑھے لکھے ہوتے تو انہیں پتہ ہوتا کہ مینڈک کا استعمال پریکٹیکلز میں ہے۔ گویا لاہور میں آ کر کھانا کھانے سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ لاہوری تو ویسے بھی بہت زندہ دل ہیں۔ آپ کو یہاں نہاری کھلائیں گے۔ آپ لاہوریوں کا جتنا مرضی مذاق اڑا لیں مگر اس میں کچھ حقیقت تو ہونی چاہیے۔ مینڈکوں پر لگی ہوئی پوسٹیں واقعتاً برسات کے مینڈکوں کی طرح نمودار ہوئیں۔ بعض نے تو مینڈک کی ڈشز بھی لگائیں جس میں مینڈک فرائی‘ مینڈ کی رانیں اور چانپیں وغیرہ بھی تھیں۔ آپ یہ بے ہودہ پوسٹیں دیکھ کر کھانا بھی نہیں کھا سکتے۔ ویسے ہم عجیب ہیں ہم المیہ میں سے بھی خوشی کشید کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مجھے یاد ہے جب مجھے بھی ڈینگی بخار ہوا تو لوگ افسوس کرنے کی بجائے پوسٹیں لگا رہے تھے جس میں ڈینگی کہہ رہا تھا کہ کئی شہروں میں گیا ہوں پر ’’لاہور لاہور اے‘‘ جن کی جان پر بنی ہوئی تھی ان کے لئے ایسی پوسٹیں زخم پر نمک چھڑکنے کے مترادف تھیں۔ ہر حادثے اور المیے سے خوشی کشید کرنا ضروری نہیں۔ اگر آپ فکرو تدبر کریں گے تو انہی واقعات سے عبرت بھی پکڑ سکتے ہیں۔ دو اشعار کے ساتھ اجازت: کبھی اس نے مجھ کو جلا دیا کبھی اس نے مجھ کو بجھا دیا میں چراغ تھا تو ہوا نے بھی مجھے اک تماشا بنا دیا مری آنکھ میں جو سما گیا سرِ آب نقش بنا گیا کہاں چاند باقی بچے گا پھر جو کسی نے پانی ہلا دیا