وہ انقلابی ایجنڈا کیا ہوا ؟ ایٹمی دھماکے کے ہنگام وزیرِ اعظم نواز شریف نے جس کا اعلان کیا تھا ۔پولیس میں اصلاحات کا آغاز کیوں نہ ہو سکا ؟ ملک کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کی بجائے بھیک مانگنے اور قرض پہ قرض لینے کا وہ سلسلہ کیوں جاری رہا، جس نے بالاخر ہمیں دلدل کو سونپ دیا ہے ۔ ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا 1998ء کے دبئی شہر میں یہ مئی کا مہینہ تھا ۔1974ء میں پوکھران کے بعد ، بھارت نے دوسری بار ایٹمی دھماکر ڈالا تھا۔ٹیکسی میں سوار ایک پاکستانی شہری کی گاڑی اشارے پر رکی ۔ ایک دوسری گاڑی ، پہلو میں آکھڑی ہوئی ۔اس میں سوار ایک بھارتی شہری نے چیخ کر لمبے تڑنگے پاکستانی کو مخاطب کیا اور کہا : کیا تمہیں پتہ چلا کہ اب تمہارے ساتھ کیا ہونے والا ہے ؟ حیرت زدہ پاکستانی نے اس کی طرف دیکھا تو دھمکی دینے اور منہ چڑانے والے نے واقعے کا انکشاف کیا۔ یہ پاکستانی وفاقی سول سروس کی نگرانی کرنے اور بعض دوسرے اہم امور انجام دینے والا وزیرِ اعظم نواز شریف کا ایک مشیر تھا ۔خاموشی سے کام کرنے والا آدمی ، ہارون خواجہ ! وزیرِ اعظم کے نام ایک پیغام اس نے لکھا اور وزیرِ اعظم کے ذاتی فیکس نمبر پر بھیج دیا۔ خلاصہ یہ تھا کہ ایٹمی دھماکہ کرنے کے سوا پاکستان کے پاس کوئی راستہ نہیں ۔ اگلے ہی دن وہ پاکستان پہنچا ۔ جوں ہی شاہراہِ دستور پر وہ وزیرِ اعظم سیکرٹریٹ میں داخل ہوا ، میاں محمد نواز شریف سے اس کی مڈ بھیڑ ہو گئی ۔ قدرے ناراضی سے انہوں نے کہا : کمال ہے، ایسے اہم موقع پر آپ غائب ہو گئے ۔ صلاح مشورے کا سلسلہ جاری تھا ۔ امریکی صدر بل کلنٹن کے فون پہ فون آتے رہے ۔ ان کا اصرار تھا کہ پاکستان جوا بی دھماکے نہ کرے ۔ بھارتی فوجیں سرحدوں پہ جمع ہو رہی تھیں ۔ بھارتی ذرائع ابلاغ اور سیاستدان پاکستان کا مذاق اڑا رہے تھے ۔ یہ تاثر دینے کوشش تھی کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام محض ایک دھوکہ اور دکھاواہے ۔ بھارتی حکمتِ عملی دو دھاری تلوار تھی ۔ پاکستان دھماکہ کرے تو دہلی پر دنیا بھر سے ہونے والی تنقید کا زور ٹوٹ جائے ۔ توجہ پاکستان کی طرف مبذول ہو جائے ۔ نہ کرے تو اس کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا ہوں ۔ کم از کم بھارتی عوام یہ سمجھ لیں کہ پاکستانی ایٹمی پروگرام فقط فریبِ نظر ہے ۔ نواز شریف شش و پنج کا شکار تھے ۔ جیسا کہ بعد ازاں تب قومی اسمبلی کے سپیکر گوہر ایوب نے انکشاف کیا : دونوں بھائیوں کا اندازِ فکر یہ تھا کہ دھماکے کو اگر ٹالا جا سکتا ہو تو ٹال دیا جائے ۔گوہر ایوب کے بقول شہباز شریف کے الفاظ یہ تھے : کلنٹن سے میاں صاحب کی بات ہو رہی ہے ۔ ممکن ہے کوئی اچھا پیکج مل جائے ۔ ہمیشہ کی طرح شریف خاندان کی نگاہ روپے پر تھی ۔ چینل تو تھے نہیں ۔ اخبارات تھے اور ان میں مجید نظامی ایسے طاقتور مدیر بھی ۔ اسی دوران جب اخبارات کے ایڈیٹر مشورے کے لیے مدعو کیے گئے تو مجید نظامی نے وہ جملہ کہا ، جو ہمیشہ دہرایا جاتاہے : آپ اگر دھماکہ نہیں کریں گے تو آپ کا دھماکہ ہو جائے گا ۔ راجہ ظفر الحق نے کہا تھا ایسے میں وہ مستعفی ہو جائیں گے ۔ مختلف زمانوں میں وزیرِ اعظم کے اخباری ترجمان بدلتے رہے ۔ اس وقت جو صاحب تھے ، روزنامہ جنگ میں اس موضوع پر ان کے پہلے کالم کا عنوان تھا ’’ میزائل نہیں ، منڈی۔ ‘‘ موصوف کے موقف پر تبصرہ کرتے ہوئے ناچیز نے انہیں ظہیر الدین بابر کے منجم شریف سے تشبیہ دی ۔ کنوابہ کی اس فیصلہ کن جنگ سے پہلے ، جس نے ہندوستان میں مغل اقتدار کی بنیاد رکھی، ستارہ شناس بعض تھکے ماندے ترک جنرلوں کے ساتھ سازباز میں شامل ہو گیا تھا ۔ جنرلوں کا کہنا تھا کہ مہینوں سے جاری جنگوں کے باعث وہ تھک چکے ہیں ، تعداد ان کی کم ہے ، دشمن بہت زیادہ اور سرزمین اس کی ہے ۔ بابر کو ہیرالڈلیم Prince of all princesکہتاہے : تمام بادشاہوں کا بادشاہ ۔ بدترین حالات میں بھی پختہ ارادے اور یکسوئی سے بروئے کارآنے والا آدمی ۔ خواہ بے دست و پا ہو ، ولولے سے سرشار اوراو لو العزم۔بابر کے جنرلوں کو ادراک نہیں تھا کہ انجینئر نادر العصر کو توپ سازی کی جو مہم بادشاہ نے سونپ رکھی تھی ، وہ اب انجام کو پہنچ گئی تھی ۔ میدانِ جنگ میں بابر اسے آزمانے کے لیے تیار تھا ۔ اس موقع پر بابر نے کہا تھا: جنگ میں اترنے کے سوا ہمارے لیے کوئی چارہ نہیں ۔بچنے کی اگر کوشش کی تو کابل تک کتوں کی طرح بھاگتے اور کتوں کی طرح مارے جائو گے ۔ دھماکے کی حمایت شاید 90فیصد سے زیادہ تھی ۔ عسکری قیادت یہ بات خوب سمجھتی تھی کہ دھماکے سے بچنے کی کوشش تباہ کن ہوگی ۔ مشاہد حسین سمیت عوامی جذبات کی اہمیت کو سمجھنے اور اس کا ادراک رکھنے والے وزرا نے اپنے لیڈر کو بتا دیا تھا کہ دھماکہ نہ کیا تو یہ ان کی سیاست کا خاتمہ ہوگا ۔ آغازِ کار میں بے نظیر بھٹو خاموش رہیں لیکن پھر قطعیت کے ساتھ انہوں نے اعلان کیا کہ دھماکہ کرنا ہی ہوگا ۔ ہارون خواجہ اپنا مشورہ دے ہی چکے تھے لیکن پھر 27مئی کی شام عشائیے سے کچھ دیر پہلے وہ طلب کیے گئے ۔ کھانے کی میز پر دائیں ہاتھ کی پہلی کرسی پہ سفید بالوں والا ، بوٹا سے قد کا ایک آدمی براجمان تھا ۔ بائیں ہاتھ کی چوتھی کرسی پر میاں محمد شہباز شریف ۔ ہارون خواجہ کمرے میں داخل ہوئے ، وزیرِ اعظم نے بائیں ہاتھ کی پہلی کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا ۔ ا س کے ساتھ ہی اپنے چھوٹے بھائی سے کہا کہ اب وہ تشریف لے جا سکتے ہیں ۔ بائیں ہاتھ بیٹھا ہوا آدمی الطاف گوہر تھا ۔ ایوب خان کا سیکرٹری اطلاعات اور تقریر نویس ۔ایک دانشور کی حیثیت سے جس کا احترام کیا جاتا ۔ اردو اور انگریزی زبان پر غیر معمولی دسترس رکھنے والا، وہ ایک قادر الکلام آدمی تھا ۔ وہ آدمی جس نے سید ابو الاعلیٰ مودودی کے فصیح ترجمہ ء قرآن کا کچھ حصہ انگریزی میں ڈھالا ۔ وزیرِ اعظم کے کہنے پر الطاف گوہر نے تقریر پڑھنا شروع کی، جووزیرِ اعظم کو دھماکوں کے بعد کرنا تھی۔ کچھ دیر میں ایک اخبار نویس کمرے میں داخل ہوئے اور خاموشی سے کرسی پر بیٹھ گئے ۔ یہ روزنامہ جنگ کے انور قدوائی تھے ۔ ان سے کہا گیا کہ چپ چاپ وہ یہ تقریر سنیں ۔ کوئی مشورہ ہو تو بعد میں دے سکتے ہیں ۔ ہارون خواجہ کا کہنا ہے کہ یہ ایک خیرہ کن خطاب تھا ۔ ایک نئے قومی ایجنڈے کی تشکیل اور قومی جذبات کا ایسا اظہار کہ وہ ضبط نہ کر سکے اور بے اختیار آنسو ان کی آنکھوں سے پھوٹ بہے ۔ 11 برس بعد ، مرحوم انور قدوائی نے اس ملاقات کی روداد لکھی۔ پولیس ، عدالتی اصلاحات اور غیر ملکی قرضوں سے چھٹکارے ایسے انقلابی اقداما ت کا ذکر تو نہ کیا البتہ یہ لکھا کہ کالا باغ ڈیم بنانے کا جو اعلان اس تقریر میں رقم تھا، اس پر انہیںتشویش ہوئی ۔الطاف گوہر نے نواز شریف سے کہا تھا کہ دھماکے بعد وہ ملک کے مقبول ترین لیڈر ہوں گے اور اپنا ایجنڈا نافذ کر سکیں گے ۔ قدوائی صاحب کے الفاظ یہ ہیں ’’جب ہم پورچ میں پہنچے تو ڈیوڑھی کی منڈیر پر الطاف گوہر بیٹھ گئے۔ میں نے ان کے دونوں پائوں پکڑ کر عرض کیا: جنابِ والا آپ نے یہ کیا کر دیا ‘‘ الطاف گوہر کا جواب یہ تھا:حکمران اسی طرح کی باتیں سننا پسند کرتے ہیں ۔ وہ انقلابی ایجنڈا کیا ہوا ؟ ایٹمی دھماکے کے ہنگام وزیرِ اعظم نواز شریف نے جس کا اعلان کیا تھا ۔پولیس میں اصلاحات کا آغاز کیوں نہ ہو سکا ؟ ملک کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کی بجائے بھیک مانگنے اور قرض پہ قرض لینے کا وہ سلسلہ کیوں جاری رہا، جس نے بالاخر ہمیں دلدل کو سونپ دیا ہے ۔ ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا