وفاقی وزرا ء کا وتیرہ ہی بن گیا ہے کہ واحد صوبے جہاں اپوزیشن جما عت پیپلز پا رٹی کی حکومت ہے کو کو ستے رہتے ہیں ۔ تا زہ تڑ کا وزیر اطلاعا ت فو اد چودھری نے لگایا ہے ۔ جہلم کے چودھری جن کے بزرگوں سے میر ے والد حمید نظامی مرحوم کے قریبی تعلقا ت تھے، مجھے یا د ہے کہ میں والد صاحب کے ہمراہ کئی بار راولپنڈی جاتے ہو ئے گپ شپ اور چائے پینے کے لیے ان کے ہاں رکا، اس دور میں جی ٹی روڈ کے ذریعے ہی را ولپنڈی کا سفر ہو تا تھا ،حمیدنظامی مر حوم اکثر مجھے سا تھ لے جا تے تھے۔ ظاہر ہے میر ے لئے چودھری صاحب احترام کی جگہ پر، تا ہم مجھے اپنے فرا ئض بھی ادا کرنے ہو تے ہیں ۔ اسی بنا پر خو گر حمد سے تھو ڑا سا گلہ بھی سن لے ، فو ادچو دھری کو یہ ملکہ حاصل ہے کہ وہ جس وزارت میں بھی جائیں وہاں جاکر حکومت کی بھر پو ر طر یقے سے تر جمانی کر تے ہیں ۔ حال ہی میں انہیں دوبارہ وزارت اطلا عا ت کا قلمدان سونپا گیا ۔غالبا ًاس کی وجہ یہ ہے کہ سا ئنس وٹیکنا لو جی کے وزیر ہونے کے باوجود وہ ہرمعاملے میں ٹانگ اڑا لیتے اور اپوزیشن کوبے نقط سناتے تھے۔ ان کے مقا بلے میں سبکد وش ہو نے والے وزیر اطلاعا ت شبلی فراز جو معر وف شاعر احمد فراز کے صا حبزادے ہیں، محتاط انداز میں گفتگو کر تے ہیں اور اپوزیشن پر فواد چودھری کی طرح شد ید تنقید نہیں کر پاتے تھے ۔وزیر اعظم جو اپوزیشن کے خلا ف یلغار کو بہت دور تک لے گئے ہیں خود فرما چکے ہیں کہ جب تک زند ہ رہوں گا نو از شر یف کو نہیں چھوڑ وں گا ،اسی بنا پر ان کی ٹیم بشمول تر جمانوں کی فو ج ظفر مو ج کی باقا عد ہ حو صلہ افزائی کی جاتی ہے ۔ وزیر اطلا عا ت فواد چودھری نے دھمکی دی ہے کہ وفاق سند ھ کو جا ری فنڈز کی ما نیٹر نگ کا خواہشمند ہے۔ انہوں نے کر اچی پریس کلب میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ’’سندھ میں جمہوریت کے نام پر آمریت نافذ ہے، جو پیسہ بھی سندھ سرکار کو دیتے ہیں، وہ دبئی سے برآمد ہوتا ہے، لانچوں اور جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے پیسہ باہر جاتا ہے جس کے باعث کراچی کو بجٹ میں حصہ بقدر جثہ نہیں ملتا‘‘۔ لیکن بلا تحقیق اتنا بڑا الزام کسی جماعت کی قیادت پر لگا دینا کہاں تک مناسب ہے ۔اس الزام میں صداقت ہو بھی تو کسی اعلیٰ سطح کی تحقیقا ت کے ذریعے ہی ذمہ داروں کا تعین کیا جا سکتا ہے ۔ ابھی تک ثبوت کے سا تھ الزاما ت ثابت نہیں ہو سکے لیکن الزامات اور اس کے جواب میں لگا ئے جانے والے الزاما ت سیا ست میں ارتعاش پیدا کر دیتے ہیں ۔سند ھ کی صوبا ئی حکومت گالی گلو چ کے بجا ئے صرف یہ گلہ کر رہی ہے کہ ہمیںپا نی کا پو را حصہ نہیں دیا جا رہا اور اس ضمن میں چیئر مین پیپلزپا رٹی بلاول بھٹو نے پیر کو محتر مہ بے نظیر بھٹو کی68ویں سا لگر ہ کے موقع پر کرا چی میں تقر یب سے خطاب کرتے ہو ئے کہا جو نیا پاکستان ہمارے سامنے بن رہا ہے اس میں عوام سے روٹی کپڑا اور مکان کے علاوہ جمہوری خواب بھی ہم سے چھینا جارہا ہے، سند ھ کے عوام پر جو معا شی حملے ہو رہے ہیں انہیں ناکام بنا دیا گیا ہے، تا ہم یہ کام کم از کم وفاق کی طرف سے ہتھ چھٹ طر یقے سے جا ری وسا ری ہے ۔ سند ھ کی اعلیٰ قیادت بشمول وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ،وزیر اطلاعات ناصر حسین شاہ اور عملی طور پر صوبائی حکومت کے تر جمان مرتضیٰ وہا ب بھی گلہ کر تے رہتے ہیں ۔ اس میں کو ئی شک نہیں کہ بد قسمتی سے سند ھ حکومت معاملا ت میں اتنی شفا فیت نہیں پیدا کر پا ئی جو وقت کی ضرورت ہے لیکن وزیر اطلاعا ت نے سند ھ میں آ رٹیکل 140اے کے نفاذ کی بات کی ہے، اس میں کو ئی وزن نظر نہیں آتا کیونکہ اس ’’جر م ‘‘ کے مر تکب دیگر صوبے بھی ہیں ۔ صرف سند ھ نے صا ف طور پر انکا ر کرتے ہو ئے اس ما ہ کے آخر تک لوکل باڈیز کے انتخابات کرانے سے معذرت کردی ہے اور کہا ہے کہ وہ رواں برس نہیں ہوپا ئیں گے کیونکہ صو با ئی حکومت دوسر ے اہم امور میں مصر وف ہے ۔گو یا کہ سیا سی وجو ہا ت کی بنا پر ہچکچا ہٹ کے باوجود تکنیکی جواب گھڑا جا رہا ہے جوکہاں تک منا سب ہے۔ یہاں یہ سو ال پیدا ہو تا ہے کہ تحر یک انصاف کی حکومت جو دیگر تین صوبوں میں برسراقتدار ہے اپنے گر یبان میں جھانکے کم از کم وہ یہ شیڈول دے دے تو وہ اس الزام سے مبرا ہو جائے گی کہ وہ لیت و لعل سے کام نہیں لے رہی۔ اپوزیشن بھی اپنی چھریاں تیز کئے بیٹھی ہے اورکو ویڈ 19کے لیے آنے والے فنڈز میں خور د برد کا الزام لگا تے ہوئے کہہ رہی ہے ویکسین خیرات میں نہیں ملتی،لوگوں کی زندگیوں کیلئے اس پر پیسے خرچ کئے جائیں ۔شہباز شر یف نے متنبہ کیاہے کہ حکومت کو عوام کی زند گیوں سے نہیں کھیلنا چا ہیے اور ویکسین کی سپلائی یقینی بنانا چا ہیے ۔ سطحی سوچ کی حکومت چند لاکھ ویکسین لگوا کر اپنے فرا ئض منصبی سے مبرا ہوگئی ہے ۔ اس حوالے سے حکومت عطیا ت کا سہا راکیونکرلے رہی ہے۔ اگر چہ وفاقی حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ خیرات پر نہیں بلکہ قیمت ادا کر کے ویکسین ہنگامی طور پر امپورٹ کر رہی ہے۔اس کی بھی اسی طرح کی انکوائری کامطالبہ درست ہے کہ’’ زرداری اینڈ کو‘‘ کے لیے اگر مانیٹر نگ کی خواہش ظاہر کی جا رہی ہے تو کیوں نہ اس معاملے کی بھی جا ئے ۔ بد قسمتی سے اپو زیشن اور حکومت کے درمیان قومی اسمبلی میں صلح کا وعد ہ ایفا نہیں ہو پا یا ۔ اپو زیشن کو گلہ ہے سپیکر کی موجو دگی میں حکومتی جما عت سے طے پایا تھا کہ قومی اسمبلی میں ایک روز میں کارروائی بلڈوز کر کے انتخابی اصلاحات کے منظور کیے گئے بلز واپس لئے جائیں گے پر عمل نہیں کیا ۔ نیز پا رٹی سربراہوں کی ذاتیا ت پر حملے نہیں کئے جائیں گے لیکن حکمران جما عت کی طرف سے اشتعال انگیز تقر یر یںجا ری ہیں۔ اگر چہ مسلم لیگ (ن) کا اصرار ہے کہ حکومت اپنی یقین دہانی سے مکر گئی ہے لیکن سپیکر اسد قیصر اس معاملے میں مہربلب ہیں، ان بلو ں کی واپسی کے بارے میں نظر ثانی کیلئے پینل بنانے کا فیصلہ ہوا تھا لیکن فی الحال وہ اس معاملے میں پیش رفت سے قا صر نظر آ تے ہیں گو یا کہ قومی اسمبلی میں سیز فا ئر زیا دہ سے زیا دہ ثانو ی نو عیت کا ہی ہے حالانکہ اپو زیشن ابھی تک ذاتی حملے کر نے سے اجتناب کر رہی ہے ۔ن لیگ کے رہنما خر م دستگیر نے قومی اسمبلی میں اپنی تقریر میں ذاتی حملے کئے بغیر انتہا ئی شستہ زبان استعمال کی۔انہوں نے کہا بجٹ پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا’’ ہائبرڈ نظام کا تجربہ عمرانی نا کام ہو چکا ہے،یہ بجٹ بک عمرانی تخیلات کی کتاب ہے، ٹیکسوں میں اضافہ کیا گیا ہے،قرضوں کا بوجھ بڑھ گیا ہے، بجٹ کے نتیجے میں مہنگائی بڑھ جائیگی، آمدنی و اخراجات کے اعدادوشمار ہی غلط ہیں،آٹے ، چینی ، دال ، گھی کی قیمتوں میں 96فیصد اضافہ ہو چکا ،ہر سوال کے جواب میں کہتے ہیں تم چور ہو‘‘۔ پیپلز پا رٹی کے رہنما را جہ پرویز اشرف نے بھی سخت لیکن جامع اور مد لل صلح جو ئی پر مبنی تقر یر کی ۔ ان کاکہنا تھا’’حکومت ایف بی آر کو تاجروں کی گرفتاری کا اختیار دینے کی شق ختم کرے، آئی ایم ایف اور ایف اے ٹی ایف کی ڈکٹیشن پر بھونڈے انداز میں قانون سازی کی جارہی ہے، عوام کے دکھوں کا مداوا تقریروں سے نہیں ہوسکتا، اپوزیشن پر الزامات کے ہتھیار سے مزید کام نہیں چل سکتا، آئیں مل کر مشاورت سے قانون سازی کریں‘‘۔خوش قسمتی سے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے پا س کئی ایسے مد لل با تیں کرنے والے موجود ہیں،بد قسمتی سے حکمران اتحاد میں بہت کم ایسے مقرر ہونگے جو دلا ئل کے سہا رے بات کر سکتے ہیں۔