مقبوضہ کشمیر میں مودی کے اقدام کے بعد پاکستان مقدور بھر کوشش کر رہا ہے کہ اسکے حوالے سے جو کچھ بھارت کر چکا ہے اس سے ایک تو آگے نہ بڑھے بلکہ اس قدم سے بھی اسکو پسپائی اختیار کرائی جائے دوسرا کشمیریوں کو کرفیو میں رکھ کر انکی نسل کشی نہ ہو پائے۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو روکا جا سکے۔ اس مقصد کے لئے پاکستان تقریبا ً ہر بین الاقوامی فورم پر جا کر ہر دروازہ کھٹکھٹا رہا ہے۔ہماری پارلیمنٹ ہو، دفتر خارجہ ہو، پاکستانی تارکین وطن ہوں یا پھر معاشرے کا کوئی بھی طبقہ ہو، کشمیریوں کی اس مشکل میں اپنے تئیں بھرپور آواز اٹھا رہا ہے اور یہ آواز سنی بھی جا رہی ہے۔ اس لئے دنیا بھر سے پاکستان اور بھارت کو اس صورتحال میں محتاط رہنے کا بار بار مطالبہ کیا جا رہا ہے۔لیکن ہمارے ہاں ایک مخصوص سوچ کا حامل طبقہ ہے جن کو کسی صورت چین نہیں پڑ رہا۔ وہ پاکستان کے ہر اقدام کا مذاق دل کھول کر اڑا رہے ہیںجیسے یہ ملک یا ریاست کا قدم نہ ہو بلکہ عمران خان کسی ذاتی فائدے کے لئے کر رہا ہو۔اگرچہ ان لوگوں کی تعدا د آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہے اور انکے کہے کا کوئی اثر بھی کیوں لے گا لیکن پھر بھی وہی ڈھاک کے تین پات کی رٹ جاری ہے۔ ایک ممکنہ اعتراض یہ ہو سکتا ہے کہ بھئی اگر یہ بہت ہی قلیل تعدا د ہے تو آپ کو کیا تکلیف ہ رہی ہے۔یقینا مجھے تکلیف ہو رہی ہے کیونکہ اس میں مرے جاننے والے ایسے لوگ جنکے بارے میں میرا خیال ہے کہ وہ وہ بین الاقوامی معاملات کو بہت اچھی طرح سمجھتے ہیں اور ان پیچیدگیوں سے بھی واقف ہیں جو اس مرحلے پر کسی بھی ملک کو دنیا کو اپنے موقف پر قائل کرنے کی راہ میں حائل ہیں۔ کچھ تو ان میں سے باہر کی یونیورسٹیوں سے بین الاقوامی امور کی ڈگریاں بھی لے کر آئے ہیں۔انکی سوچ دیکھ کر تو اندازہ ہوتا ہے کہ یا تو ڈگری جعلی ہے یا پھر عمران دشمنی میں وہ اپنی پڑھائی پر بھی لعنت بھیج چکے ہیں۔یہ ایک بہت تکلیف دہ بات ہے کہ ہمارے ملک کا ایک پڑھا لکھا طبقہ ایسی ذہنی پسماندگی کا شکار ہو چلا ہے جو انکے لئے تو نقصان دہ ہو گی ہی، لیکن ان سے جو معاشرے کو فائدہ پہنچ سکتا ہے وہ اپنی ساکھ خراب کر کے اس سے بھی معاشرے کو محروم کر دیں گے۔ جمعہ کے روز کشمیریوں کے ساتھ یوم یکجہتی کے لئے ملک بھر میں جو اجتماعات ہوئے وہ اس بات کی دلیل ہیں کہ پاکستانیوں کے دل کشمیری بھایئوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ ملک میں شاید ہی کوئی ایسی گوٹھ، گائوں یا شہر ہو گا جہاں لوگ گھروں سے نہ نکلے ہوں۔اس بات پر اس مخصوص طبقے کو پتہ نہیں کیا تکلیف ہوئی کہ سوشل میڈیا پر سستی جگتوں کے ذریعے اپنا اصل دکھانا شروع کر دیا۔یوں لگ رہا تھا کہ یہ بھارت سرکار کے خلاف احتجاج نہیں تھا بلکہ ان ٹوئٹر اور فیس بک جنگجوئوں کے خلاف تھا۔عوامی طاقت کی بات کرنے والے اور جمہوریت کا دن رات رونا رونے والوں کو عوام کا کشمیریوں کی حمایت میںجوق در جوق سڑکوں پر نکلنا پسند نہیں آیا۔آپ کو حکومت کی حکمت عملی سے اختلاف ہو سکتا ہے لیکن کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے کسی عمل پر تو تنقید یا مخالفت کی کوئی دلیل نہیں ہو سکتی۔اس وقت جو صورتحال مقبوضہ کشمیر میں ہے ، آپ حکومت اور عمران خان کی بات پر یقین نہ کریں لیکن بھارتی اور بین الاقوامی میڈیا حتیٰ کہ بھارتی اپوزیشن جماعتیں وہاں پر انسانی زندگیوں کے حوالے سے پیدا صورتحال کے بارے میں بغیر لگی لپٹی بول رہا ہے۔اسوقت ایک چھوٹے سے چھوٹا بول، جملہ،قدم ، بات، مقبوضہ کشمیر کے باسیوں کے لئے بڑے حوصلے کا باعث بن رہا ہے کیونکہ بین ا لاقوامی برادری کو مسلسل احساس دلانے کی ضرورت ہے۔ ان ستر لاکھ گھروں میں قید کشمیریوں کی آواز پہنچانے کی ضرورت ہے تا کہ کشمیریوں کی ستر سالہ جدوجہد اور قربانیاں اسی کرفیو کے اندر قید ہو کر دم نہ توڑ جائیں۔آپ کو کوئی نہیں کہہ رہا کہ وہاں جا کر جنگ لڑیں اور نہ آپ اس قابل ہیں کہ یہ جنگ لڑ سکیں، اگر ہو سکے تو خاموش ہی رہ لیں یہ بھی آپ کا ان مظلوموں پر بہت بڑا احسان ہو گا۔زیادہ دیر نہیں بس مقبوضہ کشمیر میں موجودہ کرفیو کے ہٹنے تک اگر آپ خاموش رہیں تو آپکی مہربانی ہو گی کیونکہ ابھی وہاں اندر سے کچھ نہیں ہو سکتا جو کچھ ممکن ہے وہ باہر بیٹھے ہمارے اور آپ جیسے ہمدرد کر سکتے ہیں۔ دنیا کو اس مسئلے کی طرف متوجہ کرنے کے لئے جو بھی طریقہ اختیار کیا جا رہا ہے اسکا ساتھ دیجیے۔جب وہاں سے کرفیو اٹھے گا انہیں ہماری ضرورت نہیں ہو گی انکو اپنی جنگ لڑنا آ گئی ہے ۔ وہ ستر سال سے بھارت کو ناکوں چنے چبوا رہے ہیں اور اب بھی بھارت بھلے کتنی ہی فوج وہاں متعین کر دے انکی جذبہء آزادی کو ماند نہیں کر پائے گا۔ عمران خان اور اسکی حکومت کی حکمت عملی میں آپ جتنے بھی کیڑے نکالیں لیکن ایک بات حقیقت ہے کہ پچاس سال بعدپہلے سے زیادہ مضبوط اوربین الاقوامی سطح پر بہت زیادہ دوست رکھنے والا بھارت اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں اس معاملے پر بحث کو نہیں رکوا سکا۔دنیا کا کوئی ایسا بڑا لیڈر نہیںہے جس نے بھارت کو اس مسئلے کے حوالے سے اپنی تشویش کا اظہار نہ کیا ہو۔ بھارت اس بری طرح سے وہاں پھنس چکا ہے کہ وہ اپنی نیوکلئیر No First strike پالیسی پر نظر ثانی کا عندیہ دے چکا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہPre-emptive Strike کا سوچ رہا ہے۔یہ بات صاف ظاہر کرتی ہے کہ مودی حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں بلنڈر کر دیا ہے اور وہ اس سے جان چھڑانے کے لئے پاکستان کے ساتھ کوئی پنگا کرنے کا سوچ رہا ہے۔یہ ایک تاریخی موقعہ ہے کہ کشمیریوں کا بھرپور ساتھ دیا جائے جس دلدل میں بھارت نے پیر رکھدیا ہے اس میں اسکے اٹوٹ انگ کے نعرے کو دفن کر دیا جائے۔