اسلام سادگی سکھاتا ہے اور ماشاء اللہ اس رمضان پر سادگی کا دور دورہ ہے۔ شاید عمران خاں کی ’’ریاست مدینہ‘‘ کی طرف ہونے والی یہ سب سے اہم پیشرفت ہے۔سحری بھی سادہ‘ افطار بھی سادہ‘ بلکہ سادہ تر۔ عمران خاں کی سعادت کے کیا کہنے‘ ملک بھر کے کروڑوں روزہ دار انہیں سحری کے وقت بھی جی بھر کر یاد کرتے ہیں اور افطاری پر بھی پانی پی پی کر۔ سادگی کی مدد کیجیے‘ اس بار افطاری سے لیموں پانی بھی غائب ہے۔ چار سو روپے کلو لیموں کبھی کسی نے خواب میں بھی نہیں سنے ہوں گے لیکن اس بار کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کے ایک حامی سے پوچھا گیا کہ میاں‘ اتنی زیادہ قیمت‘ بولے کیا کریں‘ نواز شریف نے تین ہزار کروڑ چوری کر لئے۔ لیموں نے چار سو روپے کلو تو ہونا ہی تھا۔ آٹے کا توڑا آن کی آن میں ستر روپے کلو مہنگا ہو گیا۔ چینی 73سے 75روپے کلو مل رہی ہے اور پھر بہت سے لوگ حیران ہو کر پوچھتے ہیں کہ یہ پھل کیا ہوتا ہے۔ کیسا ہوتا ہے۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ کو خدا سلامت رکھے۔ ایسے رمضان بازار لگائے ہیں کہ چیز تو سستی نام کو نہیں البتہ خریدار کو اس کی اوقات دکھانے اور بتانے کا بھر پور بندوبست ہے۔ ماضی کی کسی حکومت کو ایسا بندوبست کبھی نہ سوجھا۔ ٭٭٭٭٭ حکومت نے اور کوئی کام تو کیا کرنا تھا لیکن ایک کام میں وہ کمال کی بازی لے گئی اور وہ ہے وزیر اعظم کے روزانہ بنیادوں پرہونے والے ’’قوم سے خطابات‘‘ ۔وزیر اعظم کو شاید ’’روحانی سائنس‘‘ نے جسے وہ رہونی سائنس اور رعو نیاتی سائنس کہتے ہیں‘ نے، بتایا ہے کہ کیمرے کے سامنے سے مت ہٹنا ورنہ دلوں سے اتر جائو گے۔ یہی لگتا ہے چنانچہ وہ کیمرے سے اورکیمرہ ان سے چمٹا رہتا ہے۔ گھنٹہ گھنٹہ بھر کے خطابات اور کمال یہ ہے کہ ہر بار نئی دریافت کے ساتھ سامنے آتے ہیں۔ تازہ خطابات میں ایک بات سوال کے انداز میں فرمائی’صدارتی انتخابات کی بحث نہ جانے کہاں سے آ گئی؟ عوام کے بجائے اپنے گورنر شاہ فرمان‘ تین عدد وفاقی وزراء اور اپنی سوشل میڈیا ٹیم‘ آفیشل پی ٹی آئی سے پوچھ لیتے تو وہ بتا دیتے کہ کہاں سے آئی۔ بہرحال‘ حالات نے ساتھ نہیں دیا ورنہ بحث کو منطقی انجام پر پہنچانے کا فیصلہ خود اپنے اونچے ایوانوں میں ہوا تھا۔ اب یہ غیر منطقی انجام کو پہنچی ہے تو کہا جا سکتا ہے کہ بلاکے بود رسیدہ ولے بخیر گزشت‘ حسرت اس غنچے پہ ہے جو بن’’اگے‘‘ مر جھا گیا۔ مزید فرمایا‘ معیشت تو اچھی بری ہوتی رہتی ہے۔ اصل چیز نظریہ ہے۔ معیشت والی بات تو واقعی دل کو لگتی کہی۔ معیشت کے ساتھ جو آپ نے کیا‘ اس کے حساب سے تو آپ یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ معیشت تو آنی جانی شے ہے۔ اور ہم جو دیکھ رہے ہیں‘ وہ جانی ہی جانی والا ماجرا ہے۔ آنی کی باری تو آنے سے رہی۔ نظریے کی بابت یہ اعلان کیا کہ کمزور پڑ جائے تو ملک خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ رحونیاتی یا رحونتی سائنس (روحانی سائنس) کا ہی کوئی باب سمجھئے۔ لگتا ہے تاریخ جغرافیہ‘ اسلامیات‘ معیشت پر ’’مقالات‘‘ لکھنے کے بعد اب خاں صاحب نے سیاسی سائنس کا رخ کیا ہے اور ایسی شے دریافت کر ڈالی ہے جس کا کہیں وجود ہی نہیں ہے۔ نظریے کا ملکی بقا سے کیا تعلق ہے؟ بالعموم ملکوں کے نظریات ہوا ہی نہیں کرتے۔ پاکستان ایک استثنیٰ ہے کہ یہ نظریے کی بنیاد پر وجود میں آیا لیکن اس نظریے کو تو ہم کب کا بدل چکے۔ ملکوں کے نظریے نہیں ہوا کرتے اور اگر چند ایک نے رکھے تو بدلے بھی‘ اس سے ملک پر کوئی فرق نہیں پڑا۔ ایک مثال ایران ہے۔ شاہ کے زمانے میں یہ سیکولر ملک تھا‘ قدرے مذہب بیزار بھی۔ ملک قائم رہا۔ پھر مولوی لوگ آ گئے۔ ملک پر تھیا کریسی چھا گئی۔ ملک جوں کا توں ہے۔ کل کلاں کوئی اور گروہ غالب آ گیا اور نیا نظریہ لے آیا تو بھی ملک باقی رہے گا۔ پڑوس میں ترکی ہے۔ عرصہ دراز تو سیکولر رہا۔ کماللی نظریہ صرف سیکولر ہی نہیں تھا‘ اسلام دشمن بھی تھا۔ قرآن پاک چھاپنے رکھنے پڑھنے اور اذان دینے پر پابندی رہی۔ ملک قائم رہا۔ اب اسلامسٹ آ گئے ہیں تو بھی ملک قائم ہے۔ پاس میں دیکھیے نیپال اور سری لنکا کا کیانظریہ ہے ۔ افریقہ کے ملکوں کے کیا نظریات ہیں؟ یوگنڈا اور مڈغاسکر کس نظریے کی بنیاد پر قائم ہیں امریکہ اور کینیڈا کے کیا نظریات ہیں؟ تائیوان اور فلپائن کا کیا نظریہ ہے۔ ملکوں کے نظریات نہیں ہوتے۔ مفادات ہوتے ہیں اور انہی کی بنیاد پر خارجہ پالیسی بنتی ہے۔ کس ملک سے دوستی کرنی ہے کس کی مخالفت ‘ یہ سب مفادات کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ پاکستان نظریے کا نام ہے تو ہمیں چین سے دوستی کرنی ہی نہیں چاہیے کہ اسلام اور مسلمانوں سے جو رویہ اس کا ہے کسی اور ملک کا نہیں ہے لیکن قومی مفادات کا تقاضا ہے کہ اس سے دوستی ہو اور وہ ہے۔ اگرچہ اب اس کی گرم جوشی قدرے مدھم پڑتی جاتی ہے۔ ملکوں کی سلامتی کا کوئی تعلق نظریے سے نہیں ہوتا اور خطرہ ان ملکوں کو ہوتا ہے جو وفاق ہوتے ہیں اور وفاقی یونٹوں سے انصاف نہیں کرتے۔ پاکستان نے بنگال سے انصاف نہیں کیا، ٹوٹ گیا۔ انڈونیشیا نے مشرقی تیمور سے انصاف نہیں کیا وہ الگ ہو گیا۔ انڈونیشیا نے آچے سے انصاف نہیں کیا وہ الگ ہونے ہی والا تھا کہ جمہوری حکومت آ گئی اور ان کے مطالبے مان لئے اب آچے پوری طرح انڈونیشیا کا حصہ ہے۔ بھارت کی پانچ شمال مشرقی ریاستوں میں علیحدگی کی تحریک تھی ان کے مطالبے مان لئے گئے اب وہاں کوئی شورش نہیں ہے(کشمیر کا مسئلہ حقوق کا نہیں‘ ناجائز قبضے کا ہے) سوڈان نے جنوبی سوڈان سے زیادتی کی وہ الگ ہو گیا سربیا نے پانچ وفاقی یونٹوں پر ظلم کیا پانچوں الگ ہو گئے۔ اب یوگو سلاویہ کا وجود ہی نہیں رہا۔ یوکرائن سے کرائمیا الگ ہو گیا۔ فلپائن کو مورو والوں کو خود مختاری دینا پڑی۔ آپ خبر لیجیے۔ سندھ بلوچستان اور پختونخوا کی جہاں اچانک سے کیا نامطلوب سوچ پنپنے لگی ہے۔ لیکن آپ خبر کیوں لیں گے۔ آپ نے رحونیاتی سائنس کو سپر سائنس بنائیں گے۔ نئی نئی دریافتیں کرتے رہیں گے آپ کے نزدیک تو معیشت کوئی مسئلہ ہی نہیں‘ بالکل ایسے ہی جیسے بھوکے کی بھوک کوئی مسئلہ ہی نہیں ہوتی۔