چند روز پہلے جیل میں نواز شریف سے حضرت ناصح کے جس خصوصی نمائندے کی بات ہوئی تھی‘ اس نے خصوصیت کے ساتھ جو مشورے دیے تھے ان میں سے یہ ایک’’بالخصوص‘‘ مشورہ تھا کہ کٹھ پتلی صاحب پر تنقید نہ کی جائے اور کی جائے تو ’’ھولا ہتھ ‘‘ رکھا جائے لیکن مریم نواز نے یوم تکبیر پر جو خطاب کیا‘ اس سے لگتا ہے کہ حضرت ناصح کے پند نامے کو چنداں وقعت نہیں دی گئی۔ مریم نے نہ صرف کٹھ پتلی صاحب کو آڑے ہاتھوں لیا بلکہ انہیں ’’تم‘‘ کہہ کر بھی مخاطب کیا۔ دیکھیے اب ’’پردہ نیب‘‘ سے کیا ظہور میں آتا ہے کوئی نیا ریفرنس؟ ویسے الیکشن کمشن نااہلی کے لئے پہلے ہی حرکت میں آ چکا ہے۔ نواز شریف پر تو ایک نیا کیس آ بھی گیا۔ تفتیش بھی ہونا شروع ہو گئی۔ اس بات کی کہ جب وزیر اعظم تھے تووزیر اعظم ہائوس کی گاڑیوں کا غیر سرکاری استعمال کیا۔ واضح رہے کہ یہ وہی گاڑیاں ہیں جن کا استعمال معزز قبلہ کٹھ پتلی صاحب کے دو صاحبزادے ایئر پورٹ سے وزیر اعظم ہائوس تشریف لاتے ہوئے کرتے پائے گئے تھے۔ شاید یہ صاحبزادے ’’سرکاری‘‘ ہو گئے تھے‘ اس لئے کسی نے اعتراض نہیں کیا۔ ٭٭٭٭٭ شاہد خاقان عباسی نے ایک نامناسب ‘ غیر حقیقی الزام لگایا ہے۔ کسی ملک کے وزیر اعظم کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا‘ یہ کیسا وزیر اعظم ہے جو ہر وقت جھوٹ بولتا ہے۔ ایسا ممکن ہی نہیں۔ جس ملک کے وزیر اعظم کا ذکر کیا ہے‘ وہ اطمینان قلب کے ساتھ سوتے ہیں اور مکمل سکون سے دس گھنٹے کی نیند لے کر ہی اٹھتے ہیں۔ 24گھنٹے میں سے 10گھنٹے تو یہ نکال دیں۔ باقی ہے 14گھنٹے ۔ اس ملک کے وزیر اعظم کے قریبی حلقے بتاتے ہیں کہ موصوف نہایت خشوع و خضوع اور عقیدت و جوش و جذبے کے ساتھ کھانا تناول فرماتے ہیں اور چھ وقت کے کھانے پر اندازاً مجموعی طور پر آٹھ گھنٹے صرف ہوتے ہیں۔ 14میں سے یہ آٹھ گھنٹے بھی نکال دیں تو باقی وقت چھ گھنٹے کا بچتا ہے۔ عباسی صاحب آپ چھ گھنٹوں کو ’’ہر وقت‘‘ کا عنوان کیسے دے سکتے ہیں۔ ٭٭٭٭٭ فردوس عاشق عمرانی حکومت کی طوطی خوش مقال ہیں‘ ہر وقت نغمہ سرا رہتی ہیں اور نغمہ بھی ہر وقت ایک ہوتا ہے۔ یہ نہیں کہ رات کو اور راگ‘ دن کو اور وہ نغمے اور نغمہ سرائی میں وحدت معنوی کی قائل ہیں۔ کسی بھی موضوع پربا ت کر لیں‘ ایک سر ان کا ہمیشہ یہ ہوتا ہے کہ 70سال کا گند نو دس مہینے میں دورنہیں ہو سکتا۔ بجا ارشاد‘ لیکن محترمہ ان آٹھ دس مہینوں میں جو ’’ستھرائی اور صفائی ‘‘ ان کی حکومت نے کی ہے‘ اس کی داد تو اگلے ستر برسوں میں بھی ممکن نہیں‘ ۔ یہ تو محترمہ کو معلوم ہی ہو گا کہ جس ستر برسوں کا وہ ذکر کر رہی ہیں‘ ان میں سے چالیس سال تو پی ٹی آئی ہی کی حکومت رہی‘ بھلے سے نام کچھ اور ہو۔58ء سے 71ء تک پھر 77ء سے 88ء تک پھر 99سے 2007ء تک یہ چالیس سال اصولاً انہیں منہا کر کے بات کرنی چاہیے۔ یعنی یوں کہنا چاہیے کہ 30سال کا گند آٹھ دس مہینوں میں صاف نہیں ہو سکتا۔ ٭٭٭٭٭ ایک تجزیہ کار جو چیئرمین نیب کے انٹرویو کے حوالے سے شہرہ آفاق کے درجے میں داخل ہو چکے ہیں‘ طنزاً فرماتے ہیںکہ علیم خان کو نیب کا چیئرمین لگا دیا جائے۔ انہوں نے تواز راہ طنزیہ بات کی لیکن بھائی ذرا احتیاط سے۔ خاں صاحب نے اسے سنجیدہ تجویز سمجھ لیا تو… ٭٭٭٭٭ انہی تجزیہ کار نے یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ مہمند ڈیم چین نے ایک ارب 90کروڑ میں بنانے کی پیشکش کی تھی لیکن عمران خاں نے 309ارب روپے کا یہ ٹھیکہ رزاق دائود کو دے دیا۔ اب اس زائد دو سو ارب کی رقم کے بارے میں کیا کہا جائے گا؟ یہ کہ اتنی رقم خوردبرد کرلی گئی؟ کرپشن کی نذر کر دی گئی؟ جی نہیں‘ ’’اسے صدقہ‘‘ مانا جائے گا۔ بے شک چیئرمین نیب سے پوچھ لیجیے۔ ٭٭٭٭٭ وزیر رحونیاتی سائنس و رعوناتی ٹیکنالوجی فواد چودھری سوشل میڈیا کے بقول‘ اب تک اتنی ایجادات کر چکے ہیں کہ مغرب کے سائنس دان مل کر بھی نہ کر سکے ہوں گے۔ ایک ایجاد ان کی قمری کیلنڈر ہے جو ان کی مرضی کے دن عید کا تعین کرے گا۔ ایک ستم ظریف نے سوال اٹھایا ہے کہ کیا یہ قمری کیلنڈر یہ بھی بتائے گا کہ فواد چودھری اور ان جیسے دوسرے نگینے اگلے سال کس پارٹی میں ہوں گے؟ خیر‘ یہ تو ازراہ تفنن والا معاملہ ہوا‘ ارزاہ غیر تفنن یہ سوال ہے کہ انہوں نے مفتی منیب الرحمن کو کس خوشی میں نشانہ بنا رکھا ہے۔ کبھی کہتے ہیں مفتی صاحب دین کے ٹھیکیدار نہ بنیں کبھی کہتے ہیں کہ وہ مفتی صاحب سے زیادہ دین جانتے ہیں۔ اگر دین سے مرادخاں صاحب کی رھونیاتی یا رحونتی سائنس ہے تو ان کا دعویٰ سوفیصد بجا لیکن یہاں معاملہ سچ مچ دین کا ہے۔ مفتی صاحب اس وقت کے معروف علمائے دین میں سب سے قد آور اور سب سے گہرا علم رکھنے والے ہیں۔ انہوں نے دین کا ٹھیکیدار بننے کی کوئی بات کبھی نہیں کی۔ وہ غیر سیاسی شخصیت ہیں اور سبھی کا ذکر احترام سے کرتے ہیں۔ رویت ہلال پر ان کی جس بات پر فواد برہم ہیں۔ وہ ان کی اپنی رائے نہیں ہے۔ وہ حضور پاکؐ کا حکم ہے یہ کہ عید اور رمضان کا تعین چاند دیکھ کر کرو۔ بہرحال خوشی کی بات ہے کہ مفتی صاحب ان کی کسی بات کا جواب نہیں دیتے۔ ’’جو اب فوادیاں باشدخاموشی‘‘