اکیسویں صدی کوبعض لوگ انصاف کی صدی قراردے کربڑی امیدیں باندھ چکے تھے ۔ اس صدی کاسترواں برس بھی داخل ہوچکاہے مگرظلمات کے سائے بدستورگہرارنگ جمائے بیٹھے ہیں۔کون ساانصاف، کہاں کاانصاف ،کون کرے انصاف۔کیاامریکہ انصاف کرے گاکہ جس نے کرہ ارض پر اکیسویں صدی کے آغاز پرہی اتناظلم ڈھایاکہ چنگیزاورہلاکوبھی شرمسارہیں۔کیاعالمی فورم اقوام متحدہ انصاف کرے گاکہ جومظلومین عالم کے لئے ناتواںمگرظالموں کے شانہ بشانہ کھڑاہوکران کے کارہائے ظلم پرتالیاں بجارہاہے۔ کشمیرکی رداخون سے تربترہوئی لیکن یہ فورم خاموش تماشائی بنارہا۔حالانکہ اسی عالمی فورم نے انکاپیدائشی حق’’ حق خود ارادیت‘‘ دلانے کاوعدہ کیاتھا۔ ایک طویل وقت سے کشمیری اپنے اسی پیدائشی حق کامطالبہ کر رہے ہیںجسے دلانے کی گارنٹی اسی ادارے نے اپنے ذمہ لے رکھی تھی۔ 5 جنوری اہل کشمیر کے حافظے کی لوح پر ایک بھیانک یاد کے طور پر سوالیہ نشان بن کر محفوظ ہے جب بھی یہ دن آتا ہے تو کشمیریوں کو اپنے مقدر کی وابستگی کی وہ تاریخی داستانیں یاد آتیں ہیں جن کے اثر سے آج بھی کشمیری مسلمان باہر آنے کیلئے ہر گز تیار نہیں ہیں۔یہ اقوام متحدہ کے قیام کے ابتدائی سال تھے۔ لیگ آف نیشنز کے نام سے ایک عالمی تنظیم جنگ عظیم دوئم کی بھڑکنے والی آگ میں بھسم ہو چکی تھی۔اقوام متحدہ کے چارٹر کی منظوری دیتے ہوئے اس بات کا اعلان کیا گیا تھا کہ مظلوم اور غلام قوموں کو اپنی آزادی اور حق خود ارادیت کیلئے جدوجہد کرنے کا اختیار حاصل ہوگا۔ اقوام متحدہ کے قیام کے بعد دنیا میں بہت سے مقامات پر مظلوم طبقات اور قوموں نے یوا ین چارٹر کا سہارا لے کر نہ صرف یہ کہ آزادی اور حق خود ارادیت کی تحریکیں شروع کیں بلکہ اس چارٹر سے اپنی جدوجہد کے لئے جواز بھی تلاش کیا۔برطانیہ نے اپنی نو آبادیوں کو آزادی دینے کا سلسلہ شروع کیا ۔ برصغیر بھی اس ہلچل کے اثرات سے محفوظ نہ رہ سکا۔ اور برطانیہ کی گرفت ڈھیلی پڑتے ہی یہاں بھی مختلف النوع تحریکیں شروع ہو گئیں ۔ اسی ماحول میں مسلمانانِ برصغیر نے اپنے لئے ایک الگ وطن کا مطالبہ شروع کیا، جبکہ کشمیر ی قوم میں بھی ڈوگرہ راج کے خلاف آزادی کی تحریک شروع ہو گئی ۔ کشمیر ایک تنازع بنتا چلا گیا اور کشمیری مسلمان حالات کی دلدل میں دھنستے چلے گئے ۔ کشمیری مسلمانوں کی فکراور خواہشات کو اغوا کرنے کیلئے جو سازشی جال بنے گئے ، ان کے تحت بھارتی افواج کشمیر میں داخل ہو گئیں جبکہ قبائلی آزاد کشمیر کی طرف سے پیش قدمی کرتے چلتے گئے ۔نتیجتاً پاکستان اور بھارت کے مابین سر زمین کشمیر پر با قاعدہ جنگ کا آغاز ہو گیا ۔جنگ طویل عرصہ تک جاری رہی اور آخر کار بھارت نے نوزائیدہ اقوا م متحدہ کا دروازہ کھٹکھٹانے کا فیصلہ کیا۔ بھارت اپنا مقدمہ اس دعوے کے ساتھ اقوام متحدہ میں لے کرگیا کہ کشمیر میں حالات بہتر ہوتے ہی رائے شماری کا اہتمام کر کے کشمیریوں کو آزادانہ طور پر اپنے مقدر کا فیصلہ کرنے کا اختیار ملنا چاہیے جبکہ پاکستان کا مقدمہ تو تھا ہی یہ کہ کشمیریوں کو حق خود ارادیت ملنا چاہیے ۔ پاکستان کشمیر کے ساتھ جغرافیائی ، نظریاتی ،تہذیبی اور تاریخی رشتوں کے باوجود کشمیر پر اپنا حق جتلانے کی بجائے کشمیریوں کے حق خود ارادیت کا وکیل بن کر سامنے آرہا تھا۔ اقوام متحدہ میں پاکستان، بھارت اور کشمیر کے نمائندے اپنا اپنا موقف پیش کرتے چلے گئے ۔ بھارتی موقف کی حمایت میں ایک بار شیخ عبد اللہ جبکہ آزاد کشمیر کی طرف سے سر دار ابراہیم خان پیش ہوئے۔ اقوام متحدہ نے کشمیر کی صورت حال کو جاننے کے لئے یکے بعد دیگرے کئی مصالحتی مشن بھیجے، جنہوں نے اپنی رپورٹس مرتب کر کے اقوام متحدہ کے کارپردازان کو پیش کیں۔ اقوام متحدہ میں کشمیر کے موضوع پر قراردادوں کی منظوری کا عمل بھی جاری رہا۔قرارداد کا کوئی حرف یا اشارہ بھارتی حکمرانوں کی طبع نازک پر گراں گزرتا تو اقوام متحدہ کے حکام اس قرار داد پر نظر ثانی کر کے اسے بھارتی حکمرانوں کی خواہشات کے مطابق بنانے میں لمحوں کی تاخیر نہ کرتے۔ اسی عالم میں اقوام متحدہ نے جنوری 1949 کی قرار داد منظور کی جس میں پاکستان اور بھارت کی ذمہ داریوں کا تعین کرتے ہوئے اس بات کا اعلان کیا گیا تھا کہ کشمیری عوام کی رائے معلوم کرنے کے لئے بین الاقوامی نگرانی میں رائے شماری کرائی جائے گی ۔ اس قرار داد کو پاکستان اور بھارت کے حکمرانوں کی حمایت حاصل تھی ۔ اس قرار داد کی منظوری کے بعد ہی دونوں ملکوں میں جنگ بندی ہو گئی لیکن جنگ بند ہونے کے باوجود اقوام متحدہ اپنی قراردادوں پر عمل دار آمد نہ کرا سکا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان قراردادوں پر بھارت نے واشگاف طریقے سے عمل در آمد کرنے میں عدم دلچسپی کا مظاہرہ کیا ۔ وقت یوں ہی گزرتا چلا گیا، پاکستان اور بھارت میں کشمیر ایک بنیادی مسئلے کے طور پر موجود رہا ۔ دونوں کے مابین1965 کی جنگ ہوئی پھر1971ء میں دونوں ملک خونین تصادم سے گزرے ، کرگل کی جنگ امریکی مداخلت سے ختم ہوئی۔ دونوں ممالک نے ایٹمی دھماکے کر کے جہاں خطے میں طاقت کا توازن قائم کیا وہیں جنوبی ایشیامیں تباہ کن صورت حال کے خدشات کو بھی نمایاں کیا ۔ کشمیریوںکے بعد جن قوموں نے حق خود ارادیت کی جدوجہد شروع کی انہیں اقوام متحدہ کے زیر سایہ منزل مراد مل گئی ۔ مشرقی تیمور اس سلسلے میں ایک اہم مثال ہے۔انڈونیشیا ایک اہم مسلمان ملک ہے ،اس کے ایک جزیرے مشرقی تیمور میں اقوام متحدہ کے زیر اہتمام ریفرنڈم کرایا گیا جس میں مشرقی تیمور کے عوام کو انڈونیشیا سے وابستہ رہنے یا آزاد ہونے کا حق دیا گیا تھا۔ ریفرنڈم کے دوران کڑے حفاظتی انتظامات کئے گئے تھے اور ریفرنڈم کا وہی نتیجہ سامنے آیا جس کی امید پر مغربی طاقتوں اور اقوام متحدہ نے یہ سارا ڈول ڈالا تھا یعنی مشرقی تیمور کے 78 فیصد لوگوں نے آزادی کے حق میں فیصلہ سنا دیا اور اب مشرقی تیمور دنیا کے نقشے پر ایک آزاد ملک کے طور پر ابھرنے جا رہا ہے۔مشرقی تیمور میں ریفرنڈم کی جو وجہ تھی وہی کشمیر میں ریفرنڈم سے گریز کی وجہ بھی ہے۔مشرقی تیمور میں ریفرنڈم عیسائیوں کا مطالبہ تھا اور اس مطالبے کا فائدہ بھی عیسائیوں کو ہوا ،اس لیے صلیبی طاقتوں نے مسلم اکثریتی انڈونیشیا کو غاصب اور جارح قرار دے کر مشرقی تیمور کو اس سے سے نکال باہر کیا لیکن کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت ہے اور اس لیے امریکہ اور اس کی لونڈی اقوام متحدہ کو کشمیر میں اپنی قراردادوں پر عملدر آمدکرانے میں دلچسپی نہیں۔5 جنوری 1949 کو منظور کی جانے والی قرار داد میں کشمیریوں کا یہ حق تسلیم کیا گیا ہے کہ وہ آزادانہ طریقے سے ووٹ کے ذریعے بھارت یا پاکستان میں سے کسی کے ساتھ اپنا مقدر وابستہ کر سکتے ہیںلیکن 1949 سے آج تک بھارت نے اس قرارداد پر عمل در آمد نہیں ہونے دیا بلکہ حیلوں بہانوں سے اس معاملے کو ٹالتا چلا آرہا ہے۔