قیام پاکستان کے بعد بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کوصرف 11ماہ ملے۔اُس میں بیشتر وقت بیماری اور زیارت جیسے دور افتادہ مقام پر تقریباً یک و تنہا ،ایک ڈاکٹر ،دوسر ی بہن اور تیسرا ایک اے ڈی سی ۔ 15 اگست کے بعد جب اور جہاں جتنی بھی تقاریر قائد نے کیں ،اُس میں چندا ایسی اصولی باتوں کی ضرور نشاندہی کرتے کہ جو مستقبل کے خوشحال ،ترقی پسند پاکستان کی اساس نہیں۔مگر بانی ٔ پاکستان کی آنکھیںموندتے ہی اُن کے کھوٹے سکّوں نے محلاتی سازشوں کا آغاز کردیا۔مسلم لیگ حکومت میں تھی اور قائد اعظم کے نامزد کردہ وزیر اعظم نوابزادہ لیاقت علی خان بھی اُن کے سیاسی وارث تھے ،مگر محض چند سالوں میں ہی انگریزوں کے تربیت یافتہ جنرل محمد ایوب خان ’’عنان ِ اقتدار‘‘کی کنجی ہاتھ میں لے چکے تھے۔ جنرل محمد ایوب خان کے بعد کے برسوں میں جس طرح افواج ِ پاکستان کو سیاست میں دھکیلا اور پھر اکتوبر 1958ء میں پہلے فوجی مارشل لاء کو لا کر سویلین یا جمہوری آئینی بالادستی کا خاتمہ کردیا۔جنرل ایوب خان کے فوجی ٹولے کی منصوبہ بندی کا اندازہ میجر جنرل شیر علی خان پٹودی کی کتاب"Politics of Soldier and Soldiering"کی ان چند لائنوں سے لگایا جاسکتا ہے جس میں جنرل پٹودی لکھتے ہیں :اپنے دورۂ لندن کے دوران جنرل ایوب خان نے جو تازہ تازہ انگریز کمانڈ سے تربیت اور تابعداری کے عوض لیفٹننٹ سے ڈپٹی کمانڈر انچیف کے عہدے پرتر قی پا چکے تھے،جنرل پٹودی کو مطلع کیا:موجودہ حالات میں فوج کے کمانڈر انچیف کو وزیر اعظم کے مقابلے اس سے بڑا کردار ادا کرنا ہوگا جو اس وقت اس کے لئے آئین میں متعین ہے۔جنرل ایوب خان کی اس خواہش و ہوس ِ اقتدار کے خبط میں مبتلا سیاستدا ں نے پوری کردی ۔قائد اعظم محمد علی جناح نے ایک تقریب میں فوجیوں سے خطاب کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں کہا تھا: “Do not forget that the armed forces are the servants of the people. You do not make national policy; it is we, the civilians, who decide these issues and it is your duty to carry out these tasks with which you are entrusted.” نوابزادہ لیاقت علی خان کی اکتوبر 1951میں شہادت کے بعد کے برسوں کی تفصیل کو دہرانا نہیں چاہتا،جب چھ برسوں میں سات وزیر اعظم تبدیل ہوئے۔جنرل ایوب خان نے فوج کی بالادستی کے لئے جو ہتھکنڈے استعمال کئے تھے،اُس میںسیاستداں اور بیوروکریٹس اُن کے دست بازو بنے۔مگر یہ حقیقت ہے کہ آزادی کے محض سات سال بعد آنے والے پہلے مارشل لاء کا عوام نے بھرپور استقبال کیا۔جنرل یحییٰ خان کا مارشل لاء اور پھر اقتدار گو مختصر تھامگر یہ وطن ِعزیز کو لاکھوں بے گناہوں کے خون میں نہلا کر دولخت کرگیا۔ یقینا قائد اعظم محمد علی جناح کے بعدذوالفقارعلی بھٹو دوسرے ایسے ذہین اور سحر انگیز سیاستداں تھے کہ ملک و قوم کی کایا پلٹ سکتے تھے۔اُن کی شخصی کمزوریوں اور مطلق العنانی کے مقابلے میں اُن کے کارنامے زیادہ بڑے اور عظیم ہیں۔اسی لئے جولائی 1977ء کو جو تیسرا مارشل لاء 43سال قبل آیا،آج بھی اُسے ایک سیاہ دن کے طور پر یاد رکھا جاتا ہے۔کیسا اتفاق ہے کہ ابھی سال دو بھی پورے نہیں ہوئے کہ خود عمران خان جیسے پاپولر پرائم منسٹر جولائی کے ہی مہینے میں مائنس ہونے کی بات کررہے ہیں۔بھٹو صاحب کے عروج وزوال پر سینکڑوں کتابیں لکھی گئیں۔سیاستدانوں نے بھی ،بیوروکریٹس نے بھی اور جنرلوں نے بھی ۔اس دوران کورونا کے سبب جو وقت ملا تو زیادہ تفصیل سے میں نے ’’پولیسیوں‘‘ کی سوانح پڑھی کہ یہ first hand informationدیتے ہیں۔سیاست داں لکھتے ہوئے مصلحت پسندی سے کام لیتے ہیں کہ مستقبل میں بھی ان کی آل اولاد کو اقتدار میں آنا ہوتا ہے۔بیوروکریٹس اور فوجی جنرل کا تعلق اشرافیہ سے ہوتا ہے۔اقتدار میں ہوں تو زندگی کے سارے شب و روز ’’پاور کوریڈور‘‘میں گزرتے ہیں۔معذرت کے ساتھ انہیں تو شاید یہ بھی نہ علم ہو کہ کراچی کے مشہور ِ زمانہ لالو کھیت کا نام لیاقت آباد کیسے رکھا گیا۔کراچی سے تھر کا راستہ چند سال پہلے کتنے گھنٹوں میں طے ہوتا تھااور وہاں کی سال2000ء تک سواری ’کیکڑا‘ہوتی تھی۔بگٹیوں ،مریوں اور مینگلوں تک کی معلوما ت بھی اُن کے پاس بس اُن کے نوابوں تک ہے۔معذرت کے ساتھ کسی کی توہین معنی نہیں ،۔مگر یہ پولیس والا ہی ہوتا ہے جو گلی ،محلوں ،چوکوں ،پٹواریوں اچکوں اور ہاں شرفاء کا حسب ونسب علاقے میں مہینوں کی تعیناتی میں جان جا تا ہے۔ایس ایچ او اور ایس پی ،ڈی آئی جی تک پہنچتے پہنچتے وہ جس شہر اور گاؤں میں رہاہو،اُس کے ہاتھ کی لکیروں پر ہوتا ہے۔یہ ساری تفصیل اس لئے کہ 5جولائی 1977کو بھٹو صاحب کی حکومت کے خاتمے سے پہلے اور بعدکے حالا ت وواقعات کو جس طرح ایک سابق آئی جی سندھ و پنجاب حبیب الرحمان نے بیان کیا ہے ،خواہش ہے کہ وہ لفظ بہ لفظ تحریر کردوں ۔مگر اس کا کریڈٹ ہمارے سینیئر صحافی محترم منیر احمد منیر کو جائے گا کہ سابق پولیس آئی جی سندھ اور پنجاب جیسے گھاگ سینئر حبیب الرحمان کی یادداشت سے ایسے ایسے ہولناک واقعات و سانحات نکال لئے کہ حیرت ہوتی ہے کہ چالیس سالہ صحافت میں ہم جو خود کو بڑا باخبر سمجھتے تھے ،ہمیں تو بس مولانا چراغ حسن حسرت ؔ کی زبان میں الف آم اور ب سے بلی پتہ ہے۔ مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ جو بھی ماضی میں پاکستانی حکمراں تخت پر بیٹھے ،انہیں رات کو بستر پر جاتے ہوئے یہ علم نہ ہوتا کہ اگلی صبح اُن کے اقتدار کے سورج ڈوب چکا ہوگا۔بھٹوصاحب نے جیل کی کوٹھری میں اپنی لکھی کتاب If I Am Assassinatedمیںلکھا ہے کہ جس دن انہوںنے مارچ1977میں الیکشن کرانے کا اعلان کیا تو ان کے سینئر وزیر ملنے آئے تو اُن کا چہرہ برف کی مانند سفید اور سرد تھا۔یہ رفیع رضا تھا،کہاجاتا ہے،امریکہ کے خاص بندے ،رفیع رضا بھٹو صاحب سے التجا کرتے ہیں کہ وہ مارچ کے الیکشن ملتوی کردیں۔بھٹو صاحب کہتے ہیں :یہ کیسے ہوسکتا ہے۔میں نے عوام کے لئے کیانہیں کیا ،وہ میرے ساتھ ہیں۔یہ بکھری ہوئی کمزور اپوزیشن میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔اس پر رفیع رضا خاموش ہوجاتے ہیں۔بھٹوصاحب کو اُس وقت امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر کی وہ دھمکی بھی یاد نہ رہی کہ جس لہجے میں انہوں نے دھمکی دی تھی ،خود ہماری سر زمین پر کھڑے ہوکر کہ اگر انہوںنے ایٹمی پروگرام بند نہیں کیا تو وہ انہیں ’’مثالی سزا ‘‘دیں گے۔بڑا وسییع موضوع ہے۔سینکڑوں کتابیں لکھی گئیں ۔مگر اس وقت سابق آئی جی پنجاب اور سندھ حاجی حبیب الرحمان کی کتاب ’’کیا نہ دیکھا‘‘ میں لکھے انکشافات کو پڑھیں کہ بھٹو جیسی عظیم شخصیت کو کیسے جال بلکہ پنجرے میں سسکا سسکا کر ختم کیا گیا۔ (جاری) ’’عام تاثر تھا کہ ضیاء کی مارشل لاء حکومت نے بھٹو کو پھانسی دینے کا فیصلہ کرلیا تھا۔اگر نواب محمد احمد خاں قتل کیس میں سپریم کورٹ انہیں چھوڑتی تو پھر مارشل لاء کے ذریعے انہیں لٹکایا جائے گا۔اس ضمن میں کبھی عوام سوچ کا تجزیہ آپ لوگوں نے کیا؟ ’’ایک چھوٹی سی بات ، شاید میں نے آپ کو بتائی کہ نہیں۔ایک ڈی آئی جی بہاولپور تھے ۔ابھی بے چارے پچھلے دنوں فوت ہوگئے ہیں۔ نام یاد آجائے گا۔بڑا چھا افسر تھا۔ہر ڈی آئی جی ایک fortnightly(پندرہ روزہ) ڈی او لکھتا ہے آئی جی کو۔وہ کانفی ڈینشل ہوتا ہے۔یہ انگریزوں کے وقت سے چلا آرہا ہے۔اس نے مجھے ڈی او لکھا کہ میری رینج میں بہاولپور میں یہ افواہ ہے کہ بھٹو کو پھانسی لگے گی۔اس لئے کہ تمام جج پنجابی ہیں۔اور مارشل لاء والوں نے فیصلہ کرلیا ہے۔(جاری ہے)