یقینا اسے قابل ِ ستائش اور تحسین ہی قرار دیا جائے گا کہ افواج ِ پاکستان کے ترجمان جنرل آصف غفو ر نے اسکرینوں پر لائیو سینئر اور اہم عہدوں پر فائز فوجی افسران کو عمر قید اور سزائے موت جیسی کڑی سزائیں دے کر وہ سارے منہ بند کردئیے ہیں جن کا یہ بیانیہ ہوا کرتا تھا کہ صرف سیاستدان ہی قابل گردن زدنی کیوں قرار دئیے جاتے ہیں۔موضوع حساس بھی ہے ، اور ایک طول طویل تاریخ میں بھی لے جاتا ہے۔ماضی میں بھی اعلیٰ فوجی افسرا ن کی ایک پوری تاریخ ہے جو ملازمتوں سے سبکدوش بھی کئے گئے اور جنہیں فوجی عدالتوں سے سزائیں بھی دی گئیں۔مگر بہر حال دنیا بھر میں فوج میں جزا اور سزا کا ایک خاص سسٹم ہوتا ہے۔جس میں منصب تک پہنچنے کے لئے اپنا ایک پراسیس ہوتا ہے۔اسی لئے ان کے احتسا ب کا بھی ایک الگ طریقہ کار ہوتا ہے۔معذرت کے ساتھ وطن عزیز میں نظریاتی سیاست کا وہ دور کب کا خواب ہوا جب ایک سیاسی کارکن جد وجہد اور قربانیوں کی بنیاد پر پارٹی میں ایک سیاسی مقام حاصل کرتا تھا۔،فوج ہی ایک ایسا ادارہ تھا،جس میں آرمی چیف کا بیٹاآرمی چیف کے منصب پر نہیں بٹھالا جاتا تھا۔جنرل ایوب خان ،جنرل یحییٰ خان،جنرل ضیاء الحق ،جنرل پرویز مشرف کی مطلق العنانیت سے وطن عزیز کو جو نقصان پہنچا وہ ایک الگ موضوع ہے۔مگر ان کی آل اولاد کو اپنے والد جیسا مقام اور مرتبہ نہیں مل سکا۔یہ اور بات ہے کہ ان فوجی افسروں اور جنرلوں کے گھریلو ماحول اور تربیت کے سبب اکثریت فوج کے پیشے سے وابستہ ہوتی ہے۔اس سے پہلے کہ جمعرات کو لیفٹیننٹ جنرل (ر)جاوید اقبال،بریگیڈیئر (ر)راجہ رضوان اور ڈاکٹر وسیم اکرم کو دی جانے والی انتہائی سزاؤں کی تفصیل میں جاؤں ،یہ بھی بتا تا چلوں کہ افواج پاکستان میں سازش اور کرپشن کے الزام میں سزائیںدینے کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں۔اس کا آغاز تو قیام پاکستان کے محض چار سال بعد 1951ہی میں ہوگیا تھا۔1951میں وزیر اعظم لیاقت علی خان کی حکومت کے خلاف سازش کرنے والے بڑے پائے کے فوجی افسران تھے جو اس وقت کی کمیونسٹ پارٹی کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے سویلین حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار میں آنا چاہتے تھے۔پنڈی سازش کیس کے بارے میں درجنوں کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔اس میں بڑی نامی گرامی شخصیات شامل تھیں۔ اس وقت کی عدالت نے جس کے سربراہ جسٹس رحمان تھے،ان سارے قیدیوں کو 5سے11سال تک کی قید بامشقت کی سزائیں دی تھیں۔کم و بیش چار سال بعد رہا ہونے کے بعد چند کو چھوڑ کر بعد میں بقول شخصے،ان سازشیوں نے بڑا نام کمایا۔پنڈی سازش کیس میں شامل سویلین اور فوجی افسروں میں سے صرف ایک کو چھوڑ کر سارے ہی آسودۂ خاک ہوچکے ہیں۔خدا ہمارے سابق کیپٹن ظفر اللہ پوشنی کو حیاتی دے ۔ پنڈی سازش کیس تو خالصتاً ایک نظریاتی اور سیاسی سازش تھی۔اور اگر یہ کامیاب ہوجاتی تو صدر جنرل اسکندر مرزا اور جنرل ایوب خان اگر زندہ رہ بھی جاتے تو کم از کم اس ملک کے نفس ناطقہ یعنی سیاہ و سفید کے مالک نہ ہوتے۔مستند شواہد بتاتے ہیں کہ جنرل اکبرخان کے ساتھیوں اور کمیونسٹ پارٹی نے جو سازش تیار کی تھی۔اس پر عمل درآمد سے پہلے ہی وہ اس سے دست بردار ہوچکے تھے۔مگر اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے جنرل ایوب خان نے پنڈی سازش کیس کا تانہ بانہ بن کر فوج میںا پنے ان سارے مخالفین کو نکال باہر کیا ۔تاکہ مستقبل میں وہ اس ملک کی کمان سنبھالیں۔جیسا کہ صرف سات سال بعد اکتوبر 1958کے پہلے فوجی مارشل لاء کی صورت میں جنرل ایوب خان کے تابناک کیریئر کا آغاز بھی ہوا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ جنرل ایوب خان کی دس سالہ آمریت کے خلاف تحریک توبڑے پیمانے پر عوامی چلی ،مگر جس کا پھل جنرل یحییٰ خان نے کھایا۔کہ جنرل ایوب خان کے بستر سے لگتے ہی جی ایچ کیو اور ایوان صدر کی عنان اور کمان سنبھال چکے تھے ۔یقینا یحییٰ ٹولے کی ایک سازش تھی جس کا بہر حال افواج پاکستان سے براہ راست تعلق نہ تھا۔المیہ یہ ہے کہ انتخابات کے باوجود یحییٰ خان کا فوجی ٹولہ اتنا مضبوط تھا جس نے اپنے لاکھوں بنگالیوں کا خون بہا کر بھی متحدہ پاکستان کی منتخب قیادت کو اقتدار منتقل نہیں کیا۔سقوط ڈھاکہ کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار منتقل کرنا اس وقت کے فوجی جنرلوں کی مجبوری تھی۔اور پھر یہ بھی ایک دلچسپ تاریخی واقعہ ہے ۔اور یہ بھٹو جیسا جرأت مند عوامی رہنما کرسکتا تھا کہ ملکی تاریخ میں پہلی بار افواج پاکستان کے تین بڑوں کو پنجاب کے گورنر ہاؤس میں بڑی چالاکی سے بلا کر ایک چوہے دان میں بند کر کے خاموشی سے غیر ملک روانہ کردیا۔برسوں بعد ان میں سے ایک آرمی چیف جنرل گل حسن نے اپنی کتاب میں سارے واقعے کی تفصیل لکھتے ہوئے بڑی آہ و زاریاں کیں۔بھٹو صاحب کے خلاف ایک نہیں کئی سازشیں ہوئیں۔جس میں اٹک سازش کیس نے زیادہ شہرت پائی ۔جنرل ضیاء الحق اور پھر جنرل مشرف کے دور میں بھی کئی بغاوتیں اور سازشیں ہوئیں جن کی تفصیل آئندہ کے لئے اٹھا رکھتا ہوں۔جمعرات کو جن فوجی افسران کوسزائیں دی گئی ہیں، اُس میں ان پر جاسوسی کا الزام لگایا گیا ہے۔یہ فوجی افسران کس ملک کے لئے جاسوسی کر رہے تھے،اور ان کے کیا مستقبل کے عزائم تھے۔اس کی تفصیل سامنے نہیں آئی۔مگر پاکستان جس سیاسی اور معاشی بحران سے گذر رہا ہے،اُس میں ان فوجی افسران کو سزائے موت جیسی انتہائی سزاؤںنے سارے ملک کو دہلا کر رکھ دیا ہے۔کہ اس رینک کے فوجی افسران کا غیر ممالک کے ہاتھوں ملک و قوم کا سودا کرنا بحیثیت ایک ادارے کے لئے بھی ایک بڑے خطرے کی نشانی ہے۔سیاست دانوں کی بات اور ہے۔یہ غلطیاں بھی کرتے ہیں اور سازشیں بھی۔خاص طور پر کرپشن کے ذریعے تو انہوں نے وطن عزیز کی جڑیں کھوکھلی کردی ہیں۔آج وہ اس کی سزا بھی بھگت رہے ہیں۔اس کے لئے زندگی ،زندہ دلی کا نام ہے ۔