پاکستان اس لحاظ سے ایک دل چسپ ملک ہے کہ یہاں ہر سودا بکتا ہے۔ یہاں بسوں میں نایاب منجن سے لے کر اسلام آباد کی ٹی وی اسکرینوں پر پانی سے چلنے والی گاڑی کی برکینگ نیوز تک سب چلتا ہے۔ رئویت ہلال کی شرعی حیثیت اور پاکستان میں اس کی تاریخی تفصیل آپ کے ساتھ شیر کرنے سے پہلے یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ فواد چودھری صاحب کا دعویٰ کیا ہے اور اپنے دعوے کے حق میں وہ کیا دلیل پیش کرتے ہیں چودھری صاحب وزیر اطلاعات تھے تو شب و روز کی ہر سماعت میں وہ ٹی وی اسکرینوں پر چہچہاتے اور اپوزیشن کو ڈرانے دھمکانے کا کارخیر انجام دیا کرتے تھے اور خوش رہتے تھے مگر جب سے یہ خوشی اداسی میں بدلی ہے تو چودھری صاحب ہر وقت کسی چونکانے والی خبر کی تلاش میں رہتے ہیں۔ چودھری صاحب کا دعوی یہ ہے کہ انہوں نے آئندہ پانچ برس کا قمری کلینڈر بنالیا ہے اور اب ہمیشہ ہمیشہ کے لئے رمضان المبارک کے آغاز و اختتام اور عیدین کے تعین کا مسئلہ حل کر لیا گیا ہے۔ حضور!یہ آپ نے کون سا نیا کام کیا ہے سعودی عرب نے 1420ہجری میں آئندہ تیس برس کا قمری کیلنڈر بنا لیا تھا۔ تیس کیا پچاس اور سو برس کا کیلنڈر بھی پلک جھپکنے میں تیار ہو سکتا ہے۔ سعودی عرب نے نہ صرف قمری بلکہ ان تیس سالوں کا شمسی‘ شمسی ہجری اور بادیہ کا کیلنڈر بھی ترتیب دے کر ایک ویب سائٹ پر لگا دیا ہے ایک بٹن دبا کر آپ اس ویب سائٹ پر آئندہ تیس برس کے یہ سارے کیلنڈر دیکھ سکتے ہیں۔عین ممکن ہے کہ چودھری صاحب کے ایماں پر کسی ادارے نے اگلے پانچ برس کا قمری کیلنڈر ڈائون لوڈ کر لیا ہو یا اس میں پاکستانی مطلع کے مطابق ضروری ردوبدل کر لیا ہو اور قوم کو بتایا جا رہا ہے کہ تاریخ میں پہلی مرتبہ یہ کارنامہ انجام دیا گیا ہے۔ اصل مسئلہ سائنسی نہیں دینی اور شرعی ہے۔ سعودی عرب شاید واحد اسلامی ملک ہے جس میں کاروبار زندگی شمسی کیلنڈر کے مطابق نہیں قمری کیلنڈر کے مطابق چلتا ہے۔ قمری کیلنڈر اور اس کے مطابق ڈائریاں اسلامی سال کے ماہ محرم میں آغاز کے ساتھ ہی پہلے کے چھپ جاتی ہے۔ جہاں تک رمضان المبارک عیدین اور حج وغیرہ کا تعلق ہے ان کی تاریخوں کا تعین رویت ہلال اور چاند دیکھنے کی شرعی شہادتوں کی بنا پر کیا جاتا ہے مثلاً جس روز کیلنڈر کے مطابق 2شوال ہو گی اس روز رئویت کے مطابق یکم شوال ہو سکتی ہے اور عید اسی رئویت کے مطابق منانے کا اعلان ہو گا۔ البتہ اخبارات وغیرہ پر کیلنڈر والی 2شوال ہی شائع ہو گی تاکہ کسی قسم کا کوئی کنفیوژن نہ ہو۔و کیلنڈر اپنی جگہ مگر رمضان شوال اور حج وغیرہ کا اعلان رئویت اور شہادت کے بعد سعودی عرب کی سپریم علماء کونسل کرتی ہے۔ رویت ہلال کی شرعی حیثیت پر بات کرنے سے پہلے اہم سوال یہ ہے کہ فواد چودھری کا چاند کی روایت اور عیدین وغیرہ کی تواریخ کے تعین سے کیا لینا دینا۔ پاکستان میں ایک مرکزی رویت ہلال کمیٹی مفتی منیب الرحمن صاحب کی سربراہی میں موجود ہے جو نہایت دیانتداری‘ جانفشانی اور غیر جانبداری کے ساتھ اپنے فرائض انجام دے رہی ہے۔ انہیں اپنے کام کی انجام دہی میں جہاں ضرورت ہوتی ہے وہاں وہ محکمہ موسمیات اورفلکیات سے تعاون حاصل کر لیتے ہیںاب عید سے پندرہ روز قبل فواد چودھری کی طرف سے 5جون کی عید کا اعلان دینی معاملات میں مداخلت اور قوم میں انشتار پیدا کرنے کی کوشش ہے جس کا جناب وزیر اعظم کو فوری نوٹس لینا چاہیے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ علم فلکیات کی رو سے انتیس کو چاند کی برتھ کا اثبات کافی ہے یا چاند کی بصری روایت ضروری ہے؟ 1319ہجری میں رابطہ عالم اسلامی کے مکہ المکرمہ میں منعقد ہونے والے ایک اجلاس میں یہ قرار داد پیش کی گئی کہ رابطہ رصد گاہ کے ذریعے رویت ہلال کا اہتمام کرے اور اس کے مطابق سارا عالم اسلام ایک روز عید منائے اس قرار داد پر ایک نجدی عالم دین نے علمی نقد و تبصرہ کیا اور خاص طور پر حضرت کریب کی اس روایت کا تذکرہ کیا کہ انہیں مدینہ منورہ سے ام الفضل بنت الحارث نے حضرت معاویہ کے پاس شام بھیجا تھا وہاں انہوں نے رمضان المبارک کا چاند دیکھا اور اس کے مطابق اہل شام کے ساتھ رمضان کے روزوں کا آغاز کر دیا جب رمضان المبارک کے اواخر میں وہ مدینہ منورہ پہنچے تو حضرت عبداللہ بن عباس نے ان سے پوچھا کہ انہوں نے کس روز دمشق میں چاند دیکھا تھا حضرت کریب نے بتایا کہ جمعتہ المبارک کو۔ اس پر حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ ہم نے مدینہ میں ہفتہ کے روز چاند دیکھا تھا۔ لہٰذا ہم اس کے مطابق ہی تیس روزے پورے کریں گے اور اگر انتیس کو چند نظر آ گیا تو پھر رویت ہلال کے مطابق عید کریں گے۔ بخاری و مسلم کی اس رویات پر تقریباً علماء کا اجتماع ہے کہ چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر افطار کرو یعنی عید منائو۔ اس اجتماع میں علماء حنفیہ‘ مالکیہ‘ شافیہ اور حنابلہ سب متفق ہیں۔ جہاں تک پاکستان میں روایت ہلال کی تاریخ کا تعلق ہے وہ بہت دلچسپ ہے دو روز کی عید کا مسئلہ 1958ء کے بعد شروع ہوا۔1961ء میں ایوب خان کی حکومت نے رمضان و شوال کے چاند کا سرکاری طور پر اعلان کرنا شروع کیا مارچ 1961ء میں 18مارچ کو عید منانے کا سرکاری اعلان کیا گیا اس اعلان کو اس وقت کے جید عالم مولانا احتشام الحق تھانوی نے رد کر دیا اس سال پاکستان میں تین عیدیں ہوئی ایک 17مارچ کو پشاور میں دوسری 18مارچ کو سرکاری اور تیسری علماء کرام کی ہدایت پر 19مارچ کو عوام کی اکثریت نے علماء کے اعلان کے مطابق عید منائی۔ اس سالوں میں یہ تاثر عام تھا کہ حکومت جمعتہ المبارک عید سے بچنے کے لئے رویت ہلال میں گڑ بڑھ کرتی ہے حکمرانوں کو یہ احساس ہوگ یا تھا کہ ایک روز دو خطبے حکمران پر بھاری ہوتے ہیں۔ اس عرصے میں ایک سال جب علماء کرام نے متفقہ طور پر حکومتی اعلان کو مسترد کر دیا تو ایوب خان نے نہایت جید علماء مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی‘ مولانا احتشام الحق تھانوی اور مولانا مفتی محمد حسین نعیمی کو تین تین ماہ کے لئے دور دراز کی جیلوں میں بند کر دیا غالباً اسی سال ہمارے شہر سرگودھا میں یہ دلچسپ واقع بھی پیش آیا کہ جب سارے شہر کا روزہ تھا تو حکومتی اعلان کی تعمیل میں ضلعی انتظامیہ نے بہ جبر چند لوگوں کو اکٹھا کیا اور کہیں سے ایک مولوی صاحب کو امامت کے لئے کپڑ کر لے آئے۔ مولوی صاحب نے امات کروائی اور جب وہ پہلے سجدے میں گئے تو سجدہ خاصا طویل ہو گیا تو اپ اگلی صف میں موجود ایک پولیس افسر کو تشویش ہوئی تو اس نے سر اٹھا کر دیکھا تو مولوی صاحب نمازیوں کو حالت سجدہ میں چھوڑ کر بھاگ گئے تھے۔ تو یہ حشر ہوتا تھا سرکاری عیدوں کا۔ جناب ذوالفقار علی بھٹو نے 1974ء میں ایک مرکزی روایت ہلال اور چاروں صوبوں کی زونل کمیٹیاں بنا دیں۔ ان کمیٹیوں میں ہر دینی مکتب فکر کے جید اور ممتاز و معتدل علماء کرام شامل کئے جاتے ہیں۔1974ء سے اب تک مرکزی رویت ہلال کمیٹی نہایت ذمہ داری کے ساتھ یہ دینی فریضہ نبھا رہی ہے اور یوں امت ہر طرح کے خلفشار اور انتشار سے محفوظ ہے۔ فواد چودھری اتنے حساس دینی معاملے کو چھیڑ کر اپوزیشن کی احتجاجی تحریک کے لئے بارودی ایندھن فراہم کر کے عمران خان سے دوستی نہیں دشمنی کا ثبوت دیں گے خان صاحب کو اس معاملے کی انتہائی حساس نوعیت کا ادراک کرنا چاہیے اور فواد چودھری کو اپنی سائنسی پٹاری بند کرنے کا حکم دینا چاہیے۔