عمران خان نے وفاقی کابینہ میں ردوبدل کیا‘ کیا‘ پنجاب میں بھی فوری تبدیلی کی خواہش جاگ اٹھی۔ پنجاب کے ابتر معاملات وفاق کو متاثر کر رہے ہیں اور طرح طرح کی قیاس آرائیاں ہونے لگی ہیں۔ بعض تجزیہ کاروں کو زمین عمران خان کے پیروں سے کھسکتی محسوس ہو رہی ہے اور موجودہ فرسودہ پارلیمانی نظام کی بساط لپیٹے جانے کا خدشہ ہے۔ بلا شبہ پنجاب کے بغیر وفاقی حکومت’’سلطنتِ شاہ عالم‘ از دلی تابہ پالم ہے‘‘ بہادر شاہ ظفر کی طرح مجبور و بے بس حکمرانی پر آخر ایک ایسا شخص کیسے قانع ہو سکتا ہے جو برملا سلطان ٹیپو کو اپنا آئیڈیل قرار دیتا اور شیر کی ایک دن کی زندگی کو گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر سمجھتا ہے۔ وفاقی حکومت اٹھارہویں ترمیم کے بعد عملاً خارجہ اور دفاع کے اُمور تک محدود ہو چکی ہے اور دونوں شعبوں میں تحریک انصاف کی حکومت سرفراز و سرخرو ہے‘ امن و امان‘ تعلیم‘ صحت‘ روزگار اور سماجی بہبود کے شعبے صوبوں کے پاس ہیں اور مہنگائی پر قابو پانا صوبائی حکومت کی ذمہ داری‘ پنجاب میں مگر حکومت اندرونی اختلاف و انتشار کا شکار ہے۔ تین آئی جی تبدیل ہو چکے تیسرے چیف سیکرٹری کے بارے میںمشورے جاری ہیں‘ عوام کے بنیادی مسائل کا حل وفاقی نہیں‘ صوبائی حکومت کے پاس ہے جس کے پاس وسائل ہیں ہر سطح پر انتظامیہ اور وہ ادارے جو روز مرہ معاملات نمٹانے کے ذمہ دار ہیں‘ ہر شہری کو وزارت خارجہ سے واسطہ پڑتا ہے نہ وزارت دفاع سے اور نہ عام شہری سائنس و ٹیکنالوجی‘ ماحولیات‘ داخلہ اور وزارت اطلاعات و نشریات کا محتاج ہے‘ پنجاب حکومت ہی وفاقی حکومت کی کامیابی و ناکامی میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے اور وزیر اعلیٰ پنجاب ہی ارکان صوبائی و قومی اسمبلی و سینٹ کے درد کا درماں کرنے کے قابل ہیں۔ پنجاب میں مگر ایک مرنجان مرنج اور ناتجربہ کار وزیر اعلیٰ عثمان خان بزدار کو شریف خاندان اور وسطی پنجاب میں اثرورسوخ کی حامل مسلم لیگ سے نمٹنا‘ چودھری محمد سرور اور چودھری پرویز الٰہی کے پولیس و انتظامیہ میں اثرورسوخ کے باوصف اپنا دبدبہ قائم رکھنا اور بگڑے انتظامی ڈھانچے سے کام لینا تھا‘وہ آٹھ ماہ گزرنے کے باوجود عمران خان کے سوا کسی کی توقعات پر پورا نہیں اتر سکے۔ ذاتی شرافت اور وضعداری و ملنساری اپنی جگہ مگر پنجاب کے اڑیل گھوڑے پر پوری طرح قابو نہیں پا سکے۔ تبھی وقفے وقفے سے ان کی تبدیلی کی باتیں ہوتی رہیں‘ عمران خان ان کی کن خفیہ و خفتہ صلاحیتوں کے معترف ہیں‘ کسی کو کچھ معلوم نہیں ‘مگر وزیر اعلیٰ کی تبدیلی اتنی آسان نہیں جتنی ہمارے دانشور اور عجلت پسند تجزیہ کار سمجھتے ہیں۔ وفاقی اور صوبائی کابینہ میں ردوبدل وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے ہیجان و اضطراب پیدا ہوتا ہے‘ ناراضگی جنم لیتی ہے اور بسا اوقات دھڑے بندی کو فروغ ملتا ہے مگر تبدیلی کے لئے کوئی تردد نہیں کرنا پڑتا استعفیٰ لیا یا برطرفی کا نوٹس جاری کر دیا۔ اللہ اللہ خیر سلا۔ وزیر اعلیٰ کا انتخاب مگر اسمبلی کرتی ہے اور اگر وزیر اعلیٰ ڈٹ جائے‘ کوئی ایک دھڑا بغاوت کر دے‘ اپوزیشن متحد ہو کر کسی دھڑے کو ساتھ ملا لے یا کوئی اتحادی غیر معمولی سودے بازی پر تل جائے تو ایک ایسی حکمران جماعت نیا وزیر اعلیٰ آسانی سے منتخب نہیں کر سکتی جو آٹھ دس ووٹوں کی برتری سے قائم ہو۔ گورنر چودھری محمد سرور‘ سپیکر چودھری پرویز الٰہی‘ سینئر وزیر اعلیٰ علیم خان کے درمیان سینڈ وچ وزیر اعلیٰ کی پرفارمنس پر اعتراضات اپنی جگہ مگر اس کی تبدیلی کا رے داردہے۔ جس کا احساس پارلیمانی نظام کی سمجھ بوجھ رکھنے والے ہر شخص کو ہے گزشتہ آٹھ ماہ میں عمران خان یقینا اس گورکھ دھندے سے واقف ہو چکے ہیں جہانگیر خان ترین نے بھی انہیں زمینی حقیقت سے آگاہ ضرور کیا ہو گا۔ موجودہ کشمکش ان اطلاعات یا قیاس آرائیوں کی مرہون منت ہے کہ عمران خان کو بعض مہربان پنجاب میں تبدیلی کا مشورہ دے رہے ہیں اورکزئی کے جلسے میں عمران خان نے عثمان خان بزدار اور محمود خان کا نام لے کر پرفارمنس بہتر بنانے کی بات کی اور مشاورتی اجلاس کے بعد دونوں وزراء اعلیٰ پر اظہار اعتماد کا بیان جاری ہوا‘ جس سے قیاس آرائیوں کو مزید تقویت ملی کہ جس معاملے میں حکومتی ترجمان تردیدی بیان جاری کریں وہ عموماً ہوکر رہتا ہے تازہ ترین مثال اسد عمر کے استعفے کی ہے جس کی تردید اس وقت کے وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے کی۔1970ء کے عشرے میں ذوالفقار علی بھٹو کو مرکز اور پنجاب میں دو تہائی اکثریت حاصل تھی۔ پیپلز پارٹی پارلیمانی پارٹی میں کوئی رکن بھٹو کے اشارہ آبرو سے انحراف کی جرأت نہیں کر سکتا اور پارٹی میں شامل بڑے بڑے سیاستدان چیئرمین کے سامنے کورنش بجا لاتے۔ بھٹو نے ملک معراج خالد کو اچانک وزارت اعلیٰ کے منصب سے معزول کر کے مرکز میں پہنچنے کا حکم صادر کیا اور اس کا اعلان بھی کر دیا گیا ‘ملک صاحب شریف النفس ‘ مرنجان مرنج اور ڈسپلن کے پابند سیاستدان تھے اور بھٹو کے سیاسی و نظریاتی سحر میں بُری طرح گرفتار‘ مگر اس انداز میں معزولی اور اسلام آباد طلبی کو انہوں نے اپنی توہین جانا‘ بغاوت وہ کر نہیں سکتے تھے اور یوں خاموشی سے چلے جانا انہیں پسند نہ تھا‘مشورے کے لئے انہوں نے قائد حزب اختلاف علامہ رحمت اللہ ارشد اور حاجی سیف اللہ خان کو بلایا جو ان دنوں اپوزیشن کے قانونی اور پارلیمانی دماغ سمجھے جاتے تھے‘ ملک صاحب نے اپنا دکھ ظاہر کیا اور مشورہ چاہا‘ حاجی صاحب نے کہا آپ کیا چاہتے ہیں؟ بغاوت یا محض عزت و وقار کے ساتھ رخصتی؟ ملک صاحب نے کہا عزت و وقار کے ساتھ رخصتی!۔ حاجی صاحب نے کہا پورا ایوان آپ کو مکمل احترام سے رخصت کرے گا اور آپ کا جانشین غلام مصطفی کھر اس میں پیش پیش ہو گا۔ واپسی پر اپوزیشن نے وزیر اعلیٰ معراج خالد کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی قرار داد جمع کرا دی‘ جس پر حکومتی صفوں میں ہلچل مچ گئی۔ عدم اعتماد کی قرار داد کے دوران وزیر اعلیٰ کو معزول کیا جا سکتا ہے نہ نئے وزیر اعلیٰ کا انتخاب ممکن۔ چنانچہ طویل مذاکرات کے بعد طے پایا کہ صوبائی اسمبلی کا اجلاس طلب کیا جائے گا جس میں وزیر اعلیٰ آبرومندانہ طریقے سے اپنا استعفیٰ پیش کریگا‘ ہائوس ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرے گا اور وہ سپیکر کے علاوہ نئے قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف سے پھولوں کا گلدستہ وصول کر کے ایوان سے رخصت ہوں گے۔ چودھری نثار علی خاں کا شوشہ چھوڑ کر بزدار کے مہربانوں نے ان کی مدد کی ہے تحریک انصاف کو متحد کر دیا ہے اور ان کے اتحادیوں کو پریشان۔ نرگسیت پسند نثار علی خاں مسلم لیگی حکومت کے خاتمے تک کوئی گروپ بنا سکے نہ میاں نواز شریف سے اختلاف کے باوجود اپنی منزل کا تعین کر پائے۔ ان دنوں وہ مسلم لیگ میں ہیں یا نہیں؟ ان کے سوا کوئی نہیں جانتاوہ حلف اٹھانے کے بعد مسلم لیگ ن میں ڈینٹ ڈال سکتے ہیں یا نہیں ؟اگلے چند دنوں میں پتہ چل جائے گا بظاہر وہ خطرہ شریف خاندان اور مسلم لیگ ن کے لئے ہیں‘ تحریک انصاف کے لئے نہیں ‘انہیں مسلم لیگ ن سیاسی سپورٹ فراہم کرنا چاہے تو میاں نواز شریف اور مریم نواز کبھی اس کی اجازت نہیں دیں گے‘ مسلم لیگی ارکان کا فاورڈ بلاک بزدار وزیر اعلیٰ ہونے کے باوجود نہیں بنا سکے‘ نثار علی خاں کیسے بنا لیں گے؟ اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا۔ چودھری برادران مسلم لیگ (ن) تو کیا پی ٹی آئی میں فارورڈ بلاک بنانے کی اہلیت رکھتے ہیں اور بعض حلقے مسلم لیگ(ن) میں فارورڈ بلاک نہ بننے کا ذمہ دار چودھری پرویز الٰہی کو قرار دیتے ہیںمگر وہ پی ٹی آئی میں شامل ہوئے بغیر عمران خان سے نامزدگی حاصل کر سکتے ہیں نہ شریف خاندان پر اعتماد کرنے کی غلطی ‘دودھ کے جلے ہیں اب چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پئیں گے۔ ایسی صورت میں بجٹ کی منظوری تک بزدار حکومت کو کوئی خطرہ نہیں البتہ ان ہونیاں اس ملک میں اکثر ہوتی ہیں جس صوبے میں عارف نکئی‘ منظور وٹو اور بزدار وزیر اعلیٰ بن سکتے ہیں وہاں کچھ بھی کرنا اور ہونا ممکن ہے؟ تجزیے ‘ تخمینے اور دلائل وہاں کام کرتے ہیں جہاں فیصلے عقل و دانش کی بنیاد پر ہوں‘ پاکستان مگر طلسماتی سرزمین ہے ؎ بخیردیوانگی واں اور چارہ ہی کہو‘ کیا ہے جہاں عقل و خرد کی ایک بھی مانی نہیں جاتی