ہر سال کی طرح اس برس بھی شاہ عبدالطیف بھٹائی کے بعد سندھ کے دوسرے بڑے صوفی شاعر سچل سر مست کا عرس رمضان المبارک کے مقدس ماہ میں وادی سندھ کے اس شہر میں منعقد ہوا جو شہر پنجاب سمیت سندھ کے سارے صوبوں میں بسنے والے لوگوں کے راہ میں اس وقت پڑتا ہے جب وہ کراچی کی طرف سفر کرتے ہیں۔ جی ہاں! خیرپور سندھ کا وہ شہر ہے جس کی تاریخ تو بہت تابناک ہے مگر اس کا حال سندھ کے اکثر شہروں کی طرح بے حال ہے۔ یہ وہ شہر ہے جس کے خمیر میں صرف کھجوروںکی خوشبو نہیں ہے مگر اس کی زباں میں سرائیکی کی وہ مست کردینے والی مہک ہے سینے میں اس طرح سلگتی ہے جس طرح پہلی محبت کا نشہ نس نس میں بس جائے اور انسان اپنے احساسات میں بہت گہرا اور بیحد بلند ہوجائے۔سندھ میں جب بھی سرائیکی شاعری کا تذکرہ آتا ہے تب سب سے پہلے سچل سرمست کا نام پکارا جاتا ہے۔ حالانکہ سچل سرمست نے صرف سرائیکی میں شاعری نہیں کی۔ انہوں نے سندھی میں شاعری کی ہے۔ انہوں نے فارسی میں شاعری کی ہے۔ انہوں نے اردو میں بھی شاعری ہے۔ انہوں نے مجموعی طور پر سات زبانوں میں شاعری کی ہے مگر یہ بات سندھ کے قومپرست دانشور بھی تسلیم کرتے ہیں جو لطف اور جو حسن ان کے سرائیکی کلام میںہے وہ کسی اور زباں میں نہیں۔ سرائیکی زباں تو ویسے بھی محبت کی زباں ہے مگر اس شہد جیسی زباں میں شعور اور آگہی کا جو شراب سچل سرمست نے ملایا ہے ؛ ایسا کارنامہ ہمارے ملک میں اور کہیں نہیں ہوا۔سچل سرمست ساقی ہیں اس مے خانے کے جہاں توحید کی مے کشید کی جاتی ہے۔ توحید کی وہ مے جو ساغر سے نہیں آنکھوں سے پلائی جاتی ہے۔ اس مے میں جو مستی ہے۔ اس شراب میں جو شعور کی بلندی ہے۔ اس کا احساس سچل سر مست کا کلام پڑھنے کے بعد بھی حاصل ہو سکتا ہے۔ سچل سرمست کے کلام کی ایک خوبصورت خوبی یہ بھی ہے کہ وہ ایک ایسی تلوارکی طرح ہے جس پر زمانے کا زنگ نہیں چڑھتا۔ وقت کتنا بھی گذر جائے مگر ان کا ترنم آج بھی اتنا تیز ہے جتنا ان کی زندگی میں تھا۔ اس لیے جب سچل سرمست کا کلام گانے کے لیے صوفی فقیر آتے ہیں تب ہر سننے والا جھوم اٹھتا ہے۔ کیوں کہ ان کے سروں میں ایک ایسی مستی ہے جو سچل سرمست کی پہچان ہے۔ سچل سرمست کے کلام میں یہ بھی خوبی ہے کہ وہ سہل ہے۔ وہ صرف الفاظ کلے حوالے سے نہیں بلکہ انداز کے حوالے سے بھی سہل ہے۔ اس لیے ان کا کلام ہر خاص و عام کے دل میں اتر جاتا ہے۔ سچل سر مست کا کلام جس دل میں بھی اترتا ہے وہ دل مست ہو جاتا ہے۔ اس لیے َانہوں نے اپنے ایک مشہور سرائیکی کلام میں فرمایا ہے: ’’جنہیں دل پیتا عشق دا جام او دل مستوں مست مدام حق موجود ؛ سدا موجود‘‘ سچل سر مست کہتے ہیں جس دل نے بھی عشق کا جام پیا ہے وہ دل ایسی مستی میں آجاتا ہے جو مستی ایک بار چڑھ جائے تو پھر اترتی نہیں۔ سچل سرمست عام شراب کی بات نہیں کرتے۔ عام شراب میں وہ بات کہاں؟ عام شراب تو انسان روز پیتا ہے اور روز اتر جاتی ہے۔ سچل سر مست کہتا ہے کہ ایسی شراب پیو جو پینے کے بعد کبھی نہ اترے۔ وہ عشق کی شراب ہے۔ وہ توحید کی شراب ہے۔ سچل سرمست کی شاعری میں اس شراب کا اتنا تذکرہ ہے کہ سننے والا مستی میں سرشار ہوجائے۔سچل سرمست کی شاعری میں ایک اور خوبی بھی ہے جو خوبی بہت کم شعراء میں ہے۔ وہ خوبی یہ ہے کہ ان کی کلام میں کوئی خوف تو کیا کوئی احتیاط تک نہیں۔ ان کی شاعری میں فکر کی صرف گہرائی اور بلندی نہیں بلکہ بے باکی بھی ہے۔ سچل سر مست صوفی تھے مگر ایسے صوفی نہیں کہ جنہوں نے دنیا کو ترک کیا ہو۔ جنہوں نے دنیاوی جنجھٹ سے اپنے آپ کو بچانے کے لیے جنگل میں پناہ لی ہو۔ یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ سچل سر مست کا تعلق ملنگ خاندان سے نہیں تھا۔ ان کا خاندان اسلامی علم کے حوالے سے ایک شرعی خاندان تھا۔ سچل سر مست بذات خود حافظ قرآن تھے۔ سچل سر مست ایسے صوفی نہیں تھے کہ کوئی اور بات سمجھ میں نہ آئی تو نارنجی قمیص پہن لی اور ساز اٹھا کر گانے بیٹھ گئے۔ سچل سر مست ساری لوگوں کو علم دینے میں گذاری۔ وہ خود فنکار بھی تھے۔ وہ گاتے بھی تھے۔ مستی میں آکر ناچتے بھی تھے۔ مگر جب ہوش کا وقت آتا تو سچل سر مست دین کی تعلیم دیتے۔ ان کا خاندان ایک بہت بڑا مدرسہ چلاتا تھا۔ سچل سر مست خود عالم بھی تھے۔ ان کی نہ صرف عربی بلکہ فارسی پر بھی بڑی دسترس تھی۔ وہ صرف قرآن مجید کی تلاوت نہ کرتے بلکہ مولانا روم کی مثنوی کا مطالعہ بھی ان کے مشاغل میں مستقل رہتا۔ اس لیے جب بھی سچل سر مست کے کلام کو پڑھا جائے گا یا سنا جائے گا تو اس میں عشق کے ساتھ ساتھ علم کی خوشبو بھی آتی رہے گی۔ سندھ میں سچل سرمست اپنی تمام تر خوبیوں کی وجہ سے چاہے جاتے ہیں۔ صرف عام لوگ ہی نہیں بلکہ بہت بڑے عالم بھی ان سے بڑی محبت کرتے ہیں۔ وہ سب ایک بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ جو بہادری اور جو بے خوفی سچل سر مست کے کلام میں ہے کہ اور کسی شاعر کے کلام میں اس درجہ تک دیکھنے میں نہیں آتی۔ سچل سر مست کو سندھ میں ثانی منصور ثانی بھی کہا جاتا ہے۔ کیوںکہ انہوں منصور بن حلاج کے پیغام کو سات زبانوں میں پھیلایا۔ انہوں نے اپنے دور کے سارے بزدل شاعروں کو بتایا کہ جب تک تم میں منصور حلاج کی مستی نہیں تب تک تم سچ کا بیان نہیں کرسکتے۔ سچل سرمست نے اپنے دور کے حکمرانوں سے قریبی مراسم نہیں رکھے۔ حالانکہ ان کے دور کے تالپور حکمران چاہتے تھے کہ سچل سر مست جیسا مشہور اور بڑے پیمانے پر محبت سے پکارے جانے والا صوفی شاعر ان کی دربارمیں آئے مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ اس لیے کہ تالپور حکمران مثالی حکمران نہیں تھے۔ ان کا لوگوں کے ساتھ امن؛ انصاف اور محبت کا رشتہ نہیں تھا۔ سچل سر مست مکمل طور پر عوامی شاعر تھے۔ ان کے کلام میں عوامی محبت کا سمندر ٹھاٹھیں مارتا ہے۔ یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ جب سچل سر مست کا عرس مبارک آتا ہے تب ہمارا میڈیا اس تقریب کو اس طرح کور نہیں کرتا جس طرح کور کیا جانا چھاہئے۔ اس کا ایک سبب یہ ہے کہ سچل سر مست کا مزار اس شہر میں ہے جو دور ہے ۔ اس شہر میں حکومت چاہے تو مہمانوں کے لیے بہتر انتظامات کر سکتی ہے مگر سچل سر مست کے مزار پر سندھ کے حکمران روایتی پگڑی باندھ کر آتے ہیں اور چادر چڑھا کر واپس چلے جاتے ہیں۔ کاش! انصاف کا نعرہ بلند کرنے والے ہمارے وزیر اعظم کبھی سندھ میں آتے ہوئے اپنا ہیلی کاپٹر خیرپور کی طرف موڑ دیں اور سچل سر مست کی درگاہ پر حاظری دیکر پورے پاکستان کو بتائیں کہ سچل سر مست کا پیغام پاکستان کے روح کا پیغام ہے۔ سچل سر مست بہت ساری خوبیوں کا مجموعہ ہیں۔ ان کی ساری خوبیاں انسانوں کو توڑنے کے بجائے ان کو اپس میں جوڑتی ہیں۔ اس لیے انہوں نے اپنا اظہار کسی ایک زباں میںنہیں بلکہ سات زبانوں میں کیا۔ ان کی ساتوں زبانوں میں ایک ہی بات ہے۔ وہ بات جو سچ ہے۔ سچل سر مست سارا سچ ہے۔ اس سچ کو اپنے دور کے انسانوں تک پہنچانا ہم سب کا فرض ہے۔ ایسے الفاظ سچل سر مست کے علاوہ اور کون لکھ سکتا ہے: ’’وہی موج و تلاطم ہے وہی اپنا سفینہ ہے مسلسل ہے حیات اپنی نہ مرنا ہے نہ جینا ہے دیار کفر و ایماں ہے سنبھل کر چل ارے ناداں یہاں تو فرط نفرت ہے یہاں تو شرط کینہ ہے سحر پھوٹی ریائے زہد پھر سے کو بہ کو نکلا سچل اب تک مری آنکھوں میں کیوں خواب شبینہ ہے‘‘