روزنامہ 92نیوز کا مطالعہ ’’ضرورت‘‘ سے زیادہ ’’عادت‘‘ سی بن گئی ہے۔29اگست کی اشاعت میں ہی انکشاف نما خبر صرف92میں پڑھی ہے کہ امریکی پابندیوں کے باوجود پاک ایران گیس منصوبہ کی تکمیل کے لئے تیسرا معاہدہ کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ ایسا معاہدہ کرنا ایران کی جتنی ضرورت ہے اتنی ہی پاکستان کی بھی ہے۔ ماضی میں صدر آصف زرداری کے عہد میں جو پاک ایران گیس معاہدہ ہوا وہ زمینی حقائق سے کچھ ہٹ کر تھا۔ میں واقف حال ہونے کی بنا پر لکھ رہا ہوں کہ یہ معاہدہ شاہ عبداللہ اور صدر آصف زرداری کے مابین ہو چکی تلخی کے سبب صدر آصف علی زرداری کا سعودیہ مخالف رویہ تھا۔ لہٰذا پاکستانی معاشی مفادات‘ پائپ لائنوں کی تعمیر کے لئے مطلوب وقت‘ زمین کا حصول فضا اور موسموں‘ امریکی پابندیوں کو زیر غور لانے کی زحمت صدر زرداری عہد کی حکومت پاکستان نے گوارا ہی نہیں کی تھی اس لئے یہ پائپ لائن تاحال ناتمام ہے ایران نے اپنی طرف کی تمام تعمیرات مکمل کر رکھی ہیں جبکہ پاکستان کی طرف اس کی تعمیرات ناممکن ہوتی رہی ہیں اب جبکہ حکومت پاکستان اور حکومت ایران نے باہمی طور پر ایک نئے معاہدے کے بارے میں سوچا ہے کہ اگست 2024ء تک پائپ لائن کی تعمیر ہو جائے گی اور پاکستان 750ملین کیوبک فٹ گیس یومیہ خریدنے کا پابند ہو گا۔ وزیر اعظم عمران خان کے دورہ ایران کے دوران معاہدہ میں توسیع اور ایران کی طرف سے لیگل نوٹس واپس لینے کا اصولی فیصلہ ہوا تھا۔ پاکستان ایل این جی کے مقابلے میں ایران سے سستی ترین گیس درآمد کر سکتا ہے۔ میں عربوں کا حمایتی ہوتے ہوئے مذکورہ بالا متوقع معاہدہ کی حمایت کرتا ہوں۔ اس حمایت کا سبب پاکستان میں موجود ایرانی سفیر محترم مہدی ہنر دوست کا وہ مثبت رویہ ہے جو انہوں نے گوادر(بلوچستان) میں سعودی سرمایہ کاری اور اماراتی تعمیرات کے حوالے سے پیش کیا تھا۔ جب سے ایرانی شہر دماغوں نے میرے عرب حمایت پر مبنی کالموں کی اشاعت پر پابندی لگوانے اور مذہبی پراکسیز دھمکیوں کا استعمال کیا تھا تب سے میں نے خود پر پابندی لگا دی تھی کہ کسی ایرانی موقف بیان کرتے کردار سے نہیں ملوں گا مگر جس وسیع الظرفی کے ساتھ ایرانی پارلیمنٹ نے اہل کشمیر کے حق میں دلیرانہ قرار داد پاس کی ہے‘ مرشد اعلیٰ علی خامینائی نے بھی بیان جاری کیاہے اس اسلام اور مسلمان دوست رویے کے سبب میں آج سے کسی بھی ایرانی موقف رکھنے والے ایرانی سے اب مل سکتا ہوں۔ ایک زمانہ تھا کہ 12اکتوبر 1999ء کے جنرل پرویز مشرف اقتدار کے بعد کچھ امریکی سفارت کار مجھ سے بعض نازک اور حساس معاملات پر میرے گھر آ کر مشورہ لیا کرتے تھے مگر بعدازاں امریکیوں کی ’’خود غرضی‘‘ نمایاں ہونے پر میں نے خود کو ان سے بہت دور کر لیا تھا۔کشمیر کے حوالے سے ایرانی پارلیمنٹ کی قرار داد کی روشنی میں جناب مہدی ہنردوست اور ان کے رفقا کے لئے اپنے گھر کے دروازے کھول رہا ہوں۔ اگرچہ عربوں کے حوالے سے حمایت جو میرا سابقہ موقف تھا وہ تاحال برقرار ہے۔ مگر مجھے اپنے ’’معشوقوں‘‘ میں بھی اگر کم ظرفی ‘ احسان فراموشی‘ خودغرضی بار بار نظر آئے تو مجھے بھی اپنے معشوقوں کے لئے فضول عشق سے ذرا پرہیز کرنا چاہیے۔ حقائق کا تقاضا ہے کہ جہاں ایران درست ہے اس کی مکمل حمایت کی جائے۔ ایران کو اپنا تیل پوری دنیا میں فروخت کرنے کی اسی طرح مکمل آزادی ہونی چاہیے جیسا کہ روس امریکہ اور عربوں کو حاصل ہے۔ ایرانی عوام کو حق ہے وہ اپنا زمینی رزق اسی طرح حاصل کریں جس طرح امریکہ روس عرب دنیا زمینی رزق تیل فروخت سے حاصل کرتے ہیں خدا کرے کہ ایرانی حکمت کاروں کو یہ سمجھ آ جائے کہ وہ چاہ بہار بندرگاہ کو بھارت سے واپس لے کر چین کو دے دیں۔ یوں ایران کے لئے رزق کے حصول میں آسانیاں پیدا ہو جائیں گی جبکہ گوادر اور چاہ بہار کے حوالے سے موجود اندیشے ‘ خدشے غلط فہمیاں بھی دور ہو جائیں گی۔جناب جواد ظریف ایران کے پاس ایسا ہیرا ‘ کوہ نور ہے جس کی فتوحات کی تازہ جھلک فرانس کے شہر میں واضح نظر آئی ہیں جہاں صدر ٹرمپ سمیت جی 7کے جمہوری ممالک کے سربراہان جمع تھے گڈلک جواد ظریف۔