امریکہ سے تعلق رکھنے والا ڈریوبنسکی(drew Binsky) ایک ٹریول بلاگر ہے۔ وہ 162ملکوں کی یاترا کر چکا ہے۔ ملکوں ملکوں گھومتا اور اپنی سیر کی ویڈیوز بناتا ہے جسے اپنے یوٹیوب چینل پر اپ لوڈ کرتا ہے۔ سوشل میڈیا پر لاکھوں صارفین اس کے سفر کی دلچسپ ویڈیوز کے دیوانے ہیں۔

ڈریوبنسکی امریکی ریاست ٹیکساس کے میٹرو پولیٹن شہر ڈیلس میں پیدا ہوا۔ اور ایروزنا میں پلا بڑھا۔ اکنامکس اور انٹر پنیور شپ میں اس نے ماسٹرز کیا اور پھر اپنی ڈگری کے بالکل برعکس پیشہ اختیار کیا وہ کوریا میں انگریزی زبان پڑھانے پر مامور ہو گیا۔ بنسکی کہتا ہے کہ کوریا میں رہتے ہوئے وہ ایشیائی ثقافت سے اتنا متاثر ہوا کہ اس نے ارادہ کر لیا وہ ایک سیاح کے طور پر ایشیا کے تمام ملکوں کی سیر کرے گا۔ یوں اس نے اپنے سفر کا آغاز ایشیائی ملکوں سے کیا۔

اب تک وہ 162ء ملکوں کے لوگوں سے مل چکا ہے۔ ان کے رسم و رواج زندگی گزارنے کے کے طور طریقے‘ ثقافت اور سماج سے واقفیت حاصل کر چکا ہے ڈریو بنسکی کو کالم کا موضوع بنانے کے پیچھے اس کا پاکستان کے بارے میں ایک خوب صورت بیان ہے جو اس نے پاکستان کی سیر کے دوران اپنے ویڈیو بلاگ میں شیئر کیا اور یوں دنیا میں پھیلے اس کے لاکھوں فالورز تک یہ پیغام پہنچا۔ بحیثیت پاکستانی مجھے بھی بہت خوشی ہوئی جب میں نے ڈریو بنسکی کی پاکستان کے بارے میں چند ویڈیوز دیکھیں ڈریو بنسکی کہتا ہے کہ میں 162ملکوں میں پھرا ہوں لیکن میں نے پاکستان جیسی بے مثال میزبانی کہیں نہیں دیکھی۔ اس کے اپنے الفاظ میں 

''Pakistan is the best hospitable country in the world.

ڈریو بنسکی کہتا ہے کہ اس میزبانی میں پشاور کا تو کوئی ثانی ہی نہیں جہاں لوگ زبردستی آپ کو تحائف دیتے ہیں کھانے کھلاتے ہیں اور ایک پیسہ وصول نہیں کرتے۔ وہ بہت جذباتی انداز میں کہتا ہے ایک امریکی کے لئے یہ بات بہت حیران کن ہے کہ پاکستان میں کھانے پہ میرا ایک پیسہ نہیں لگا نہ صرف میرے پاکستانی میزبانوں نے میرا بے حد خیال رکھا بلکہ اگر میں گلی سے گزرنے والے کسی چھوٹے خوانچہ فروش سے بھی کچھ کھانے کو خریدتا تو وہ اعلیٰ میزبانی کی مثال قائم کرتے ہوئے ایک امریکی سے اس کی قیمت وصول کرنے سے انکار کر دیتا۔ ہم امریکہ میں تو ایسا سوچ بھی نہیں سکتے۔‘‘

ایک امریکی اگر پاکستانیوں کی ایسی سخاوت اور میزبانی پر حیران ہوتا ہے تو اس کا حیران ہونا بنتا ہے کیونکہ امریکہ میں میزبانی کا کوئی خاص تصور موجود نہیں ہے۔ہم ڈریو بنسکی کے شکر گزار ہیں کہ اس نے پاکستانیوں کے اس خوبصورت پہلو کو نہ صرف محسوس کیا بلکہ دنیا تک بھی ان کی مہمان نوازی اور خوبصورتی کو پہنچایا کہ ہم پاکستانی کیسے کھلے دل کے لوگ ہیں جو مہمان کی عزت افزائی اور خاطر تواضح میں خوشی محسوس کرتے ہیں۔

انٹرنیشنل وزیٹر لیڈر شپ پروگرام(IVLP)کے تحت دسمبر میں میرا تین ہفتے قیام امریکہ میں رہا۔ چار پانچ ریاستوں میں جانا ہوا میڈیا کے مختلف اداروں اور یونیورسٹیوں میں جانا ہوا۔ کہیں تو پانی کا ایک گلاس بھی مشکل سے ملتا۔ لیکن اگر چائے اور کافی رکھی ہوتی تو بس اتنا انتظام ہوتا کہ دس بارہ خوش قسمت پہلے آئیے پہلے پائیے کی بنیاد پر چائے یا کافی حاصل کر سکتے۔ جبکہ ہمارا گروپ کم و بیش بیس بائیس لوگوں پر مشتمل ہوتا۔

ڈینورمیں ہم ایک امریکی پروفیسر ونڈھم لوپیسکو کے گھر رات کے کھانے پر مدعو تھے انہوں نے اپنی طرف سے ڈنر کا اچھا انتظام کیا یہ اور بات کہ ان کے کھانے اور ذائقہ ہم پاکستانیوں کو کم ہی بھایا۔

پروفیسر ونڈھم نے دوران گفتگو بتایا کہ اگر آپ ہمارے گھر میں امریکی ثقافت اور رسم و رواج دیکھنے کے متمنی ہیں تو آپ کو مایوسی ہو گی کیونکہ ہمارے گھر فرنچ ثقافت کا غلبہ ہے۔ چونکہ میری بیوی فرانسیسی ہے۔ پروفیسر نے ایک قہقہہ لگایا اور کہا‘ امریکی کبھی بھی اتنے مہمان نواز اور دوستانہ رویے کے نہیں ہوتے۔ 

پروفیسر ونڈھم امریکی ہوتے ہوئے بھی امریکی کلچر سے نالاں دکھائی دیتا تھا۔ کہنے لگا کہ ہمیں فرانسیسی ثقافت پسند ہے۔ فرانسیسی لوگ کھلے دل کے مالک ہوتے ہیں۔ دوست احباب کے اکٹھ کو پسند کرتے ہیں۔ امریکیوں کی نسبت کم مادیت پرست ہیں۔

مجھے یاد ہے کہ پنسکولا میں ہم ایک لوکل ریڈیو سٹیشن گئے وہاں کی سینئر اور مقبول ترین براڈ کاسٹر وینڈی سمرز سے بہت اچھی گپ شپ رہی۔ وینڈی پچاس کے پیٹے میں ایک نہایت دلکش خاتون تھیں۔ ایک دم سے دوستی کرنیوالی‘ خوش مزاج سی وینڈی اس وقت بے حد حیران ہوئیں جب ہماری ایک صحافی دوست نے انہیں بتایا کہ پاکستانی بہت اچھے میزبان ہوتے ہیں۔ اگر ہم آپ کو کھانے پر لے کر جائیں تو آپ کے کھانے کا بل ہم بخوشی ادا کر دیں گے۔ وینڈی کے خوب صورت چہرے پر حیرت کا ایک جہان نظر آیا۔ یعنی اس کے لئے یہ بات اس قدر انوکھی تھی۔ اس لئے کہ امریکی تو امریکن سسٹم پر یقین رکھنے والے لوگ ہیں۔ویسے یہ امریکن سسٹم اب ہمارے ہاں بھی کافی مقبول ہے۔ سب کے کھانے کا بل آپ نہ دینا چاہیں تو سہولت سے کہہ دیا جاتا ہے کہ کھانا کھانے چلتے ہیں۔ بل امریکن سسٹم کے تحت۔ سب اپنا اپنا۔

پاکستانی فطری طور پر کھلے دل کے لوگ ہیں۔ ہم امریکہ گئے امریکیوں کے لئے چھوٹے چھوٹے پاکستانی تحائف لے کر گئے تھے۔ ہم سولہ صحافی خواتین کا گروپ تھا۔ سب اپنے ساتھ پاکستانی تحائف لے کر گئے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ میں نے دکاندار سے کہا کہ مجھے ہینڈی کرافٹس والی رنگین چوڑیاں اور کڑے چاہئیں۔ جو مجھے امریکی خواتین کو گفٹ کرنے ہیں۔ میری مطلوبہ چیزیں اس نے مجھے دکھائیں میں نے کچھ پسند کر کے ان کی قیمت ادا کر دی۔ مجھے اس وقت حیرت ہوئی جب اس نے ایک ہینڈی کرافٹس چوڑیوں کا ایک خوب صورت سیٹ مجھے دیتے ہوئے کہا باجی! یہ آپ ہماری طرف سے وہاں کسی کو تحفہ دے دیں۔ یہ ہے پاکستانی جذبہ میزبانی!

پاکستان سے لے جانے والے تحائف ہم جب بھی کسی امریکی کو دیتے اس کا چہرہ خوشی اور حیرانی سے تمتما اٹھتا! اومائی گاڈ۔!اٹس لولی۔! اٹس بیوٹی فل۔! بار بار کہتے۔ اور کہتے چلے جاتے!

تو بھائی ڈریو بنسکی ! پاکستانی ایسے ہی ہیں۔ کھلے دل کے سخی میزبان۔ امریکہ جا کر امریکیوں کو تحائف دے آتے ہیں۔ تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی امریکی (غیر ملکی) پاکستان آئے تو اسے اپنی شاندار میزبانی سے حیران نہ کریں!