پاکستان کے سیلاب سے بچنے کے انتظامات 'عام' اوقات میں بھی ناقص رہے ہیں۔ ملک بھر میں آفات منڈلا رہی ہیں۔ چولستان اور تھر پہلے ہی خشک سالی کی زد میں آ چکے ہیں۔ اس کے علاوہ، 7 مئی کو ہنزہ ضلع ایک بہت بڑی گلیشیئر لیک آؤٹ برسٹ فلڈ (GLOF) سے بری طرح تباہ ہوا ہے ۔ عام طور پر، برفانی جھیلیں مئی میں بنتی ہیں لیکن اس سال یہ ایک ماہ پہلے تیار ہوئی ہیں۔ 2010ء کے سپر فلڈ کے بعد سپریم کورٹ آف پاکستان اور صوبائی حکومتوں نے انکوائری کمیشن تشکیل دیا تھا۔ پنجاب حکومت نے کبھی بھی مکمل رپورٹ پبلک نہیں کی۔ سندھ حکومت نے رپورٹ کو پبلک کرنے کے باوجود کبھی فالو اپ کارروائی نہیں کی۔ اگر پرنٹ میڈیا کی کوریج اشاریہ ہے تو سندھ اور پنجاب میں یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتیں جو کہ گزشتہ کئی برسوں سے دو سیاسی جماعتوں کے ذریعے ہی چلتی رہی ہیں انہوں اپنے ہی کمیشنوں کی سفارشات پر عمل درآمد کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ مثال کے طور پر، ایکسپریس ٹرئبیون کی 14 ستمبر 2014ء کی خبر کے مطابق ؛’’2010ء کے سیلاب کی انکوائری: غفلت کے الزام میں افسران کو ترقی دی گئی‘‘۔ حکومت سندھ کمیشن کی رپورٹ کو نظر انداز کر رہی ہے اور سفارشات پر عملدرآمد میں ناکام ہے۔ ایک اور معروف انگریزی روزنامہ نے 17 جون 2011ء کو رپورٹ کیا کہ "مسلم لیگ ن وفاقی سطح پر مختلف واقعات کی عدالتی انکوائری اور سرکاری افسران کے احتساب کا دعویٰ تو کر رہی ہے، لیکن پنجاب میں اس کی حکومت عدالتی رپورٹ پر خاموش بیٹھی ہے۔ 2010ء کے سیلاب کی تحقیقات کے حوالے سے روزنامہ مزید رپورٹ کرتا ہے، "اپنے ابتدائی پیراگراف میں، رپورٹ نے صوبائی فلڈ مینیجرز کے لیے حواس باختہ ، ناتجربہ کار اور مہارت سے عاری جیسے الفاظ استعمال کیے ہیں۔" پنجاب حکومت کے ایک سینئر افسر نے مجھے غیر سرکاری طور پر جوڈیشل فلڈ انکوائری ٹربیونل کی رپورٹ کی ایک کاپی فراہم کی جس کا عنوان تھا - Awakening Rude A، جسے لاہور ہائی کورٹ کے ایک موجودہ جج جسٹس منصور علی شاہ نے تصنیف کیا تھا۔ دونوں رپورٹس نے واضح طور پر کئی اعلیٰ حکام کو نام لے کر غفلت اور بدعنوانی کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ سندھ کمیشن کی رپورٹ میں بھی نام لے کر اہلکاروں کے خلاف کارروائی کی سفارش کی گئی ہے اور انہیں مستعفی ہونے کا حکم دیا گیا ہے اور حکومتوں کو ان کے خلاف کارروائی کی ہدایت کی گئی ہے۔ یہ عجیب نہیں کہ اس کے بجائے دونوں حکومتوں نے ملزم اہلکاروں کو ترقی دی۔ پاکستان میں کرپٹ سیاستدانوں اور سرکاری افسران کے ناپاک گٹھ جوڑ کے طریقہ کار سے ہر کوئی واقف ہے۔ اس وقت کی حکمران جماعتیں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے ملک کو بہت زیادہ نقصان پہنچانے والوں کو سزا دینے کے بجائے اس اتحاد کو تحفظ دینے کو ترجیح دی۔ سپریم کورٹ کے کمیشن کا یہ مشاہدہ دلیل کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔ اس میں درج ہے کہ ، 'مظفر گڑھ اور ڈی جی خان میں شدید سیاسی تقسیم کے پیش نظر، کٹوتیوں یا سیاسی طور پر محرک الزامات میں فساد کے امکان کو قطعی طور پر رد نہیں کیا جا سکتا'۔ تینوں کمیشنوں کی سفارشات نے ملک میں ڈیزاسٹر مینجمنٹ کو بہتر بنانے کے لیے کچھ معیارات بھی طے کیے ہیں۔ مثال کے طور پر، سندھ کی رپورٹ میں تمام تعلیمی اداروں میں ڈیزاسٹر مینجمنٹ کورسز متعارف کرانے کی سفارش کی گئی ہے اوریہ آج تک نہیں ہوا۔ سپریم کورٹ کے کمیشن نے ڈیزاسٹر مینجمنٹ کو بہتر بنانے کے لیے درج ذیل سمیت درجنوں اقدامات کی بھی سفارش کی: قبل از وقت وارننگ کے نظام کو بہتر اور وسیع کرنا۔ سیلاب سے بچاؤ کے اقدامات کو بڑھانا۔ کمیشن نے لکھا ہے کہ دریائی پشتوں، نہروں اور بڑی شاہراہوں/موٹر ویز کی دیکھ بھال اور مرمت نہ ہونے کی وجہ سے بڑے نقصانات ہوئے جس سے پانی کے فطری بہاؤ میں رکاوٹ پیدا ہوئی۔ لہذا، 'این ایچ اے اور ایف ایف سی کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایسے نکات کی نشاندہی کے لیے مشترکہ سروے کریں۔ تجاوزات کے حوالے سے کمیشن نے نوٹ کیا کہ ’کچے کی ہزاروں ایکڑ اراضی پر مقامی بااثر افراد نے غیر قانونی طور پر قبضہ کر رکھا ہے۔ بیراجوں کے تالاب والے علاقوں میں اس عمل میں اضافہ ہوا ہے۔ بدقسمتی سے، صوبائی حکومتیں تجاوزات کو فروغ دینے والے غیر قانونی کاموں کی حوصلہ افزائی کرنے میں ملوث ہیں۔ حکومتیں تجاوزات کی اجازت نہ دیں۔ سندھ کے کمیشن کے سربراہ جسٹس (ر) زاہد قربان علوی نے نوٹ کیا، "نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے پاس کوئی ٹھوس لائحہ عمل نہیں ہے۔" اچھی خبر یہ ہے کہ اس کے بعد سے NDMA نے بہت جامع منصوبہ تیار کیا ہے۔ فیڈرل فلڈ کمیشن جسے 2010ء کے سیلاب کے تناظر میں انکوائری کمیشنوں نے شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا، آج سیلاب سے نمٹنے کے لیے کافی بہتر پوزیشن میں نظر آتا ہے۔ لیکن بری خبر یہ ہے کہ عملی طور پر (ضلعی اور مقامی سطح پر) کچھ بھی نظر نہیں آتا۔ سیلاب زدہ کمیونٹیز جن کے لیے ڈیزاسٹر مینجمنٹ کی منصوبہ بندی کی گئی ہے، منصوبہ بندی، عمل درآمد، جائزہ اور نگرانی وغیرہ کے ہر مرحلے پر انہیں نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ 2019 ء میںPATTAN جس کے ساتھ مصنف منسلک ہے، نے تباہی کے شکار علاقوں میں ایک ملک گیر سروے کیا تھا۔ اس کا مقصد ڈیزاسٹر گورننس اور اس میں مقامی لوگوں کی شرکت کے بارے میں آفات سے متاثرہ کمیونٹیز کے خیالات کو اکٹھا کرنا تھا۔ تقریباً سبھی (97%) جواب دہندگان جو دریا کے کنارے رہتے ہیں نے کہا کہ وہ کبھی بھی کسی سرکاری ایجنسی کی طرف سے کسی قسم کی منصوبہ بندی اور عمل درآمد میں شامل نہیں رہے۔ بے حسی کی بات یہ ہے کہ صوبائی حکومتیں کبھی مقامی حکومتوں کو کام نہیں کرنے دیتیں۔ اگرچہ نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ ایکٹ 2010 ء کے تحت ہر ضلع کو مقامی سطح پر ڈیزاسٹر مینجمنٹ ڈھانچہ تشکیل دینا ضروری ہے، لیکن مشکل سے پانچ فیصد اضلاع نے اس ذمہ داری کو پورا کیا ہے۔ پاکستان پائیدار ترقیاتی اہداف (SDGs) اور Reduction Risk Disaster for Framework Sendai (SFDRR) کا دستخط کنندہ ہونے کے ناطے ہر سال دونوں پالیسی طریقہ کار کے اشاریے حاصل کرنے کا پابند ہے اور مقامی آبادیوں کی شمولیت دونوں طریقہ کار کا بنیادی ستون ہے۔ ہماری حکمرانی کی ساختی کمزوریوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے، ایسا لگتا ہے کہ اگر حکمران جماعتیں اور غیرمعمولی طور پر مقبول (اپوزیشن) پارٹی آپس میں لڑتی رہیں تو ریاستی حکام کے پاس آزادانہ اور نسبتاً زیادہ مؤثر طریقے سے کام کرنے کی زیادہ گنجائش ہوتی ہے۔ اگر حکمران جماعتیں قبل از وقت انتخابات کے لیے پی ٹی آئی کی تحریک کو روکنے میں ضلعی انتظامیہ کا سہارا لیتی ہیں ، تو ڈیزاسٹر مینجمنٹ کو بہت نقصان پہنچے گا۔