مقبوضہ کشمیرمیں قابض بھارت کی جھنجھلاہٹ اور ہندو فاشزم اور برہمنی فسطائیت کی دلدادہ مودی سرکار تاریخ کے اس سچے نوشت پر مہرتصدیق ثبت کرتی چلی جارہی ہے کہ غاصبانہ اقتداراورجابرانہ اختیار ہر لحاظ سے انسانی، قانونی، اخلاقی جوازسے عاری ہوتا ہے ۔مہم جوئی سے کسی نہتی قوم کو طاقت کی بنیاد پر پچھاڑنا، دبانا،زیرکرنااور موت کے گھاٹ اتار نے سے آزادی پسند قوموں کے جذبے مرا نہیںکرتے۔ اس خطے میں گذشتہ سات دہائیوں سے بھارت کے ہندو حکمران مسلمانوں کے ساتھ جو سلوک روارکھے ہوئے ہیںوہ ہندو فاشزم اوربرہمنی فسطائیت کے سوا کچھ نہیں ہے ۔ مقبوضہ کشمیرکاگہرے زخموں سے چور وجود اورارض کشمیرکاچپہ چپہ بزبان حال اس ہندو فاشزم اور برہمنی فسطائیت کی دہائی دے رہا ہے۔ ہندو فاشزم کااندازہ اس امرسے نہایت آسانی کے ساتھ لگایاجاسکتاہے کہ بھارت نے کشمیر کے عظیم بطل حریت سیدعلی گیلانی کی پاکستانی پرچم میں لپٹی میت کو سنگینوں کے سائے میںانکے لواحقین سے بالجبر چھینا گی اورپھر اندھیرے اورسیاہ شب میں اسے حیدر پورہ سری نگرکے مقامی قبرستان میں ایسے عالم میں دفنا دیا کہ کوئی پتہ نہیں کہ انہیں نہلایا،کفنایابھی گیا یا نہیں۔ تاریخ سچ لکھنے میں تامل نہیں بر تا کرتی اورنہ ہی وہ خواہمخواہ کے انتظار کی روادار ہوتی ہے۔ مورخ کو لکھنا پڑے گاکہ جب کشمیرکے بزرگ قائدسیدعلی گیلانی 12سالہ خانہ نظر بندی کے دوران وفات پاگئے تو بھارت کی مودی سرکار اگر ملت اسلامیہ کشمیر کو سنگینوں کے سا ئے میں گھروں کے اندر رہنے پر مجبور نہ کرتی تو سیدعلی گیلانی کاجنازہ جموں و کشمیر کی تاریخ کا سب سے بڑا جنازہ ہوتااوراسے ایک محشر برپاہوجاتااوریہ جنازہ مقبوضہ کشمیرسے بھارت کے نکلنے کاجنازہ ثابت ہوتالیکن اسی نفسیاتی دبائوکے تحت بھارت نے ا فاشزم اور فسطائیت کامظاہرہ کیااور بزرگ قائد کے جسدخاکی کی توہین کامرتکب ہوا۔ بھارت کویہ ڈرلاحق تھا کہ سیدعلی گیلانی کے جنازے میں شرکت کے لیے پورا کشمیر سری نگرمیں اس طرح امڈ آئے گا کہ یہاں تل دھرنے کی جگہ بھی باقی نہ رہے گی اور ملت اسلامیہ کشمیر اپنے محبوب قائدکواس عہدکے ساتھ ہمیشہ کے لئے الودعی کہہ کر لحد میں اتار یں گے کہ ہم بھارتی غلامی کی زنجیریں اورسلاسل توڑ کررہیں گے چاہے اس کیلئے آگ اور خون کے اورکتنے ہی دریا درپیش کیوں نہ ہوں۔ اس عہدکے ساتھ بلند ہونے والے نعرے سے پوراکشمیر دہل اٹھ جاتا جس سے بھارت کے ایوانوں میں آگ لگ جاتی۔ بزرگ قائد کی میت کی جبری تدفین کشمیری مسلمانوں کے خلاف بھارتی قابض فوج کی فاشسٹ کارروائی کا ایک ایسا شرمناک اور انسانیت سوز فعل ہے جس نے پوری انسانیت کوشرمسار کر دیا۔ قابض بھارتی فوج نے کشمیری عوام کواپنے محبوب قائدکے جنازے میں شرکت سے بالجبرروک لیا۔مواصلاتی رابطے بند کر دیئے، آج سیدعلی گیلانی کی وفات کے بعدتادم تحریر بھی سری نگرکا مواصلاتی رابطہ دنیاسے مکمل طورپر کٹاہواہے۔بھارت کی فسطائیت کاعالم یہ ہے کہ اس نے بزرگ قائد کی قبر اور انکی آخری آرام گاہ پرفوجی پہرہ بٹھادیا تاکہ کوئی انہیں سلام کہنے کے لئے حاضرنہ ہو۔سید گیلانی کی قبرکے محاصرے کاصاف مطلب یہ ہے کہ وفات پانے کے بعد بھی کشمیر کا شیر سیدعلی گیلانی اپنی وفات کے بعد بھی بھارت کے اعصاب پر سوار ہے اورزندہ گیلانی کی طرح مرحوم گیلانی سے بھی بھارت بدستور خوف کھارہاہے ۔ کیونکہ بھارت جانتاہے کہ سیدگیلانی کی عزیمت نے کشمیری نوجوانوں کی کئی نسلوں میں روح حریت کو جگایاوروہ یہ بھی جانتاہے کہ ان کے بلندکئے ہوئے نعروں کی بازگشت اس وقت تک سنائی دیتی رہے گی جب تک ملت اسلامیہ کشمیرہندوکی غلامی سے نجات نہیں پا جاتی۔ اس سے قبل گیلانی صاحب مرحوم کے دیرنیہ رفیق محمداشرف صحرائی مرحوم کی میت کے ساتھ بھی ایساہی کیاگیا تھا۔ 5 مئی 2021 بدھ کو وہ 77برس کی عمر میں وفات پاگئے تھے۔ اس طرح بھارت کشمیرکے دونوں تحریکی قائدین کے حراستی قتل اورانکے جسد خاکی کی توہین کامرتکب ہوچکاہے۔ کشمیرمیں قابض بھارتی فوج کے ہاتھوں شہداء مجاہدین کے جسدخاکی کی بے حرمتی کرنا، شہداء مجاہدین کو فوجی گاڑیوں کے پیچھے باندھ کر گھسیٹنا،مکانات کی دوسری ،تیسری منزلوں سے انہیں نیچے گرانا،انہیںآگ لگاکربھسم کرڈالنا،کرینوں پر اٹھا کر پھر انہیں زمین پرپٹخ دینے کے شرمناک واقعات کشمیرمیں عام ہیں۔ زندہ کشمیری مسلمانوں اورانکے شہدا کیساتھ روا رکھے جانیوالا زہریلاسلوک یہ سب ہند ا فاشزم اور برہمنی فسطائیت کی تفہیم اوراسکی واضح تشریح ہے۔ نوے کی دہائی میں جب کشمیری مسلمانوں نے اپنے بلند آہنگ لہجوں سے دنیا کو اپنی بپتاسنائی تووہ دن اور آج کا دن کہ کشمیرکی وادیوں میں گھری ملت اسلامیہ کشمیر کی ہندو فاشزم اوربرہمنی فسطائیت کے ہاتھوں لگاتار توہین کی جارہی ہے ۔ اگرچہ اسلامیان کشمیر کے بلند آہنگ لہجے بالجبردبائے جاچکے ہیں اورانکے غموں سے بھری زنبیل پرلا ینحل گانٹھیں کس دی گئی ہیںکہ وہ اپنی غلامانہ کیفیت بیان نہیں کرپاتے مگر انکے قلوب واذہان کے سوچ کے دریچوں سے انکے اعلیٰ مقاصد الم نشرح ہورہے ہیں اوروہ اپنی منزل کی نشاندہی کرچکے ہیں۔ اپنی تقدیرکافیصلہ کرناہراس مظلوم قوم کاحق ہے کہ جسے بالجبرغلام بناکررکھ دیاگیاہو۔ایسی قوم وملت کو اپنے رطب ویابس،اپنے وسائل، اپنی محنت اور اپنی اہلیت سے پورا فائدہ اٹھا کر اپنی زندگیاں بہتر بنانے کا حق ہے۔مگر74سال سے زائدعرصہ بیت چکاہے کہ بھارت نے ملت اسلامیہ کشمیرکوعملی طورپر یرغمال بنا کے رکھا ہے اورمختلف ہتھکنڈوں سے ارض کشمیر پر اجارہ داری قائم کرتاچلاجارہا ہے۔ بھارت پون صدی سے کشمیریوں پر ظلم و جبر روا رکھے ہوئے ہے، اس کی حواس باختگی ، تخریب کاری اور مریضانہ ذہنیت نے اسلامیان کشمیرکی آزادی سلب کرکے ان کا جینا دوبھر کر رکھا ہے،اس نے کشمیریوں سے کئے ہوئے وعدوں کوطاق نسیان کی نذر کر دیا ہے اور اپنے ظلم پربے نیازی سے دلوں پر پائوں دھرتا آگے بڑھتا ہی چلاجارہاہے۔ملت اسلامیہ کشمیر غلامی کی سلاسل کوتوڑرہے ہیں اوراپنی آزادی کیلئے اپنے گبر و جوانوں کی قربانیاں پیش کررہے ہیںاوراس طرح ساحر لدھیانوی کہتاہے کہ خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا۔ لہو بہتا ہے تو زمیں کی رگوں میں اتر کر آئندہ فصلوں کے رگ و ریشے میں جھلک دیتا ہے۔ المختصر! کشمیر کی تحریک آزادی کے جہادی محاذکی تاریخ میں ایسے گوہر نایاب نظر آتے ہیں جن کے تب وتاب سے ہر کشمیری کا سر فخر سے بلند ہو جاتا ہے۔ یہ بلند قامت، نابغہ روز گار ہستیاں شہرہ آفاق اور انمٹ نقوش کی حامل ہیں۔ ہمالیہ سے بلند کردار اور انمول عمل ان شخصیات کا خاصا ہے اور اس کے اثرات سمندر سے بھی گہرے ہیں۔