سوہاوہ،اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک،خبرنگار خصوصی، نمائندہ92نیوز،نیوز ایجنسیاں )وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے پاکستان کا نظریہ پیچھے چلا گیا تومشرقی پاکستان ٹوٹا، اس میں بھارت کی مداخلت اور دیگر عوامل بھی تھے ،پاکستان کے دولخت ہونے کی ذمہ داری ہماری تھی،غلطی ہماری تھی ہم نے انصاف نہیں دیا، طاقت کے زور پر ملک کو اکٹھا نہیں رکھا جاسکتا، ملک کو فوج نہیں عوام متحد رکھتے ہیں کیونکہ ریاست شہریوں کو انصاف دیتی ہے ، ان کی ضروریات پوری کرتی ہے ۔ملک میں معاشی بحران ہے اور غریب اور امیر میں فرق بڑھ رہا ہے تاہم معاشی بحران آتے جاتے رہتے ہیں لیکن نظریہ چلا جائے توقوم ختم ہوجاتی ہے ، سابق حکمرانوں نے عوام پر توجہ کی بجائے بیرون ملک جائیدادیں بنائیں،بھٹو کے بعد ملک میں کوئی لیڈر نہیں تھا،ان کے بعدجتنے بھی حکمران آئے وہ عوام کے خیرخواہ بنے اورگئے تودنیا میں جائیدادیں تھیں، پاکستان عام ملک نہیں، قیام پاکستان کے پیچھے علامہ اقبالؒ اور قائد اعظمؒ کی سوچ تھی جسے ماضی کے حکمرانوں نے دفن کردیا،پاکستان نے اسلامی فلاحی ریاست بننا تھا،یہ وہ پاکستان نہیں جیسا اسے بننا چاہئے تھا۔جہلم کی تحصیل سوہاوہ میں القادر یونیورسٹی کا سنگ بنیادرکھنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہاجس مقصد کیلئے پاکستان بنا تھا ہم اس سے بہت دور چلے گئے ،ہمیں واپس اپنے نظریے کی جانب آنا ہوگا،جب لوگوں کا نظریہ ہی نہیں تو وہ لیڈر کیسے بن سکتے ہیں،ہم نے نوجوانوں کو لیڈر بنانا ہے ۔تحریک پاکستان کا منشور بھی یہی تھا جو نظریہ پاکستان کا تھا کہ پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست بنانا ہے ۔وزیر اعظم نے کہابلوچستان والے بھی پیچھے رہ گئے ہیں،فاٹا کے عوام کے برے حالات ہیں ، ہم نے فاٹا کے لوگوں کی بھی مدد کرنی ہے ، اندرون سندھ بھی 70فیصد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کررہے ہیں ۔ 23سال قبل سیاست شروع کرنے کامقصد پاکستان کو فلاحی ریاست بنانا تھا، علامہ اقبال نے اسلامی فلاحی ریاست کے تصور کو اجاگر کیا۔عمران خان نے کہا ریاست لوگوں کو انصاف دیتی ہے ،انصاف نہ ملنے کی وجہ سے عوام میں احساس محرومی پیدا ہوا ہے ، ہم ریاست تو بن گئے مگراسلامی رہے اور نہ ہی فلاحی ،مدینہ کی ریاست کا نظام آج ہمیں یورپ میں نظر آتا ہے ، مدینہ کی ریاست عدل وانصاف کی بنیاد پر بنی تھی ۔انہوں نے کہا نبی پاکﷺؐ نے تعلیم کی اہمیت پر بہت زور دیا ۔سوہاوہ میں سیدعبد القادرجیلانیؒ کے نام سے یونیورسٹی بنا رہے ہیں،اس یونیورسٹی کی بنیاد روحانیت کے سپہ سالار شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کے نام پر رکھی گئی ہے جہاں جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ روحانیات کو پڑھایا جائے گا، پاکستان میں روحانیات کے حوالے سے کوئی یونیورسٹی موجود نہیں لیکن ہم روحانیات کو سپر سائنس بنائیں گے اور اب اس یونیورسٹی میں روحانیات کو باقاعدہ طور پر پڑھایا جائے گا، روحانیات کو ہم سپرسائنس سے سمجھتے ہیں اور یہ سائنس سے بھی آگے ہے ،عظیم صوفی بزرگ نے سائنس، روحانیت اور اسلام کا تعلق جوڑا تھا اور روحانیت میں تحقیق شروع کرائی تھی، ہم بھی ان کے نظریے کو آگے لے کر بڑھیں گے ، ہم بھی سائنس، اسلام اور روحانیت کا تعلق جوڑیں گے اور روحانیات کو سپر سائنس بنائیں گے ۔القادر یونیورسٹی ریاست مدینہ کے اصول سمجھائے گی،یہاں جدید سائنسی علوم کے ساتھ ساتھ روحانیت کی تعلیم دی جائیگی،یہاں سے ایسے سکالر نکلیں گے جو اسلام کے خلاف اٹھائی جانے والی آوازوں اور رسول ﷺ کی شان میں گستاخی کا جواب دینگے ، اس یونیورسی سے بڑے بڑے لیڈر سامنے آئینگے ۔ہمارے نوجوانوں پر مغربی کلچر حاوی ہے ،موبائل فون کی وجہ سے بڑا مشکل وقت ہے ، ہم نے اس کا مقابلہ کرنا ہے ،انہیں دین اور اسلام کی تاریخ بتانی ہے ،کوئی بھی معاشرہ تعلیم کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتا،ہم سکولوں میں بچوں کو نظریہ پاکستان اور ریاست ِ مدینہ سے متعلق بتائیں گے تاکہ کم از کم آنے والے نسلوں کو دین کی حقیقی تعلیم دے سکیں، اگر ہم پاکستان بننے کے حقیقی مقصد کے بارے میں نہ پڑھا سکے تو مغربی کلچر کا مقابلہ کرنا مشکل ہوگا، ہمیں نوجوانوں کو لیڈر بنانا ہے اور یہ تب بنیں گے جب وہ ریاست ِ مدینہ کے اصولوں اور تصورات کے بارے میں پڑھیں گے ، اس مقصد کے لیے القادر یونیورسٹی میں ریسرچ کرائیں گے ، چین ٹیکنالوجی میں ہم سے آگے ہے ، ہم نے اس سے مستفید ہونا ہے ، یونیورسٹی کو نمل کی طرز پر پر بنائیں گے ،یہ عوام سے پیسے اکٹھے کر کے بنائی جائے گی، اس جامعہ کے لیے حکومت فنڈ نہیں دے گی ،ذہین طالب علموں کو داخلہ دیں گے اور میرٹ کی بنیاد پر ملک بھر سے طالب علموں کو یہاں لائیں گے ۔عمران خان نے کہا علامہ اقبالؒ نے دین کے ساتھ ساتھ مغربی فلسفہ پڑھا، وہاں کے سکالرز سے ملے ،شاعر مشرق کی 90 سال پہلے کی باتیں اور کلام سے ایسالگتا ہے کہ وہ آج ہمارے لیے باتیں کررہے ہیں کیونکہ انہیں سائنس کا بھی پتہ تھا،آج بدقسمتی سے زیادہ تر سیاست دانوں کو اپنی پڑی ہوتی ہے کہیں سے ترقیاتی فنڈز مل جائیں، ہمیں ایک بڑی سوچ والے لیڈرز کی ضرورت ہے ۔ دریں اثنا وزیراعظم شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین کے درمیان سرد جنگ ختم کرانے کے لیے سرگرم ہوگئے اور اس سلسلے میں انہوں نے دونوں رہنماؤں سے الگ الگ ملاقات کی ہے ۔ میڈیارپورٹس کے مطابق وزیراعظم نے دو روز قبل دونوں رہنماؤں سے الگ الگ ملاقاتیں کیں اور انہیں کشیدگی دور کرنے کی ہدایت کی۔اس دوران وفاق، پنجاب اور خیبر پختونخوا کے حکومتی معاملات بھی زیر بحث آئے ۔ ذرائع کے مطابق وفاقی کابینہ کے بعد خیبر پختونخوا کابینہ میں بھی تبدیلوں کا امکان ہے ۔ادھروزیر اعظم عمران خان کوافغان صدر اشرف غنی نے ٹیلیفون کیا۔اس دوران افغانستان اور خطے میں امن وامان کی صورتحال پرگفتگو ہوئی،دونوں رہنماؤں نے غربت کے خاتمہ اور اقتصادی ترقی کے لئے مل جل کر کام کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔وزیر اعظم نے کہا افغانستان برادر دوست ملک ہے ، طویل تنازع نے افغانستان کو غیر مستحکم کیا جبکہ اس سے پاکستان بھی متاثر ہوا،دونوں ملکوں کی قیادت عوامی فلاح کیلئے کام کرے ، افغانستان کے مسئلے کا حل مکمل طور پر افغانوں اور ان کی قیادت میں ہونا چاہیے ۔ وزیر اعظم نے افغان صدر کودورہ پاکستان کی دعوت دی۔اشرف غنی کے دورہ پاکستان کی تاریخ دونوں ممالک آئندہ چند یوم میں طے کرینگے ۔این این آئی کے مطابق افغان صدر نے دورہ پاکستان کی دعوت قبول کرلی۔