پاکستانی میڈیا کو درپیش بحران پر قلم اٹھایا ۔ ۔ ۔ تو ایک ’’دبستاں‘‘ تو کھلنا ہی تھا کہ یہ برس دو برس نہیں نصف صدی سے اوپر کا قصہ ہے۔اور اس کا ذمہ دار تین بڑے فریق یعنی حکومتِ وقت، اخبار مالکان اور اب الیکٹرانک میڈیا اور پھر خود ہمارا قبیلہ یعنی میڈیا کارکن ہیں۔مگر میڈیا کا رکن کی پوری برادری کو اس کا ذمہ دار نہیں ٹھہرا ناچاہئے۔ اکثریت تو لگی بندھی دہاڑی پر ہی لگے تھے ۔دراصل الیکٹرانک میڈیا آنے کے بعد وہ دس بیس انگلیوں پر گنے جانے والے سرکش ،خود سر اینکر اور کالم کار تھے ۔جنہیں پہلے تو سونے میں تول کر میڈیا پر سوار کیا گیا۔اور پھر شریف حکومت کی تبدیلی کے ساتھ میڈیا پر مالی بحران آیا تو ایک کلاسک شاعر کی زبان میں: جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے تو بوجھ اتارا کرتے ہیں مگر اس میں تاخیر ہوگئی کہ ’’سونے میں تلے جانے والے‘‘نہیں۔۔۔اکثریت میں وہ نکالے جارہے ہیں جن کی تنخواہیں پانچ دس ہندسوں میں بھی نہیں۔ ۔ ۔ آپ جس ادارے کا حصہ ہوں،اُس کے بارے میں کچھ لکھنا چاپلوسی کے زمرے میں آئے گا۔لیکن اگرحقیقت ہے تو دوسرے میڈیا ہاؤسز کو آئینہ دکھانے بلکہ شرم دلانے کے لئے یہ لکھنا ضروری ہوجاتا ہے کہ 92نیوز چینل کی جب سالگرہ منائی گئی تو مالکان کے ساتھ ملازمین بھی تالیاں پیٹ رہے تھے کہ غالباً ان کے دعوے کے مطابق 92نیوز واحد چینل اور اخبار ہے کہ جس میں سے نہ تو کوئی کارکن فارغ کیا گیا ۔اور نہ ہی جن کی تنخواہوں کی ادائیگی میں کوئی تاخیر ہوئی۔میڈیا بحران پر قلم اٹھایا تو سارے زخم ہرے ہونا شروع ہوگئے کہ جس میں آج کے اس بحران کے تینوں فریقوں نے،کم یازیادہ حصہ ڈالا۔گذشتہ کالم میں آغاز اپنی برادری سے ہی کیا تھاکہ اُس وقت کے عظیم المرتبت ایڈیٹر صاحبان نے کس طرح تقسیم سے پہلے سے لگائے ہوئے ایک موقر اخبار ’’سول اینڈ ملٹری گزٹ‘‘ پر پابندی لگانے کے فیصلے پر مہر ثبت کی تھی۔’’سول اینڈ ملٹری گزٹ‘‘ کے سربراہ ایک انگریز ایف ڈبلیو بسٹن تھے ۔اخبار پر چھ ماہ کی پابندی لگی جس کے بعد جب اس کی دوبارہ اشاعت کا آغاز ہوا تو یہ مالی طور پر بیٹھ چکا تھا۔جس سے دل برداشتہ ہوکر وہ لندن لوٹ گئے۔اصل میں ایک ہندو سیٹھ رام کرشن ڈالمیا تھے۔جن سے یہ ایک مشہور پاکستانی سیٹھ نصیر شیخ کو حاصل ہو ا جو سیاسی اثر رسوخ استعمال کرنے کے لئے اس اخبار کو استعما ل کرنا چاہتے تھے۔مگر اخبار نکالنا بھاری پتھر نہیں،پہاڑ ہوتا ہے۔ نصیر شیخ نے جلد ہی اس سے ہاتھ کھینچ لئے ۔ اور یوں 1970میں سول اینڈملٹری گزٹ اپنے سو سال پورے کرنے سے چند ماہ قبل ہی دم توڑ گیا ۔سول اینڈ ملٹری گزٹ جس طرح اپنے انجام کو پہنچا وہ میڈیا ہاؤسز کیلئے ہمیشہ ایک عبرت کا نشان رہے گا۔مگر ہمارے ہاں حکمراں ہوں یا میڈیا ہاؤسز کے بادشاہ لوگ،تاریخ سے کہاں سیکھتے ہیںکہ ۔ ۔ ۔ یہ تاریخ ایک بار پھر قیام پاکستان کے 11سال بعد فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے مارشل لاء کے آغاز میں دہرائی گئی جب میاں افتخار الدین کے پروگریسو پیپر یعنی پاکستان ٹائمز ،روزنامہ امروز اور ہفت روزہ لیل و نہار پر شب خون مارا گیا۔میاں افتخار الدین تھے تو ایک سیاستداں اور سرمایہ دار۔ ۔۔ مگر انہوں نے اُس وقت کے تمام بڑے اخبار نویسوں اور دانشوروں کو ان اخبارات کا مالک ِ کل بنادیا تھا جو ایک روشن ،خوشحال مستقبل کے پاکستان کا خواب دیکھا کرتے تھے۔مظہر علی خان ،فیض احمد فیضؔ ،مولانا چراغ حسن حسرتؔ ،سید سبط ِ حسن ،احمدندیم قاسمی ،ابرار صدیقی ۔۔۔ ہئے ہئے، وہ جن کے دم سے تیری بزم میں تھے ہنگامے گئے تو کیا تیری بزم ِ خیال سے بھی گئے 8اکتوبر کو مارشل لاء کے نفاذ کے ساتھ ہی ، قومی اسمبلی اور فیروز خان نون کی آئینی حکومت کو توڑ دیا گیا۔ سیاسی پارٹیوں پر پابندیاں لگادی گئیں۔ ۔ ۔ اور پھر اس کے لئے تو یہ ضروری تھا ہی کہ اُس کی سب سے ’’توانا‘‘ آواز کا گلا گھونٹا جائے ۔جی ہاں، ایوبی آمریت کے آغاز پر پہلا صحافتی حملہ پاکستان ٹائمز،امروز اور لیل و نہار پر ہوا۔ ۔ ۔ ہمارے محترم و مکرم مرحوم ضمیر نیازی نے اپنی کتاب ’’صحافت پابند ِ سلاسل‘‘ میں یہ المناک روداد بیان کردی ہے۔خود پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹر مظہر علی خان قبضے کی المناک کہانی ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں: ’’وہ سنیچر 18اپریل 1959ء کا دن تھا ۔جب صبح کے وقت دو وزیروں ( شیخ اوربھٹو) کی چوکس نگرانی میں قبضے کی کارروائی کی گئی۔ان میں ایک جنرل بھی شامل تھا۔ ان کا ہیڈ کوارٹر مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر سیکٹر بی کی قیام گاہ میں واقع تھا۔اس کے علاوہ آپریشن کو سر انجام دینے کے لئے ایک دفتر لاہور جمخانہ کلب میں بھی قائم کیا گیا تھا۔تقریبا ً آدھی رات کو مسلح پولیس اور سی آئی ڈی کے آدمیوں نے نسبت روڈ پر پی پی ایل کے اخباروں کے دفتر کو گھیر لیا تھا۔رات کی شفٹ کے عملے کی دفتر سے روانگی کے تھوڑی دیر بعد پوری عمارت پر ان لوگوں کا قبضہ ہوگیا۔اُسی وقت پی پی ایل کے چیئر مین میاں افتخار الدین اور منیجنگ ڈئریکٹر سید امیر حسین شاہ کے گھروں کو بھی پولیس والوں نے گھیر لیا۔ان کے مکانوں کی اچھی طرح تلاشی لینے کے بعد چیک بُکیں،بینکوں کے اکاؤنٹ ،خطوں کے ڈھیر ،اخباروں کی فائلیں اور یہاں تک کہ پی پی ایل کے اخباروں کے لیٹر پیڈ بھی سی آئی ڈی والوں نے اپنے قبضے میں کر لیے۔ ’’ تقریباً پانچ بجے صبح ایک وزیر (طارق علی کے مطابق بھٹو) نے میرے گھر آکر مجھے قبضے کی اطلاع دی۔میں نے فوراً ان سے پوچھا: ’آپ ایسا کس طرح کرسکتے ہیں؟ کس قانون کے تحت؟‘ ان کا جواب تھا کہ :’دو دن پہلے سیکورٹی ایکٹ میں ایک ترمیم کر لی گئی ہے۔‘ انہوں نے لگی لپٹی رکھے بغیر کہاکہ اس اقدام کا واحد مقصد اخباروں کی ملکیت میاںافتخار الدین سے لے کر کسی اور شخص کے حوالے کرنا ہے۔‘وزیر نے مجھے یہ بھی یقین دلایاکہ اس کے سوا کوئی اور تبدیلی کرنا مقصود نہیں ہے۔اس کے برعکس عملے کو بہتر سہولتیں فراہم کی جائیں گی۔ ’’میاں افتخار الدین سے اُن کے گھر پر ملاقات کرنے کے بعد مظہر علی خاں اپنے دفتر پہنچے تو منیجنگ ڈائریکٹر کے کمرے کو محمد سرفراز کے قبضے میں پایا۔جنہیں پی پی ایل کا ایڈمنسٹریٹر مقرر کیا گیا تھا۔وزیر (یعنی ذوالفقار علی بھٹو) اور فوجی حکومت کے دوسرے نمائندوں نے مظہر علی خاں کو پی پی ایل کی تمام مطبوعات کے چیف ایڈیٹر کے عہدے پر برقرار رہنے پر قائل کرنے کی کوشش کی ۔انہوں نے تمام پیش کشوں کو حقارت سے ٹھکرا دیا اور دفتر سے ہمیشہ کے لئے باہر نکل آئے۔‘‘ (جاری ہے)