ہجری تقویم (Calender)،جس کی بنیاد چاند کی ماہانہ گردش پر ہے ،کے مطابق یکم محرم الحرام سے نئے اسلامی سال کا آغاز ہوتا ہے ۔ قرآن پاک کی سورہ التوبہ کی آیت نمبر36کے مطابق :’’بیشک مہینوں کی تعداد ، اللہ تعالیٰ کے نزدیک 12ہے کتاب الٰہی میں جس روز سے اس نے پیدا فرمایا ، آسمانوں اور زمین کو ، ان میں سے چار عزت والے ہیں …‘‘دنیا کی مختلف اقوام ماہ و سال کے تعین کے لیے اپنا کیلنڈر بناتی ہیں ۔ اہل ایران ہر بادشاہ کی تخت نشینی سے ،جبکہ رومیوں نے سکندر مقدونی کے آغازِ بادشاہت سے جنتری کا آغاز کیا۔ عرب ،بالخصوص حضرت اسماعیلؑ کی اولاد--- اپنے سنین کاآغاز ’’آتشِ نمرود‘‘ یا تعمیر کعبہ کے سال سے کرتے ۔ ازاں بعد ابرہہ کے کعبہ پر حملہ آور ہونے کے واقعہ کی مناسبت سے ،اہل عرب بر سوں کا شمار کرنے لگے ۔ حضرت عمر فاروق ؓ کے عہدِ خلافت میں ’’ سنِ ہجری‘‘ کے اجراء سے اسلامی کیلنڈر کا آغاز ہوا،عربوں کے ہاں سال کا پہلا مہینہ چونکہ محرم تھا ، اس لیے ’’ہجری سال ‘‘ کا آغاز بھی محرم ہی سے ہوا ۔گذشتہ روز یعنی اتوار یکم ستمبر 2019ء کو یکم محرم الحرام …اسلامی سال1441ھ کا پہلا دن تھا ، یوں تو ،اسلامی سال کا آغاز ہر بار ہی ہوتا ہے ۔ لیکن یہ مقدس ماہ وسال اس بار…جن دکھوں اور عبرتوں میں اپنے آغاز کو آیاہے ،اس نے کربلاکے مناظر پوری انسانیت کے سامنے تازہ کردیئے ہیں ، آج کشمیر کی وادی میںہزاروں اہلِ ایمان گرفتارِ بَلاہیں ،ان پر عرصہ ٔ حیات تنگ ہے ،نہتے کشمیریوں کو گولیوں کا نشانہ بنا کر کربلا کی تاریخ دہرائی جارہی ہے ، اُمّتِ مسلمہ کے درماندہ فکری قافلے اوران کی لہو لہو سوچیں ،جو پہلے ہی نڈھال تھیں ، اس موجودہ المناک صور تحال سے ان کے کرب میں کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے ،یوں لگتا ہے جومعرکہ’’ کربلا‘‘ میں جاری ہوا تھا ،آج بھی جاری ہے اورابھی نہ جانے کب تک جاری رہے گا----لیکن المیہ یہ ہے: قافلۂ حجاز میں ایک حسین بھی نہیں گرچہ ہے تابدار ابھی گیسوئے دجلہ وفرات کیا نہیں اور غزنوی کار گہۂ حیات بیٹھے ہیں کب سے منتظر اہلِ حرم کے سومنات بین الاقوامی خبر رساں ادارے… مظلوم کشمیریوں کی داستانِ غم والم کو جس طرح بیان کررہے ہیں ،اس سے کلیجہ منہ کو آتا ہے ، نہتے کشمیری …مہلک ہتھیاروں سے لیس بھارتی فوجیو ں کا پتھر اور غلیلوں سے کس حد تک مقابلہ کرسکتے ہیں، جس کا لازمی نتیجہ یہی ہے کہ وہ ان کے انسانیت سوز سلوک سے تنگ آکر انہیں خود ہی کہہ دیتے ہیں کہ ہم پر تشدّد نہ کرو بلکہ ہمیں شوٹ"Shoot"کر دو ۔ ایسی ہی صور تحال میں اقبال نے اپنی معروف نظم ’’حضور رسالت مآبﷺ میں ‘‘ لکھی اور6اکتوبر1911ء کو بادشاہی مسجد میں منعقد ہ اجتماع میں پڑھی ،جس میں اقبال خود بھی روئے اور مسلمانوں کو رُلا یا: گراں جو مجھ پہ یہ ہنگا مۂ زمانہ ہوا جہاں سے باندھ کے رختِ سفر روانہ ہوا قیود شام وسحر میں بسر تو کی لیکن نظامِ کہنۂ عالم سے آشنا نہ ہوا فرشتے بزمِ رسالت میں لے گئے مجھ کو حضور آیۂ رحمت میں لے گئے مجھ کو یعنی :’’میں دنیا کے ہنگاموں سے دل برداشتہ اوربیزار ہو کر ،دنیا سے سامانِ سفر باندھ کر ، روانہ ہو پڑا ،میں نے صبح وشام کی پابندی میں وقت کاٹا، لیکن میں دنیا کے پرانے نظام سے واقف نہ ہوا، فرشتے مجھے اس رسول ﷺ کی محفل میں لے گئے ،جو سراپۂ رحمت ورافت ہے ۔‘‘ حضور دہر میں آسودگی نہیں ملتی تلاش جس کی ہے ، وہ زندگی نہیں ملتی ہزاروں لالۂ وگل ہیں ریاض ہستی میں وفا کی جس میں ہَو بُو وہ کلی نہیں ملتی مگر میں نذر کو اک آبگینہ لایا ہوں جو چیز اس میں ہے جنت میں بھی نہیں ملتی جھلکتی ہے تیری اُمت کی آبرو اس میں طرابلس کے شہیدوں کا ہے لہو اس میں یعنی ’’حضور ﷺ زمانے میں چین نہیں ملتا ، اور وہ زندگی میسر نہیں آتی جس کی مجھے تلاش ہے ، دنیا میں ہزاروں پھول ہیں ،لیکن وہ کلی نایاب ہے ، جس میں وفا کی خوشبو ہو ۔میرے آقا ﷺ میں آپ کی خدمت میں پیش کرنے کے لیے ایک تحفہ لایا ہوں ، جو جنت میں بھی نہیں ہے ، اس میں امت کی عزت وآبرو اور طرابلس کے شہیدوں کا لہو۔‘‘ ترکوں اور اطالویوں (Italians) کے درمیان ،29ستمبر1911ء سے لیکر 18اکتوبر1912ء تک ،لڑی جانی والی اس جنگ میں ، اٹالین فوجوں نے ترکوں اور لیبیائی باشندوں کو بے دریغ قتل کیا ، اس جنگ میں لیبیا کو مسلمانوں پر ،جوقیامت ٹوٹی ،اس پر اقبال نے ایک بالواسطہ او رایک بلا واسطہ نظم کہی ، موخر الذکر کا عنوان :’’فاطمہ بنتِ عبداللہ ‘‘ہے ،جو کہ بانگِ درا میں موجود ہے ، جس کو اس ذیلی عنوان کے ساتھ بھی موسوم کیا گیا ہے ، ’’عرب لڑکی جو طرابلس کی جنگ میں غازیوں کو پانی پلاتی ہو ئی شہید ہوئی ۔‘‘اقبال نے 13نومبر1912ء کو ’’الہلال‘‘ میں اس کے حالا ت پڑے ، جس میں اُ س کی تصویر بھی تھی ، اطالوی سپاہی کی گولی سے شہید ہونے والی 11سالہ فاطمہ ، جس کا مشکیزہ میدانِ جنگ میں ، زخموں سے چور، ترک غازی کے سینے میں پڑا رہ گیا ، اور وہ خود شہادت سے سرفراز ہوگئی ، اقبال اس کی یاد میں اشک کناں ہوتے ہوئے کہتے ہیں ۔ فاطمہ تو آبروئے اُمّتِ مرحوم ہے ذرہ ذرہ تیرا مشتِ خاک کا معصوم ہے اقبال نے یہ اشعار…شدید اسلامی جذبات سے لبریز ہوکر ایسے حالات میں کہے جب اطالوی کمانڈر ---عرب علاقوں سے مائوں کو ان کے بچوں سمیت گرفتار کرتے ، ان کو اپنے ملٹری طیاروں میں سوار کرواتے ، فضا میں بلند ہو کر بچوں کو ان کی مائوں کی گود سے چھین کر ،ان کی نگاہوں کے سامنے زمین پر گرا دیتے ، اور مائوں کو کہتے ، وہ دیکھو تمہارا لال ہوا میں کیسے تیرتا ہو ا جنت میں جا رہا ہے ----اور پھر ان کی مائوں کو بھی ایک ایک کرکے جہاز سے نیچے گر ادیتے ،طرابلس کی اس جنگ کے ہولناکیوں کی خبریں اس وقت کے میڈیا پر آئیں ،تو اقبال ؒ نے آنحضور ﷺ کی خدمت میں پیش ہو کر دہائی دی اور کہا کہ میں آپ ﷺکی خدمت میں ایک ایسا آبگینہ لیکر آیا ہوں ، جس میں آپ ﷺ کی اُمت کی آبرو جھلکتی نظر آرہی ہے ۔ اس وقت جبکہ خطّے کی مجموعی فضا بالخصوص اور پوری دنیا بالعموم مودی پر اپنے غیض وغضب کا اظہار کررہی ہے جس میں وہ حق بجانب بھی ہے ،ایسے میں ہمار ے اپنے ہی بھائی بند نریندر مودی کو اپنے ملکوں کے اعلیٰ ترین اعزازات سے نواز رہے ہیں۔ یو اے ای کے شیخ محمد بن زید النہیان نے مود ی کا خیر مقدم کرتے اور انہیں اپنے ملک کا اعلیٰ ترین اعزاز پیش کرتے ہوئے یہاں تک فرمایا کہ ’’میرے بھائی ،اپنے دوسرے گھر آنے کا شکریہ ، آپ اس ایوارڈ کے مستحق تھے ۔‘‘ایسے ہی حالات بحرین کے شاہ حماد بن عیسیٰ کے ہیں ، اقبال جو ساری زندگی برصغیر کے مسلمانوں کو ہم نوا بنا کر مسلم اُمہ اور ان پر ٹوٹنے والے مظالم کا نوحہ پڑھتے رہے ، آج وہ یہ صورتحال دیکھتے تو ان پر نجانے کیا بیتتی…