کہتے ہیں سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ کل کے دوست آج کے دشمن‘ ماضی کے حریف حال کے حلیف بن جاتے ہیں اس طور پہ دیکھوں تو نواز شریف کے سیاسی نشیب و فراز پہ افسوس سا ہوتا ہے وہ واحد خوش نصیب حکمران ہیں جنہیں تین بار وزیر اعظم کے منصب جلیلہ پر رونق افروز ہونا نصیب ہوا اور اس اعتبار سے کوتاہ قسمت کہ ایک مرتبہ بھی وہ اپنی حکمرانی کی مدت پوری نہ کر سکے۔ شخصی اعتبار سے ان میں بڑی اخلاقی خوبیاں ہیں۔ وہ منکسر مزاج‘ مہذب اطوار اور بامروت ہیں۔ رہی بات نقائص کی تو وہ کس میں نہیں۔ اپنی سیاسی تقریروں میں بھی انہیں کبھی اوچھی اور گری ہوئی بات کرتے نہیں دیکھا گیا۔ ان کی بابت جو کچھ لکھا گیا ہے اس سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ نواز شریف کو تقدیر کھنچ کر کوچہ سیاست میں لائی وگرنہ وہ خود کرکٹ کے کھلاڑی بننا چاہتے تھے۔ خوبرو اور اسمارٹ تھے تو ایک اطلاع یہ بھی ہے کہ فلم انڈسٹری سے بھی رغبت تھی۔ سنا ہے گائیکی کے فن میں بھی شدبد رکھتے تھے اور بہت اچھا گاتے بھی تھے۔ سیاست نے ان کے سارے خوابوں کو ملیا میٹ کر دیا اور سیاست میں آ کر کوئی شبہ نہیں کہ وہ اس کی معراج پہ پہنچے لیکن ہر بار کمند وہاں پہ ٹوٹی جب مدت حکومت پوری ہونے میں یعنی لب بام تک پہنچنے میں دو چار ہاتھ رہ گئے تھے ان کو راج سنگھاسن سے بے دخل کرنے میں خفیہ ہاتھوں کا کتنا دخل رہا‘ یہ تو وہی جانیں۔ ایک کاروباری خانوادے سے تعلق رکھنے کے سبب انہیں اپنے ذہن کی حدود کو وسعت دینے کا موقع اور ماحول میسر نہ آ سکا۔ شاید نواز شریف کو کبھی شطرنج کی بساط کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرنے کا بھی موقع نہ مل سکا اگر وہ اس کھیل کو سیکھ سکتے تو یہ بھی جان سکتے کہ شہ دینے کے لئے بادشاہ کو پیادے ہاتھی اور کشتی کی مدد سے کیسے گھیرا جاتا ہے اور کبھی کبھی مات دینے کے لئے وزیر کو بھی قربان کرنا پڑ جاتا ہے۔ نواز شریف میں مزاجاً شہزادگی تو رہی لیکن محل میں پیدا نہ ہونے کی وجہ سے محلاتی سازشوں سے نابلد ہی رہے۔ عمدہ اور مقوی کھانوں اور لطائف کے رسیا نواز شریف نظام سقہ کی طرح دفعتاً نگاہ انتخاب میں معتبر ٹھہرے اور وزیر اعلیٰ پنجاب پہلی مرتبہ جب بنائے گئے تو انہیں یہ بھی معلوم نہ تھا کہ خطابت کیا ہوتی ہے؟ اور کیسے کی جاتی ہے؟ پھر بولتے بولتے دوسروں کی طرح وہ بھی بولنا سیکھ گئے ۔ مخالفین کہتے ہیں وہ بدعنوان ہیں‘ بے مروت ہیں‘ ضرورت پڑنے پر گدھے کو بھی باپ بنا لیتے ہیں اور پھر آنکھیں ہی نہیں پھیرتے اپنی کہی ہوئی بات سے بھی مکر جاتے ہیں۔ عجب نہیں کہ یہ باتیں بے بنیاد ہوں اور یہ بھی ممکن ہے کہ ان میں کچھ نہ کچھ صداقت پائی جاتی ہو۔ اگر ان پر مالی معاملات میں خیانت کا الزام سچ بھی ہو تو کوئی شبہ نہیں کہ انہوں نے خاصا کچھ ڈیلیور بھی کیا۔ اگر یہ کہا جائے کہ نواز شریف نے جتنی توجہ خوردو نوش پر دی۔ اس کا ایک معمولی حصہ بھی اپنے ذہن کی نشوو نما پر دیتے تو بہت سی پریشانیوں سے نکل سکتے تھے۔ آدمی کا معدہ اور نظام ہضم یقینا اہمیت رکھتا ہے مگر عقل و دانش سے زیادہ تو نہیں۔ بدعنوانی میں تو اووروں کی بھی شہرت ہے مگر ان سے سیکھنے کا پہلو وہ چالاکی اور چالبازی تھی جس سے نواز شریف بدقسمتی سے محروم رہے۔ سیاست میں اپنے چھوٹے بھائی کے ہمراہ داخل ہونے والے اور سادہ ذہن رکھنے والے نے کس طرح سیاست کو اپنی خاندانی جاگیر بنانا چاہا۔ برادر خورد کے بعد سمدھی‘ بیٹی‘ پھر بھتیجا اہلیہ مرحومہ نے بھی اس کوچے میں قدم راجہ فرمایا لیکن قدرت نے انہیں مہلت نہ دی۔ مگر اب کیا ہے؟ نواز شریف تھک گئے ہیں شاید طبیعت سیاست سے اوب چکی ہو‘ بیان بھی نہیں دیتے‘ چپ چپ سے رہتے ہیں کیا اس لئے کہ جب بیٹی ترجمان ہے تو اس میں کسی اضافے کی کیا ضرورت! لیکن مجھے افسوس ہوتا ہے کیا ہر بادشاہت اور حکمرانی کے نصیب میں یہی انجام لکھا ہے۔ اگر ایسا ہی ہے تو دوسرے سیکھتے کیوں نہیں؟ عبرت کے تو معنی ہی اکثر کو معلوم نہیں‘ سو اسے کیا پکڑیں گے۔علی گڑھ کالج کے ایک انگریز پرنسپل تھے۔ مسٹر تھیو ڈور بیک۔ کالج میں سرسید کی حیات میں ان کا طوطی بولتا تھا جب مرے تو ان کی وصیت پر قبر کی تختی پر یہ شعر کنداں کرایا گیا: ؎ تنکا چن چن محل بنایا لوگ کہیں گھر میرا نہ گھر میرا نہ گھر تیرا چڑیاں رین بسیرا تو آخر میں حکم پادشاہی پر تعمیر ہونے والا ہر شاندار بارعب محل چڑیوں کا رین بسیرا بن جاتا ہے۔ آخر فنا‘ آخر فنا۔ مگر اپنے وطن میں سیاست کی ہاہا کار میں کب کسی کو توفیق ملتی ہے کہ ایک ثانیے کو سہی بیٹھ کر سوچے تو سہی کہ اس سارے ہنگامہ ہائے ہو کے معنی کیا ہیں؟ اور ان کا نتیجہ کیا ہے؟ کیا یہی جو نواز شریف کے ساتھ ہوا؟ پرویز مشرف ان سے پہلے مسٹر بھٹو اور جنرل ضیاء الحق کے ساتھ ہوا: یہ وقت کس کی رعونت پہ خاک ڈال گیا یہ کون بول رہا تھا خدا کے لہجے میں اصل پادشاہی اسی کی ہے جسے فنا نہیں اور زمینوں اور آسمانوں میں جس کا حقیقی اقتدار قائم ہے قرار داد مقاصد جس کا متن اب آئین کا حصہ ہے کہتا ہے اقتدار ایک امانت ہے خدا وند تعالی کی۔ کیا واقعی؟ کسی حکمران نے بھی کیا سچ مچ ایسا سمجھا اور اس امانت کو جواب دہی کے زبردست احساس کے ساتھ سینے سے لگایا؟ خوف خداوندی کے ساتھ اس کی حفاظت کی؟ یا اقتدار کو اپنی جدی پشتی جاگیر سمجھ کر راجا اندر سبھا بن کے بیٹھ گئے اور اپنے اقتدار کو اپنا جان کر اس کو طویل دینے میں لگ گئے۔ وفاداریاں خریدی جا سکتی تھیں تو منہ مانگے داموں خریدیں جو بکنے پر تیار نہ ہوئے انہیں گستاخ بے ادب اور دشمن جان کر خدا کی زمین ان پر تنگ کی‘ سازشوں کا جال پھیلایا اور طول امل میں پڑ گئے۔ تابکے؟ قرآن کا فرمان ہے: آنکھیں ہیں مگر دیکھتے نہیں‘ کان ہے مگر سنتے نہیں‘ دل ہے مگر محسوس نہیں کرتے۔ آگے جو کچھ ہے اسے بیان کرنے کی ہمت نہیں تو وہ وقت کیوں آ جاتا ہے جب بینائی اور سماعت بھی بہ ظاہر صحت کے باوجود جواب دے جاتی ہے اور دل محسوس کر کے بھی نہیں کرتا۔ سارا معاملہ قلب کا ہے جو وجود انسانی کا مرکز ہے یہ صحت مند ہو تو بصارت و سماعت کیا سارا بدن صحت مند ہی رہتا ہے فرد ہو یا قوم فساد قلب ہی میں برپا ہوتا ہے سب کچھ تندرست سب کچھ ٹھیک ہو جائے۔