ابھی تک سفر کی تھکاوٹ ہے۔ اٹھتے ہی اپنا اخبار 92نیوز دیکھا تو آنکھوں میں چمک آئی۔ ہارون الرشید صاحب کا کالم ’’کوئی کوئی‘ خال خال‘‘ پڑھا تو میں نہال ہو گیا کیا کریں ہم جیسوں کی خوراک یہی ہے وہ نثر کب لکھتے ہیں۔ شاعری کرتے ہیں اور وہ بھی پر مغز۔ پتہ نہیں ان کے اندر کتنے زمانے سانس لیتے ہیں۔ مکہ میں بھی اکثر حجاج کشمیر کے حوالے سے پوچھتے۔ میرا بیٹا عمیر بن سعد ایئر پورٹ پر لینے آیا تو آپ یقین مانیے میری بیگم نے سب سے پہلے کشمیر کے حوالے سے موجودہ صورتحال کے بارے میں پوچھا اس نے کہا کہ بیداری آور منایا گیا ہے کہ کشمیر کے مسئلے اور صورت حال کو اجاگر کرنے کے لئے لوگ آدھ گھنٹے کے لئے باہر نکلے ہیں۔ان کے دفتر میں بھی ایسا ہی سماں تھا ایئر پورٹ پر بھی ترانے چل رہے تھے۔ یہ چیزیں میں فیس بک پر بھی دیکھ چکا تھا اور کچھ نام نہاد دانشوروں کے منفی کمنٹس بھی، میری سمجھ میں نہیں آتا کہ کچھ ناہنجار ہر وقت اپنی دانش بھگارتے رہتے ہیں وہ گھر بیٹھے جنگ کے مشوروں سے نوازتے رہتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ موجودہ صورتحال میں حکومت کا رویہ بہت مثبت اور ہمدردانہ ہے۔ آپ بتائیے کہ اس کے سوا کیا ممکن تھا۔ جنگ کوئی بچوں کا کھیل نہیں اس کے لئے نتائج و عواقب دیکھنا پڑتے ہیں۔ دنیا کو بھی ساتھ لے کر چلنا پڑتا ہے۔ عمران خان نے بساط بھر آواز اٹھائی ہے اور بھارت کے فیصلے کو شدت سے رد کیا ہے اور کشمیریوں کے حق میں آخری حد تک جانے کا اعلان کیا ہے وہ اس دعویٰ سے یکسر پیچھے نہیں ہٹے کہ ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘مجھے خوشی ہوئی کہ میرے اخبار 92نیوز نے پوری طرح اس قوم کی نمائندگی کی اور بتایا کہ 12بجے ہی سائرن بج اٹھے اور شاہراہوں پر ٹریفک رک گئی فضائی آپریشن اور ٹرینوں کی آمدو رفت رک گئی قومی ترانہ کے ساتھ کشمیری ترانہ بھی سنا گیا۔ آزادی کے لئے دعائیں اور مودی کے ساتھ بھارت کا پرچم بھی نذر آتش کیا گیا۔آپ بتائیے کہ کس دور میں اتنا شدید ردعمل سامنے آیا ہمارا رویہ ثابت کرتا ہے کہ ہم کشمیریوں کو کبھی نہیں بھلا سکتے ہمارے دل ان کے دل کے ساتھ دھڑکتے ہیں اور ان کا درد ہمارا درد ہے ہم پوری دنیا کو باور کرانے میں کامیاب ہوئے کہ کشمیریوں کے ساتھ ظلم ہو رہا ہے اور خاموش رہنے والے انسانیت کے دشمن ہیں خود بھارت سے بھی مودی کے خلاف آواز اٹھنا شروع ہو گئی ہیں۔ ہمیں اپنی فوج پر بھی فخر ہے کہ ان کی طرف سے دشمن کو زور دار پیغام پہنچ رہا ہے کہ ہم اپنی سرحدوں کی حفاظت کرنا جانتے ہیں اور عمران خان نے ٹھیک انداز میں اپنا موقف دنیا کے سامنے رکھا ہے کہ مودی کی حماقت کی وجہ سے خطہ کا امن تباہ ہو سکتا ہے اور پوری دنیا کے لئے یہ کوئی اچھا نہیں ہو گا۔ چلیے پاکستان آتے ہی ایک اور اچھی خبر پڑھنے کو ملی کہ حکومت نے پیٹرول تقریباً پانچ روپے سستا کر دیا ہے چلیے بڑھتی ہوئی مہنگائی میں عوام کو کچھ تو سکھ کا سانس آئے گا مگر ساتھ ہی دل میں ایک وہم اور اندیشہ سر اٹھاتا ہے کہ کہیں یہ عارضی خوشی نہ ہو اور کچھ عرصے تک دوبارہ یہ کسر نکال دی جائے۔ فی الحال تو اس خوشی پر اکتفا کر لیا جائے ایک خبر یہ بھی پڑھی کہ شیخ رشید کو کرنٹ لگ گیا ہے۔ اللہ انہیں صحت عطا کرے۔ اب تھوڑا سا حال ہمارا بھی سن لیں کہ ہم مکہ سے جدہ کے لئے روانہ ہوئے تو ساڑھے تین بجے کا وقت تھا‘ ایک دو حاجیوں نے اتنی تاخیر کی کہ پورا قافلہ 2گھنٹے تک رکا رہا۔ آئندہ ایسے حاجیوں کے لئے کوئی قانون ضرور پاس کیا جائے۔ جدہ ایئر پورٹ پر تین سے چار گھنٹے کا بے مقصد انتظار شاید انتظامیہ نے رات کا کھانا بچایا۔ اس اڈہ نما حصہ میں کنوپیاں لگی ہوئی تھیں۔شاید یہ ایئر پورٹ سے ذرا باہر کی طرف تھیں۔ ایک پلیٹ دال چاول 32ریال کی تھی یعنی پاکستانی 13یا14سو روپے۔ جو بھی سنتا اس کی بھوک اڑ جاتی۔ اللہ اللہ کر کے لوگ قطاروں میں ایئر پورٹ میں داخل ہوئے اور اپنا اپنا سامان پہچان کر ٹرالیوں میں لوڈ کیا۔ ایک تھکا دینے والا لمبا عمل۔ مگر کیا کریں یہ سب ضروری بھی ہے۔ یہ پی آئی اے کی پرواز760تھی گویا یہ حاجیوں سے بھرا ہوا جہاز تھا کوئی لگ بھگ ساڑھے تین سو حاجی ہونگے سفر خوشگوار تھا مگر تھکاوٹ اور نیند اعصاب پر سوار تھی۔ ٹھیک وقت پر جہاز اڑا تو پتہ چلا کہ ابھی پی آئی اے کی کچھ روایات قائم ہیں۔ ہنسی مجھے اس وقت آئی جب ہمیں ناشتہ دیا گیا تو جوس کولڈ ڈرنکس اور سوفٹ واٹر بھی ساتھ تھا۔ انڈا اور حلوہ وغیرہ کچھ ڈس پوزایبل قسم کے برتنوں میں تھا۔ ذرا بہتر پلاسٹک کے برتن۔ جی میں کہہ رہا تھا کہ مجھے ہنسی اس وقت آئی کہ جب میرے سامنے سیٹ پر براجمان حاجی سے ایئر ہوسٹس کہہ رہی تھی کہ وہ پورے برتن واپس کرے کہ یہ پی آئی اے کی پراپرٹی ہے۔ میں نے سوچا کہ کیا اب پی آئی اے کی یہی پراپرٹی رہ گئی ہے۔ میں نے جتنے بھی ہوائی سفر کئے ان میں ایسی دلچسپ اور مضحکہ خیز بات کبھی نہیں سنی میں سوچنے لگا کہ اس کا مطلب ہے کہ پی آئی اے والے یہی برتن صاف کر کے دوبارہ اسی میں ناشتہ یا کھانا دیتے ہونگے۔ ویسے اگر ہے تو یہ کفایت شعاری کی بہترین مثال ہے اور اس میں حرج بھی کچھ نہیں۔ دوسری بات یہ کہ ہو سکتا ہے کہ پی آئی اے برتن گن کر اندازہ کرتے ہوں کہ کتنے لوگوں نے ناشتہ تمام لوازمات کے ساتھ کیا۔ پی آئی اے کی فلائیٹ ٹھیک وقت پر گیارہ بجے لاہور پہنچی یہاں آ کر کسی بھی قسم کی کوئی دشواری نہیں ہوئی۔ بڑی آسانی سے پاسپورٹ سٹمپ ہوا اور سامان مل گیا۔ ٹرالیوں پر سامان لادے باہر نکلے تو انتہا کا رش تھا حاجیوں کو لینے کے لئے ایک ہجوم وہاں موجود تھا۔ خاص طورپرگائوں سے تو کئی رشتہ دار اپنے حاجیوں کو لینے کے لئے آتے ہیں۔ میں نے دیکھا کہ لوگ حاجیوں کے گلے میں پھولوں کے ہاتھ ڈال رہے تھے۔ ہو سکتا ہے نوٹوں والے ہار بھی ہوں تصاویر بن رہی تھیں۔ سیلفیوں والے بھی موجود تھے۔ سب بہت اچھا لگ رہا تھا۔ مجھے یاد آیا کہ جب میں بچہ تھا تو میرے والد اور والدہ حج کے لئے جا رہے تھے تو کتنے لوگ انہیں سٹیشن تک چھوڑنے گئے۔ ایک معصوم شخص مجھ سے پوچھنے لگا کہ کیا یہ سب حاجیوں کو جدہ چھوڑ کر آئیں گے۔ میرے برادر نسبتی قیصر مفتی نے میرے گلے میں تازہ گلاب کے پھولوں کا ہار ڈالا جس میں ان کے خلوص کی خوشبو بھی شامل تھی۔ سب سے چھوٹا بیٹا حافظ عزیر بن سعد زیادہ اداس تھا کہنے لگا’’مجھے پارا‘‘ کرو۔ میں نے اسے پیارکیا۔ اللہ نے فریضہ حج کروا دیا کہ یہ سب سے بڑا انعام تھا کہ پانچواں فرض ہے۔ جب لوگوں کو گلاب کے پھولوں سے لادا جا رہاتھا تومیں نے سوچا کہ خود یہ حاجی پھولوں کی طرح ہو کر آئے ہیں۔ چالیس دن تک ان کی دعا بھی قبول ہو گی۔ میری ایک خواہش ہے کہ کوئی مجھے حاجی نہ کہے اور نہ ہی کوئی حاجی حاجی کہلوائے بلکہ وہ حاجی نظر آئے اور اپنے عمل سے خود کو بدلا ہوا ثابت کرے۔