بہت قابل تعریف بات ہے کہ حکومت کی کشمیر پالیسی واضح ہوتی جا رہی ہے بلکہ واضح ہو گئی ہے۔ ہم بھارتیوں کو نغماتی مار ماریں گے یعنی جہاد بالغنا ؎ او بلما جا جا جا اب کون تجھے لے جائے تو خود ہی جا جا جا راگ راگنیوں کی مار‘ فن کا وار بہت کڑا ہوتا ہے۔ ملہار گائو تو سونامی آ جاتا ہے۔ دیپک گائو تو الائو بھڑک اٹھتا ہے۔ ہم نے ’’راگ بھاگ بھارتی‘‘ کا جادو جگانے کا بروقت اوربرحق فیصلہ کیا ہے۔ مظفر آباد میں وزیر اعظم کا پروگرام دل دہلا دینے والی چتائونی تھا۔ فنکاروں کا دستہ خصوصی اڑن کھٹولے پر آیا۔ مداحوں نے سیلفیاں لے لے کر دشمن پر دھاک بٹھا دی۔ بے موقع یاد آیا سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی پر نیا ریفرنس بن رہا ہے کہ دفتر خارجہ کی کار میں کیوں بیٹھے۔ یہ ریفرنس کبھی نہ بنتا اگر عباسی صاحب کار استعمال نہ کرتے۔ ایک تجزیہ نگار نے مظفر آباد کے پروگرام پر ناقص تبصرہ کیا۔ فرمایا یہ تو کنسرٹ تھا۔ غلط بات ہے۔ کنسرٹ نہیں تھا‘ ملا جلا پروگرام تھا۔ ورائٹی شو کہتے تو ٹھیک تھا۔ ٭٭٭٭٭ اب یہ جید علما کی ذمہ داری ہے کہ نئے اجتہادی اقدامات کی تشریح کریں۔ مولانا طارق جمیل اور حافظ سعید کے نام ذہن میں آ رہے ہیں۔ حافظ صاحب تو جیل میں ہیں۔ اول الذکر خیر سے ہیں۔ انہیں چاہیے کہ آگے آئیں۔ مولانا فضل الرحمن اور سراج الحق جیسے علماء کی ضرورت نہیں کیونکہ ان دونوں حضرات نے جلسے جلوسوں کی اس سیریز کو ڈرامہ قرار دیا ہے ۔ افسوس ٭٭٭٭٭ سراج الحق نے مظفر آباد جلسے کا ذکر کرتے ہوئے اسے سیاسی ڈرامہ کہا اور فرمایا کہ سری نگر جانے کا اعلان کرتے تو ہم بھی چلتے۔ کہا کہ عمران حکومت کشمیر سے پوری طرح لاتعلق ہے۔ وہ لاکھوں لوگ لے کر مظفر آباد گئے، کیا یہ لاتعلقی ہے؟ سراج الحق کا بیان تو کل ہی آیا‘ فضل الرحمن کا البتہ تین چار دن پہلے کا ہے۔ کہا‘ حکومت نے کشمیر بھارت کے ہاتھ بیچ دیا اب جلسے ریلیاں کر کے عوام کو بیوقوف بنا رہی ہے۔ یہ تو ڈرامے کے ساتھ بھی زیادتی ہے۔ مولانا ‘ ڈرامے عوام کو بے وقوف بنانے کے لئے نہیں‘ ان کے کتھارسز (تنقید احساس) کے لئے ہوتے ہیں ہاں اتنا ہے کہ فنکار ڈھنگ کے ہونے چاہئیں۔ ٭٭٭٭٭ کشمیر کے نعرے پارلیمنٹ میں بھی لگے۔ ڈاکٹر صاحب کے خطاب کے موقع پر ان نعروں کی گونج تھی تو زور دار لیکن نغمگی نہیں تھی۔ ارے بھائی‘ آپ نے شاید وارث شاہ کو نہیں سنا ؎ ہیر آکھیا جوگیا جھوٹ بولیں کون گیاں نوں موڑ لیا وندا ای جانے والی چیز واپس نہیں آتی۔ جانے والی چیز کا غم کیا کریں۔ منظور ہو یا نامنظور جو ہونا تھا ہو چکا۔ جانے والی چیز جا چکی۔ اب ڈراموں سے کتھارسز کریں‘ فنکار ڈھنگ کے ہیں یا بے ڈھنگے اسے جانے دیں۔ ایک کشمیر کا مسئلہ ہی کیا‘ سارا ملک ہی راگوں پر چل رہا ہے ۔ حکومت راگ درباری پر تو معیشت راگ گھور بربادی پر‘ صحت کا شعبہ راگ سروناشی کے حوالے ہے تو تعلیم کا راگ ستیا ناسی کے سپرد۔ معیشت کے راگ کا تازہ سر ملاحظہ فرمائیے ‘ خبر ہے کہ معیشت کو دستاویزی کی ’’بندش‘‘ لگانے سے انعامی بانڈزسرمایہ کاری258ارب روپے سے کم ہو کر یکایک محض 82ارب کی رہ گئی۔ اسے کہتے ہیں راگ کا بھاگ۔ملک پر دن کو بھی اماوس کی چھایا ہے۔ گزشتہ برس پنجاب میں ڈینگی کے 67کیس تھے اس سال شروعات ہی میں تعداد سینکڑوں نہیں ہزاروں میں ہے ۔بھلا ہو فرینڈلی میڈیا کا کوئی غل ہے نہ شور۔ وزیر اعلیٰ پنجاب‘ سنا ہے تریاق لینے عراق تو نہیں پر براستہ سعودیہ مسقط چلے گئے۔ ٭٭٭٭٭ وزارت قانون کے افسروں نے وزیر اعظم کو سفارشاتی مراسلہ بھجوایا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ مسئلہ کشمیر براہ راست عالمی عدالت میں نہیں بھجوایا جا سکتا۔ ان سادہ لوح افسروں کا خیال ہے کہ وزیر اعظم کو چونکہ اس بات کا پتہ نہیں تھا کہ مسئلہ عدالت نہیں بھجوایا جا سکتا اس لئے انہوں نے ایک سے زیادہ بار یہ اعلان کر دیا کہ وہ معاملہ عالمی عدالت انصاف لے جائیں گے۔ چنانچہ مراسلہ بھجوا دیا۔ ارے نادانو‘ یہ کیسے ہو سکتا ہے انہیں اتنی سی بات کا بھی پتہ نہ ہو۔ ارے نادانوں کچھ باتیں عوام کی تسلی کے لئے بھی کی جاتی ہیں۔ ٭٭٭٭٭ خبر چھپی ہے کہ حکومت نے ایک انڈر میٹرک ایم پی اے کو یونیورسٹی کا سنڈیکیٹ ممبر لگا دیا ہے۔ انڈر میٹرک مناسب لفظ نہیں’’تقریباً‘‘ میٹرک لکھنا چاہیے تھا۔ سال بھر سے جو دور چل رہا ہے اس میں ’’تقریباً میٹرک ‘‘ بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ شمار ہوتا ہے۔ تقرری بالکل درست ہے۔ ٭٭٭٭٭