پردیسی ہو یا پنچھی گھروں اور آشیانوں کو خوشی خوشی لوٹتے ہیں۔ اسی لئے گھروں کو جاتی ہوئی گزرگاہیں‘ کہکشاہیں بن جاتی ہیں۔ غالباً عطاء الحق قاسمی نے کہا تھا ؎ گھر کو جاتے رستے اچھے لگتے ہیں جیسے زخم پرانے اچھے لگتے ہیں نشمین کو پلٹتے طائر کے بارے میں ڈاکٹر وزیر آغا نے کیا خوب کہا تھا ؎ دن ڈھل چکا تھا اور پرندہ سفر میں تھا سارا لہو بدن کارواں مشت پر میں تھا کوٹ لکھپت جیل سے جاتی امرا آتے ہوئے میاں نواز شریف کی کیفیت بھی کچھ ایسی ہی تھی کہ اڑ کر اپنے کاشانے پر پہنچ جائوں۔ البتہ قفس کی طرف ’’برضا و رغبت‘‘ لوٹتے قیدی پرندے کی کیا کیفیت ہو گی،یہ اس کا دل ہی جانتا ہو گا۔ البتہ ان کی واپسی کو چار چاند لگانے اور میاں صاحب کا حوصلہ بڑھانے کے لئے مسلم لیگ ن نے ایک عرصے کے بعد ایک بڑا پاور شو پیش کیا۔ برصغیر پاک و ہند کی تحریکی روایات کے مطابق سیاسی قیدیوں یا قائدین کے ساتھ جیل تک جانا یا انہیں جیل یا عدالت سے جلوس کی شکل میں لانا کوئی نئی بات نہیں۔ کئی ماہ تک میاں نواز شریف نے مصلحتاً اپنے بیانیے کو بالائے طاق رکھ کر عملاً میاں شہباز شریف کے بیانیے کو اختیار کئے رکھا۔ میاں نواز شریف کا بیانیہ جو کل تھا وہی بقول مریم بی بی آج بھی ہے یہ مزاحمتی بیانیہ ہے جبکہ میاں شہباز شریف کا بیانیہ مفاہمتی بیانیہ ہے اس بیانیے کا خلاصہ بقول شاعر یہ ہے کہ ع لب سی رکھو اور دھائی نہ دو سیاست ہی نہیں حیات کے ہر معاملے میں انسان کو قدم قدم پر احساس ہوتا ہے کہ زندگی اک جبر مسلسل ہے اور قدرت کی طرف سے انسان کو بہت کم اختیار دیا گیا ہے بہرحال میاں صاحب کو جتنا بھی اختیار حاصل تھا کہ اس کو کام میں لاتے ہوئے انہوں نے اپنی شدت احساس اور شدت اظہار پرمفاہمتی بیانیے کا وقتی طور پر پہرہ بٹھا دیا تھا۔مگر کچھ مثبت اشاروں کے باوجود یہ بیانیہ رنگ نہ لا سکا۔ اہم سوال یہ ہے کہ مسلم لیگ ن نے یکدم مہر سکوت توڑتے ہوئے میاں صاحب کی جیل واپسی کے موقع پر پاور شو کا پروگرام کیوں بنایا؟اور اس کے ساتھ جڑا ہوا سوال یہ ہے کہ کیا اب مسلم لیگ ن عید کے بعد اپوزیشن کی احتجاجی تحریک کا سرگرم حصہ بن جائے گی؟ احتجاجی تحریک کے بارے میں صرف مولانا فضل الرحمن یک سو ہیں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے بارے میں ابھی تک یہ سمجھا جا رہا ہے کہ ان کی تحریک میں بھرپور شرکت اور شمولیت اگلے دو ماہ کے سیاسی حالات سے مشروط ہو گی۔ اگر نیب کی گرفت میں آئی ان دونوں جماعتوں کو عدالتوں‘ مقتدر حلقوں اور حکومت کی طرف سے کوئی ریلیف مل گیا تو وہ حکمرانوں کو مزید کچھ مدت تک نہ چھیڑیں گی اور اپوزیشن یک احتجاجی تحریک میں کاسمیٹک شمولیت سے آگے نہیں بڑھیں گی مگر حکومت یا احتسابی اداروں نے ان پارٹیوں کو دیوار کے ساتھ لگا دیا تو پھر ان کے پاس تنگ آمد بجنگ آمد کے علاوہ کوئی اور آپشن نہ رہے گا۔ مسلم لیگ ن نے میاں صاحب کی جیل واپسی کو سیاسی ایونٹ اسلئے بنایا کہ پارٹی کے قائدین کو اندازہ ہو گیا تھا کہ مسلم لیگ ن کے ووٹرز ‘ سپورٹرز کارکنا اور قائدین اگرچہ ابھی تک پارٹی کو چھوڑ کر کہیں اور نہیں گئے اور نہ جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ البتہ یہ سب لوگ اس لحاظ سے شدید کنفیوژن کا شکار تھے کہ سیاست دوراں میں مسلم لیگ ن کا موقف کیا ہے اس کا بیانیہ کیا ہے اس کی پالیسی کیاہے کیا یہ پالیسی مزاحمتی ہے یا مفاہمتی؟ ووٹروں اور کارکنوں کی بے دلی اورمایوسی کو ختم کرنے کے لئے مسلم لیگ ن نے دو اقدامات کئے جو ان کے نقطہ نظر کے اعتبار سے بہت مفید رہے۔ پہلا قدم مسلم لیگ ن کی واضح نئی قیادت کا اعلان ہے۔ گزشتہ ڈیڑھ ماہ کے دوران میاں صاحب نے علاج کتنا کروایا اور ٹیسٹ کتنے کروائے اس کا تو ہمیں معلوم نہیں مگر اس عارضی قیام کے دوران انہوں نے میاں شہباز شریف کے مشورے یا اس کے بغیر پارٹی کے عہدوں پر نئی نامزدگیاں کیں جن کا اعلان میاں شہباز شریف نے کیا۔ مسلم لیگ ن کے عہدیداروں کے نام پر ایک نظر ڈالتے ہی آپ کو اندازہ ہو جائے گاکہ یہ حسن نظر میاں نواز شریف کا ہے۔ مسلم لیگ ن نے میاں صاحب کی درزنداں یک طرف واپسی کے موقع پر پاور شو سے یہ عیاں ہو گیا کہ پارٹی سیاسی محاذ پر ڈٹی ہوئی ہے۔ مسلم لیگ ن کو یہ اندازہ ہوگیا ہے کہ موجودہ حکومت کی بے سمت پالیسیوں اور ناقابل برداشت مہنگائی کی بنا پر عوام میں بے حد بے چینی اور مایوسی پائی جاتی ہے اس موقع پر صرف کال دینے کی ضرورت ہو گی اور لوگ اپنے جذبات کے اظہار کے لئے خود دوڑے چلے آئیں گے۔ جتنی جتنی یہ حکومت ناکام ہوتی چلی جائے گی اتنی اتنی عوام کی میاں نواز شریف کے ساتھ یکجہتی بڑھتی چلی جائے گی اب تو یہ واضح ہوتا جا رہا ہے کہ آئی ایم ایف نے پاکستان میں اپنی ٹیم کی پوسٹنگ کے ساتھ ساتھ حکومت سے یہ بھی منوا لیا ہے کہ وہ اپنی ٹیم کے ذریعے خود ہی پاکستانی معیشت کے فیصلے کرتے جائیں گے اورانہیں نافذ بھی کریں گے۔ پٹرولیم کی قیمتیں کئی روز پہلے بڑھیں اور کل کابینہ نے اس کی رسمی توثیق کی۔ حکمرانوں کے سابقہ بیانات ان کے پائوں کی زنجیر بن چکے ہیں۔ تیل‘ بجلی اور گیس کی قیمتوں کو کم کرنے سے لے کرآئی ایم ایف کے پاس نہ جانے تک وہ اپنے ہر اعلان کی نفی کرتے جا رہے ہیں۔ پٹرول بم گرانے کے بعد گزشتہ روز حکومت ڈیڑھ سال تک بجلی مہنگی کرتے چلے جانے کا اعلان کیا ہے۔ یہی وہ فضا ہے جو بجٹ آنے کے بعد احتجاجی تحریک کے لئے انتہائی سازگار بن جائے گی۔ اس دوران ممکن ہے میاں شہباز شریف لندن سے اور عدالتی چارہ جوئی کے نتیجے میں میاں نواز شریف کی کوٹ لکھپت جیل سے واپسی ہو جائے۔ اور شاید کہ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ والے بیانیے کی واپسی ہو جائے۔ اگرایسا ہوا تو یہ بہت بڑی واپسی ہو گی۔ عین ممکن ہے کہ میاں نواز شریف کی واپسی اک انجمن کی واپسی بن جائے۔ واپسی میری تو ہے اک انجمن کی واپسی