دل سے کوئی بھی عہد نبھایا نہیں گیا سر سے جمال یار کا سایہ نہیں گیا اڑتا رہا میں دیر تلک پنچھیوں کے ساتھ اے سعد مجھ سے جال بچھایا نہیں گیا ہوا میں اڑتا انسان کی جبلی خواہش کہ وہ پرندوں کو اڑتے ہوئے دیکھتا تھا۔ پرندہ اس کا استاد بھی ہے کہ اسے دیکھ کر رائٹ برادران نے پہلا جہاز بنایا جسے آپ جہاز نما کہہ لیں۔ پرندے کی نقل اصل سے بھی آگے نکل گئی۔ رائٹ برادران کی طرح کوئی اور بھی تو سوچ سکتا ہے تو آج پاکستانی نوجوان فیاض کی کہانی فلیش ہوئی ہے جس نے معصومانہ انداز میں اپنی دانش کے زور پر ایک دیسی سا جہاز بنا ڈالا مگر اڑانے کی کوشش میں دھر لیا گیا۔ اس پر سید ارشاد احمد عارف نے نہایت شاندار کالم لکھا کہ یہ کیسا ملک ہے کہ جہاں ریلوے کی گاڑیوں کا سکریپ غیب ہو جاتا ہے۔ جہاز گم ہو جاتے ہیں اور ادارے گروی کئے جا سکتے ہیں مگر ایک محب وطن، ذہین اور ہنر مند شخص ایک جہاز بنانے کی جسارت نہیں کرسکتا۔ انہوں نے بجا کہا کہ یہاں ٹیلنٹ کو برداشت نہیں کیا جاتا۔ اس بات کی تائید مجھے ایک بہت زبردست واقعہ سے کرنا ہے۔ میں نے اس حوالے سے پی ٹی وی کے لیے ایک سیریل ’’شناور‘‘ بھی لکھا تھا جو ایسی ہی سیاست کا شکار ہو گیا حالانکہ اس کی کاسٹنگ تک ہو گئی تھی۔ ایک لڑکا تھا مجتبیٰ جس نے ایک پمپ تیار کیا تھا جو آئس فیکٹری میں استعمال ہوتا تھا۔ عام پمپ کی ڈیوریشن تین ماہ تھی جبکہ مجتبیٰ نے کمال مہارت سے یہ دورانیہ چھ ماہ تک بڑھا دیا۔ مارکیٹ میں یہ پمپ آیا تو تہلکہ مچ گیا لہٰذا فوراً اسے فیل کرنے کی تدابیر شروع ہوگئیں۔ یہ کہانی ایک طرف برطانیہ کی ایک فرم نے 90 کی دہائی میں اس ہنر مند اور ذہین نوجوان کو انگیج کیا اور 65 ہزار روپے تنخواہ پر برطانیہ لے گئے۔ مقصد بتانے کا یہ کہ وہ ذہین و فطین لوگوں کی قدر کرتے ہیں اور ہمارے ہاں اس کی سخت ناقدری ہے۔ اسی لیے Brain Drain ہوتا رہتا ہے۔ ہنر مند بھی سوچتا ہے کہ ’’غلام فریدا دل اوتھے دیئے جتھے اگلا قدر پچھانے‘‘۔ بعدازاں مجتبیٰ واپس پاکستان آیا اور ساہیوال میں پمپ تیار کرنے لگا۔ آپ اسے ایک حوالے سے پہچان جائیں گے کہ اس نے اپنے پاس دو شیر بھی رکھے ہوئے تھے جو اکثر نوازشریف کی کمپین کے لیے ان سے ادھار یا کرائے پر لیے جاتے تھے۔ ایک زمانے میں جب ڈپٹی کمشنر شوکت ہاشمی کے پاس بیٹھا تھا تو مجتبیٰ مجھے لینے آیا۔ ناصر بشیر کہنے لگا کہ اس کے ورکشاپ اور شیر دیکھتے ہیں۔ تب ہم وہاں گئے اور وہ پمپ بھی دیکھے اور شیر بھی۔ بہرحال فیاض خوش قسمت ہے کہ اس پر ارشاد احمد عارف نے بھرپور کالم لکھا اور آج ہی میں فیاض کی اپنے جہاز کے ساتھ تصویر دیکھ رہا ہوں کہ آئی جی کی ہدایت پر اسے رہا کر دیا گیا ہے اور ساتھ اس کا جہاز کچھ جرمانے کے عوض اسے مل گیا ہے۔ وہ بہت خوش ہے کہ یہی کل اس کا اثاثہ ہے کہ اس نے پچاس ہزار روپے لون لے کر اور اپنی کچھ زمین بیچ کراس کو تیار کیا ہے اور اب کے اس نے اس میں فیصل آباد سے بڑا انجن منگوا کر رکھا ہے اور اپنے تئیں اس کی پرواز کو کامیاب بنایا ہے۔ شہر کے اوپر تو وہ ایوی ایشن کی اجازت کے بعد اڑے گا اور کسی کو بتا سکے گا کہ دیکھ میں ہی اوپر اڑتا جارہا تھا لیکن کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اسی لیے ٹیڑھا ٹیڑھا اڑ رہا تھا۔ بات تو فیاض کی سوچ اور کاوش کی ہے اسے کیوں نہ سلام کیا جائے۔ میں اس کے یقین کو داد دیتا ہوں جو بذات خود ایک قوت ہے وگرنہ تو میں نے ہی کہا تھا: بے یقینی میں کبھی سعد سفر مت کرنا یہ تو کشتی میں بھی گرداب بنا دیتی ہے اب وہ بات جو کرتے ہوئے دل و دماغ پر گراں باری ہے۔ جی میں بات کرنا چاہتا ہوں۔ ہمارے ہر دلعزیز اور پیارے دوست افتخار مجاز کے وصال کی۔ ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی خوشنما اور خوش گلو پرندہ بھرے موسم میں کہیں اڑان بھر جائے۔ ہم اس کے جنازے پر کھڑے تھے شہباز انور ان کے عزیز جاں تھے اور اندھی ہوئی آواز میں بتا رہے تھے کہ سچ مچ وہ بالکل تنہا رہ گئے ہیں کہ ہر وقت کا ساتھ تھا۔ اعزاز احمد آذر کے وہ چھوٹے بھائی تھے۔ پرویز مشرف آیا تو پی ٹی وی کے پروگرام ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ ایک پروگرام افتخار مجاز نے کیا۔ اعزاز احمد آذر اس کے میزبان تھے۔ تین مبصرین میں سے ایک میں تھا۔ پروگرام شروع ہوا تو اعزاز احمد آذر نے مجھ سے پوچھا تو میں نے کہا ’’میں تو سب سے پہلے مسلمان کہوں گا۔‘‘ نتیجہ یہ ہوا کہ پروگرام رک گیا۔ افتخار مجاز اوپر سے دوڑے دوڑے آئے اور ہنستے ہنستے کہنے لگے ’’یہ پیرزادہ ہے۔ ادھر کوئی کمپرومائز نہیں ہے۔‘‘ پھر مجھے پکڑ کر اوپر پینل پر لے گئے اور پروگرام ریکارڈ کیا۔ پھر وہ کہنے لگے کہ میری زندگی میں پہلا شخص آیا جو سکرین سے واپس چلا گیا۔ ٹی وی پر کام کے دنوں میں ان سے اکثر کیا روزانہ ملاقات رہتی۔ وہ کرنٹ افیئر کے شاندار پروڈیوسر تھے۔ ان کے ہاں ادبی چاشنی، خوش کلامی اور رواداری تھی۔ جب ایثار ہوئے مجھ سمیت دوستوں نے ان پر کالم لکھے۔ ریٹائرمنٹ سے پہلے ہی وہ باریش ہو گئے تھے۔ افتخار مجاز ایک بھرپور شخصیت کے مالک تھے۔ 1954ء میں وہ شاہدرہ میں پیدا ہوئے۔ ماسٹر کی ڈگری ابلاغیات میں پنجاب یونیورسٹی سے حاصل کی۔ مختلف جگہ ملازمتیں کیں اور آخر کار پی ٹی وی میں بطور پروڈیوسر آئے اور کنٹرولر ریٹائر ہوئے۔ وہ کالم نگار اور کمپیئر بھی رہے۔ ہمارے ادبی پروگرام میں بھی وہ اکثر آتے۔ آخری مرتبہ ان سے محترمہ بشریٰ رحمن کے ہاں پروگرام میں ملاقات ہوئی تھی۔ کچھ عرصہ وہ تارکین وطن کے لیے بھی لکھتے رہے تب محترم چودھری منظور کے ہاں بھی ہم ملتے رہے۔ وہ محفل میں ہوتے تو ایک خوش گواریت کا احساس رہتا۔ دوسروں کی عزت نفس کا خیال رکھنا انہیں آتا تھا بعض اوقات وہ فقرہ روک لیتے اور مسکرا کر رہ جاتے۔ یہ بڑے حوصلے کی بات ہوتی ہے۔ ایک دن پتہ چلا کہ وہ وینٹی لیٹر پر ہیں۔ سوچا کہ صبح پتہ کریں گے مگر علی الصبح پوسٹ لگی تھی کہ انہوں نے کسی کا انتظار ہی نہیں کیا اور بقول منیر نیازی ’’ہمیشہ دیر کردیتا ہوں میں۔‘‘ جنازے پر پہنچے تو کیسے کیسے پرانے دوست وہاں ملول کھڑے تھے۔ سب تو نہیں کچھ لوگ جو ہمیں نظر آتے ان میں قیوم نظامی، تحسین فراقی، خالد ہمایوں، شعیب بن عزیز، علی اصغر عباس، اشفاق احمد ورک، محمد انجم، عرفان صادق، محمد صابر، گل نوخیز اختر، رئوف طاہر، عبدالرحمن، راشد ممتاز لاہوری اور کئی دوست تھے۔ آخر میں ان کے لیے بخشش کی دعا کہ مالک کائنات اپنے محبوب ﷺ کے صدقہ افتخار مجاز کی بخشش فرمائے: عجب روشنی اس کی آنکھوں میں تھی مجھے کیا خبر تھی وہ مر جائے گا