جس وقت اہل وطن الیکشن کے ہنگام سے گزر رہے تھے امریکہ اور ایران کے درمیان تناؤ اپنے عروج پہ تھا۔صدر ٹرمپ نے منصب صدارت سنبھالتے ہی وعدے کے مطابق جو چند کھڑکی توڑ اقدامات کئے تھے ان میں سے ایک ایران کے ساتھ جوہری معاہدے سے امریکہ کا نکلنا بھی شامل تھا۔ اس معاہدے سے نکلنے کے مضمرات اچھی طرح ان کے علم میں تھے اس لئے ایران کے ساتھ یکسوئی کے ساتھ نبٹنے کے لئے شمالی کوریا کو مذاکرات کی لگام ڈالی گئی تھی۔ اب نقشہ یہ ہے کہ دونوں ہی قابو میں نہیں آرہے۔ چین کے ساتھ امریکہ کی تجارتی جنگ،چین کی برامدات پہ پچاس بلین ڈالر کے محصولات اور اس کے نتیجے میں مناسب طور پہ دباؤ میں آجانے والے چین کے ذریعے شمالی کوریا پہ دباو اور پھراس کے ساتھ مذاکرات پہ میں نے جو تفصیلی کالم لکھا تھا،ا س میں یہ خدشہ ظاہر کیا تھا کہ شمالی کوریا امریکہ کو دھوکہ دینے کی کوشش کرے گا اور بظاہر کامیاب مذاکرات کے باوجود و ہ کسی نہ کسی طرح اپنا جوہری پروگرام جاری رکھے گا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ جس واحد جوہری سائٹ پنگ یی کو شمالی کوریا نے تباہ کیا تھا وہ ایسے ہی کرتوتوں کے باعث پہلے ہی بیٹھ چکی تھی اور محض دکھاوے کی خاطر اڑا دی گئی تھی۔میں نے اس شبہ کا اظہار اپنے کالم شمالی کوریا گھاس اور ایٹم بم میں چار مئی کو کیا جس کی تصدیق دی گارڈین نے 21 مئی کو اپنی رپورٹ میں کی ۔اس شبے کی اور بھی وجوہات تھیں۔شمالی کوریا جغرافیائی طور پہ امریکہ کے دوستوں جنوبی کوریا اور سمندر کی طرف سے جاپان میں گھرا ہوا ہے۔جاپان کے ساتھ اس کا تاریخی تلخ ماضی اب تک دہک رہا ہے۔اب بھی جاپان کے اسکولوں میں زیر تعلیم ننھے شمالی کوریائی بچے اپنے ماں باپ سے وہ کہانیاں سنتے ہیں جب ان کے والدین غلام بنا کر بیگار کے لئے کوریا سے جاپان لائے گئے اور اس کی ترقی میں اپنا زبردستی کا خون پسینہ شامل کرتے رہے۔ اپنی انتہائی خراب معاشی صورتحال کے ساتھ جو مکمل طور پہ چین کی محتاج ہے، اس کے پاس اپنے دفاع کے لئے یہی جوہری پروگرام ہے۔غالبا ًچین کے لئے سستی لیبر اور تجارتی انفرااسٹرکچراور وہ شمالی کوریائی فیکٹریاں اور سستی لیبر جو اپنے ملک میں چینی مصنوعات کم لاگت میں تیار کرتی ہیں جہاں سے وہ دنیا بھر میں میڈ ان چائنا کے لیبل کے ساتھ فروخت ہوتی ہیں ،کے علاوہ، اس میں دلچسپی کا سامان یہی جوہری پروگرام ہے۔ اسے یہ بھی نظر آرہا تھا کہ چین تجارتی جنگ میں امریکہ کے دباو کابہت عرصے مقابلہ نہیں کرسکے گا۔ گو یورپ امریکہ کے دباو سے اب اتنا آزاد تو ہو چکا ہے کہ وہ امریکہ کے ایران کے جوہری معاہدے سے نکل جانے کے باوجود ابھی تک اس معاہدے سے باہر نہیں آیا اور امریکی دھمکیوں کے باوجود ایران کے ساتھ تجارت جاری رکھے ہوئے ہے لیکن اسے یہ بھی علم ہے کہ ایران کے پاس فارسی پڑھ کر بیچنے کے لئے تیل ہے ۔ شمالی کوریا کے پاس بیچنے کے لئے کچھ زیادہ نہیں ہے اور جو ہے وہ یورپ امریکہ کی ناراضگی مول لے کر اس سے خریدنے کو تیار نہیں ہے وہ دنیا میں کہیں بھی کسی سے بھی خریدا جاسکتا ہے۔ ویسے بھی یورپ شمالی کوریا کے بڑے درامد کنندگان میں سے نہیں ہے۔ اسکے بڑے درآمدکنندگان پاکستان اور بھارت سمیت ایشیا،روس، فلپائنز،جاپان اور جنوبی کوریا ہیں ۔اسی لئے شمالی کوریا کے معاملے میں امریکہ یورپ کو نہیں، روس اور چین کو دھمکیاں دے رہا ہے کہ وہ امریکی پابندیوں کی پاسداری کریں جب تک اس کا شمالی کوریا کے ساتھ کوئی معاہدہ نہ ہوجائے۔اس کے علاوہ شمالی کوریا،ایران کے ساتھ امریکہ کی دھوکہ دہی دیکھ چکا ہے۔ اسے علم ہے کہ اپنے اس واحد دفاع سے دستبرداری اس کو کوئی اچھے دن نہیں دکھائے گی۔یہی خدشہ دوسری طرف امریکہ کو بھی ہے جسے ایران نے اسی جوہری معاہدے میں رہتے ہوئے بہت کچھ حاصل کرلیا اور ساتھ ساتھ جوہری پروگرام بھی جاری رکھا۔ گزشتہ دنوں نتن یاہو کسی فٹ پاتھی حکیم کی طرح ایران کی جوہری سرگرمیوں کے ثبوت میڈیا کو دکھاتے رہے جس کی تاحال تردید ایران نے ٹھوس بنیادوں پہ نہیں کی۔یہ ناممکن سی بات ہے کہ امریکہ کو ایران کی ان سرگرمیوں کی خبر نہ ہواور ایسا نہیں تھا تو اس کی ایک ہی وجہ تھی، مشرق وسطی میں ایران کی بھرپور موجودگی اور اس سے صرف نظر۔کیونکہ مطمع نظر بڑا فائدہ جو تھا۔ شام میں ایران نے حزب اللہ اور پاسداران انقلاب کو کس طرح بشار الاسد کی حمایت میں میدان میں اتارا، کس طرح شام کا ایک ایک قصبہ سنی مسلح گروپوں سے واگزار کروایا گیا اور ان سے جان چھڑائی گئی یہ امریکہ یا بشار کے بس کی بات ہی نہیں تھی۔ لبنان کی حزب اللہ اور ایران کے پاسداران ایسی جنگوں کے ماہر تھے۔ یہ اس ہاتھ دو اس ہاتھ لو والا معاملہ تھا جو اس وقت تک بخیر و خوبی چلتا رہا جب تک شام کے آخری قصبے کو باغیوں سے آزاد نہ کروالیا گیا۔ جوہری معاہدہ کی ابتدا سے یہ کھیل مشرق وسطی میں جاری رہا اور اب اپنے انجام کی جانب رواں دواں ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ایران شام سے نکلنے کو تیار نہیں ہے۔اس خطرے سے صدر ٹرمپ آگاہ تھے اس لئے انہوں نے صدارت سنبھالتے ہی جوہری معاہدی لپیٹنے کا فیصلہ کیا۔ اب شام سے ایران کیسے اور کیونکر نکلے۔ اس نے تو یمن میں پاؤں پھیلائے ہوئے ہیں۔ ادھر بحیرہ عرب میں آبنائے ہرمز کو کسی بھی وقت بند کرنے کی دھمکی ایسے ہی نہیں دی گئی۔ دنیا کے پچاس فیصد تیل کی ترسیل جن آبی گذرگاہوں کے ذریعے ہوتی ہے ان میں سب سے اہم آبنائے ہرمز ہے۔ایران جب چاہے ایسا کرسکتا ہے۔یہ کھلا اعلان ہے کہ وہ شام سے واپس نہیں جائے گا،نہ یمن کی جان چھوڑے گا۔ ادھر سعودی عرب کی بھی جان پہ بنی ہے جہاں یمن میں اسے بھاری مالی اخراجات کا سامنا ہے تو دوسری طرف شام میں اسرائیل کو اپنی پڑی ہے جو ایران کو ہر صورت میں شام سے باہر دیکھنا چاہتا ہے اور اس سلسلے میں امریکہ پہ دباو ڈال رہا ہے۔ ہلال ایران کے دونوں کونے خوب چمک رہے ہیں۔ ادھر یمن میں باب المندب کو جو بحر احمر کا ہی نہیں دنیا کا چوتھا بڑا چوک پوائنٹ ہے،حوثی باغیوں نے اس قدر خطرے سے دوچار کردیا تھا کہ سعودی عرب کو وہاں سے جہازوں کی ترسیل روکنی پڑی جو گزشتہ رات کھولی گئی ہے۔ یہ چوک پوائنٹ دراصل تنگ بحری تجارتی راستے ہیں جنہیں اردو میں غلط طور پہ چیک پوائنٹ لکھا جاتا ہے۔یہ دنیا بھر میں تعداد میں آٹھ ہیں جہاں سے تیل اور دیگر تجارتی سازو سامان کی ترسیل کے لئے دنیا بھر کے ممالک میں آزاد تجارتی معاہدے موجود ہیں۔ ان ہی کے اردگرد امریکہ روس ایران اور سعودی عرب اور کچھ دوسرے ممالک اپنی عسکری قوت کا مظاہرہ کرتے رہتے ہیں۔ باب المندب پہ قبضہ دراصل بحر احمر کے جنوبی راستے پہ قبضہ ہے ۔ دنیا بھر خاص طور پہ خلیجی ممالک کو تیس فیصد سے زائد تیل اور چالیس فیصد سے زائد تجارت اسی بحری را ستے سے ہوتی ہے جس کے ذریعے یورپی یونین کی چین، جاپان اور بھارت سے تجارت ہوتی ہے۔دنیا کا تیس فیصد تیل اور گیس خلیج فارس سے مغرب اسی باب المندب کے ذریعے جاتا ہے ۔ آبنائے ہرمز اور باب المندب بالترتیب پوری دنیا کے اٹھارہ اور چار فیصد تیل کی تجارت کی ترسیل کا کام کرتے ہیں۔فروری میں ایرانی بحریہ نے بحر ہند میں بڑی مشق آپریشن ولایت کا دائرہ آبنائے ہرمز سے خلیج فارس کی طرف اور جزیرہ ہائے عرب کو گھیرتی ہوئی باب المندب تک بڑھا دیا تھا جو اس بات کا اعلان تھا کہ باب المندب ایران کے کنٹرول میں ہے لیکن ایسا تھا نہیں البتہ آبنائے ہرمز ایران کسی بھی امریکی دھمکی کے نتیجے میں بند کرسکتا ہے۔اسی خطرے کے پیش نظر کل ہی سعودی عرب نے امریکہ کے ساتھ بحری جنگی مشقیں بحر احمر میں ختم کی ہیں۔یمن میں امریکہ کا فوجی فضائی اڈہ العند بھی موجود ہے جسے حوثیوں سے خطرہ ہوسکتا ہے لیکن ابھی تک اس کا بال بیکا نہیں ہوا جبکہ یمن جہنم بن چکا ہے۔ظاہر ہے اصل جنگ بحر احمر اور بحر عرب میں لڑی جارہی ہے۔گر ایران یہ دو بڑے چوک پوائنٹ بند کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو دنیا میں تیل کی ترسیل اس قدر مہنگی اور مشکل ہوجائے گی کہ اس کی قیمتوں میں بھونچال آجائے گا اور ایران کا مطالبہ صرف ایک ہے کہ اسے شام سے نکالنے کی کوشش نہ کی جائے جہاں ایران اپنے بیس ہزار سے زائد پاسداران اور تقریبا پندرہ بلین ڈالر سالانہ کے حساب سے اب تک 105 بلین ڈالر خرچ کرچکا ہے۔اس کا خمیازہ اسے بیروزگاری، کمزور معاشی صورتحال کے نتیجے میں اندرونی خلفشار اور عوامی احتجاج کی صورت میں بھگتنا پڑرہا ہے۔ امریکی سی آئی اے ایسی صورتحال سے فائدہ اٹھانے کا نہ صرف تجربہ رکھتی ہے بلکہ اسے مزا بھی بہت آتا ہے۔شطرنج پہ مہرے بڑی پرکاری سے بٹھائے گئے ہیں۔ جس وقت اہل وطن الیکشن کے ہنگام سے گزر رہے تھے امریکہ اور ایران کے درمیان تناؤ اپنے عروج پہ تھا۔صدر ٹرمپ نے منصب صدارت سنبھالتے ہی وعدے کے مطابق جو چند کھڑکی توڑ اقدامات کئے تھے ان میں سے ایک ایران کے ساتھ جوہری معاہدے سے امریکہ کا نکلنا بھی شامل تھا۔ اس معاہدے سے نکلنے کے مضمرات اچھی طرح ان کے علم میں تھے اس لئے ایران کے ساتھ یکسوئی کے ساتھ نبٹنے کے لئے شمالی کوریا کو مذاکرات کی لگام ڈالی گئی تھی۔ اب نقشہ یہ ہے کہ دونوں ہی قابو میں نہیں آرہے۔ چین کے ساتھ امریکہ کی تجارتی جنگ،چین کی برامدات پہ پچاس بلین ڈالر کے محصولات اور اس کے نتیجے میں مناسب طور پہ دباؤ میں آجانے والے چین کے ذریعے شمالی کوریا پہ دباو اور پھراس کے ساتھ مذاکرات پہ میں نے جو تفصیلی کالم لکھا تھا،ا س میں یہ خدشہ ظاہر کیا تھا کہ شمالی کوریا امریکہ کو دھوکہ دینے کی کوشش کرے گا اور بظاہر کامیاب مذاکرات کے باوجود و ہ کسی نہ کسی طرح اپنا جوہری پروگرام جاری رکھے گا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ جس واحد جوہری سائٹ پنگ یی کو شمالی کوریا نے تباہ کیا تھا وہ ایسے ہی کرتوتوں کے باعث پہلے ہی بیٹھ چکی تھی اور محض دکھاوے کی خاطر اڑا دی گئی تھی۔میں نے اس شبہ کا اظہار اپنے کالم شمالی کوریا گھاس اور ایٹم بم میں چار مئی کو کیا جس کی تصدیق دی گارڈین نے 21 مئی کو اپنی رپورٹ میں کی ۔اس شبے کی اور بھی وجوہات تھیں۔شمالی کوریا جغرافیائی طور پہ امریکہ کے دوستوں جنوبی کوریا اور سمندر کی طرف سے جاپان میں گھرا ہوا ہے۔جاپان کے ساتھ اس کا تاریخی تلخ ماضی اب تک دہک رہا ہے۔اب بھی جاپان کے اسکولوں میں زیر تعلیم ننھے شمالی کوریائی بچے اپنے ماں باپ سے وہ کہانیاں سنتے ہیں جب ان کے والدین غلام بنا کر بیگار کے لئے کوریا سے جاپان لائے گئے اور اس کی ترقی میں اپنا زبردستی کا خون پسینہ شامل کرتے رہے۔ اپنی انتہائی خراب معاشی صورتحال کے ساتھ جو مکمل طور پہ چین کی محتاج ہے، اس کے پاس اپنے دفاع کے لئے یہی جوہری پروگرام ہے۔غالبا ًچین کے لئے سستی لیبر اور تجارتی انفرااسٹرکچراور وہ شمالی کوریائی فیکٹریاں اور سستی لیبر جو اپنے ملک میں چینی مصنوعات کم لاگت میں تیار کرتی ہیں جہاں سے وہ دنیا بھر میں میڈ ان چائنا کے لیبل کے ساتھ فروخت ہوتی ہیں ،کے علاوہ، اس میں دلچسپی کا سامان یہی جوہری پروگرام ہے۔ اسے یہ بھی نظر آرہا تھا کہ چین تجارتی جنگ میں امریکہ کے دباو کابہت عرصے مقابلہ نہیں کرسکے گا۔ گو یورپ امریکہ کے دباو سے اب اتنا آزاد تو ہو چکا ہے کہ وہ امریکہ کے ایران کے جوہری معاہدے سے نکل جانے کے باوجود ابھی تک اس معاہدے سے باہر نہیں آیا اور امریکی دھمکیوں کے باوجود ایران کے ساتھ تجارت جاری رکھے ہوئے ہے لیکن اسے یہ بھی علم ہے کہ ایران کے پاس فارسی پڑھ کر بیچنے کے لئے تیل ہے ۔ شمالی کوریا کے پاس بیچنے کے لئے کچھ زیادہ نہیں ہے اور جو ہے وہ یورپ امریکہ کی ناراضگی مول لے کر اس سے خریدنے کو تیار نہیں ہے وہ دنیا میں کہیں بھی کسی سے بھی خریدا جاسکتا ہے۔ ویسے بھی یورپ شمالی کوریا کے بڑے درامد کنندگان میں سے نہیں ہے۔ اسکے بڑے درآمدکنندگان پاکستان اور بھارت سمیت ایشیا،روس، فلپائنز،جاپان اور جنوبی کوریا ہیں ۔اسی لئے شمالی کوریا کے معاملے میں امریکہ یورپ کو نہیں، روس اور چین کو دھمکیاں دے رہا ہے کہ وہ امریکی پابندیوں کی پاسداری کریں جب تک اس کا شمالی کوریا کے ساتھ کوئی معاہدہ نہ ہوجائے۔اس کے علاوہ شمالی کوریا،ایران کے ساتھ امریکہ کی دھوکہ دہی دیکھ چکا ہے۔ اسے علم ہے کہ اپنے اس واحد دفاع سے دستبرداری اس کو کوئی اچھے دن نہیں دکھائے گی۔یہی خدشہ دوسری طرف امریکہ کو بھی ہے جسے ایران نے اسی جوہری معاہدے میں رہتے ہوئے بہت کچھ حاصل کرلیا اور ساتھ ساتھ جوہری پروگرام بھی جاری رکھا۔ گزشتہ دنوں نتن یاہو کسی فٹ پاتھی حکیم کی طرح ایران کی جوہری سرگرمیوں کے ثبوت میڈیا کو دکھاتے رہے جس کی تاحال تردید ایران نے ٹھوس بنیادوں پہ نہیں کی۔یہ ناممکن سی بات ہے کہ امریکہ کو ایران کی ان سرگرمیوں کی خبر نہ ہواور ایسا نہیں تھا تو اس کی ایک ہی وجہ تھی، مشرق وسطی میں ایران کی بھرپور موجودگی اور اس سے صرف نظر۔کیونکہ مطمع نظر بڑا فائدہ جو تھا۔ شام میں ایران نے حزب اللہ اور پاسداران انقلاب کو کس طرح بشار الاسد کی حمایت میں میدان میں اتارا، کس طرح شام کا ایک ایک قصبہ سنی مسلح گروپوں سے واگزار کروایا گیا اور ان سے جان چھڑائی گئی یہ امریکہ یا بشار کے بس کی بات ہی نہیں تھی۔ لبنان کی حزب اللہ اور ایران کے پاسداران ایسی جنگوں کے ماہر تھے۔ یہ اس ہاتھ دو اس ہاتھ لو والا معاملہ تھا جو اس وقت تک بخیر و خوبی چلتا رہا جب تک شام کے آخری قصبے کو باغیوں سے آزاد نہ کروالیا گیا۔ جوہری معاہدہ کی ابتدا سے یہ کھیل مشرق وسطی میں جاری رہا اور اب اپنے انجام کی جانب رواں دواں ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ایران شام سے نکلنے کو تیار نہیں ہے۔اس خطرے سے صدر ٹرمپ آگاہ تھے اس لئے انہوں نے صدارت سنبھالتے ہی جوہری معاہدی لپیٹنے کا فیصلہ کیا۔ اب شام سے ایران کیسے اور کیونکر نکلے۔ اس نے تو یمن میں پاؤں پھیلائے ہوئے ہیں۔ ادھر بحیرہ عرب میں آبنائے ہرمز کو کسی بھی وقت بند کرنے کی دھمکی ایسے ہی نہیں دی گئی۔ دنیا کے پچاس فیصد تیل کی ترسیل جن آبی گذرگاہوں کے ذریعے ہوتی ہے ان میں سب سے اہم آبنائے ہرمز ہے۔ایران جب چاہے ایسا کرسکتا ہے۔یہ کھلا اعلان ہے کہ وہ شام سے واپس نہیں جائے گا،نہ یمن کی جان چھوڑے گا۔ ادھر سعودی عرب کی بھی جان پہ بنی ہے جہاں یمن میں اسے بھاری مالی اخراجات کا سامنا ہے تو دوسری طرف شام میں اسرائیل کو اپنی پڑی ہے جو ایران کو ہر صورت میں شام سے باہر دیکھنا چاہتا ہے اور اس سلسلے میں امریکہ پہ دباو ڈال رہا ہے۔ ہلال ایران کے دونوں کونے خوب چمک رہے ہیں۔ ادھر یمن میں باب المندب کو جو بحر احمر کا ہی نہیں دنیا کا چوتھا بڑا چوک پوائنٹ ہے،حوثی باغیوں نے اس قدر خطرے سے دوچار کردیا تھا کہ سعودی عرب کو وہاں سے جہازوں کی ترسیل روکنی پڑی جو گزشتہ رات کھولی گئی ہے۔ یہ چوک پوائنٹ دراصل تنگ بحری تجارتی راستے ہیں جنہیں اردو میں غلط طور پہ چیک پوائنٹ لکھا جاتا ہے۔یہ دنیا بھر میں تعداد میں آٹھ ہیں جہاں سے تیل اور دیگر تجارتی سازو سامان کی ترسیل کے لئے دنیا بھر کے ممالک میں آزاد تجارتی معاہدے موجود ہیں۔ ان ہی کے اردگرد امریکہ روس ایران اور سعودی عرب اور کچھ دوسرے ممالک اپنی عسکری قوت کا مظاہرہ کرتے رہتے ہیں۔ باب المندب پہ قبضہ دراصل بحر احمر کے جنوبی راستے پہ قبضہ ہے ۔ دنیا بھر خاص طور پہ خلیجی ممالک کو تیس فیصد سے زائد تیل اور چالیس فیصد سے زائد تجارت اسی بحری را ستے سے ہوتی ہے جس کے ذریعے یورپی یونین کی چین، جاپان اور بھارت سے تجارت ہوتی ہے۔دنیا کا تیس فیصد تیل اور گیس خلیج فارس سے مغرب اسی باب المندب کے ذریعے جاتا ہے ۔ آبنائے ہرمز اور باب المندب بالترتیب پوری دنیا کے اٹھارہ اور چار فیصد تیل کی تجارت کی ترسیل کا کام کرتے ہیں۔فروری میں ایرانی بحریہ نے بحر ہند میں بڑی مشق آپریشن ولایت کا دائرہ آبنائے ہرمز سے خلیج فارس کی طرف اور جزیرہ ہائے عرب کو گھیرتی ہوئی باب المندب تک بڑھا دیا تھا جو اس بات کا اعلان تھا کہ باب المندب ایران کے کنٹرول میں ہے لیکن ایسا تھا نہیں البتہ آبنائے ہرمز ایران کسی بھی امریکی دھمکی کے نتیجے میں بند کرسکتا ہے۔اسی خطرے کے پیش نظر کل ہی سعودی عرب نے امریکہ کے ساتھ بحری جنگی مشقیں بحر احمر میں ختم کی ہیں۔یمن میں امریکہ کا فوجی فضائی اڈہ العند بھی موجود ہے جسے حوثیوں سے خطرہ ہوسکتا ہے لیکن ابھی تک اس کا بال بیکا نہیں ہوا جبکہ یمن جہنم بن چکا ہے۔ظاہر ہے اصل جنگ بحر احمر اور بحر عرب میں لڑی جارہی ہے۔گر ایران یہ دو بڑے چوک پوائنٹ بند کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو دنیا میں تیل کی ترسیل اس قدر مہنگی اور مشکل ہوجائے گی کہ اس کی قیمتوں میں بھونچال آجائے گا اور ایران کا مطالبہ صرف ایک ہے کہ اسے شام سے نکالنے کی کوشش نہ کی جائے جہاں ایران اپنے بیس ہزار سے زائد پاسداران اور تقریبا پندرہ بلین ڈالر سالانہ کے حساب سے اب تک 105 بلین ڈالر خرچ کرچکا ہے۔اس کا خمیازہ اسے بیروزگاری، کمزور معاشی صورتحال کے نتیجے میں اندرونی خلفشار اور عوامی احتجاج کی صورت میں بھگتنا پڑرہا ہے۔ امریکی سی آئی اے ایسی صورتحال سے فائدہ اٹھانے کا نہ صرف تجربہ رکھتی ہے بلکہ اسے مزا بھی بہت آتا ہے۔شطرنج پہ مہرے بڑی پرکاری سے بٹھائے گئے ہیں۔