یہ جو سرکاری دفتروں میں سالانہ خفیہ رپورٹ کا نظام رائج ہے‘ اس کے مہلک نتائج پر کبھی کسی کو غور کرنے کی توفیق نہیں ہوئی۔1947ء سے پہلے صورت حال یہ تھی کہ انگریز حاکم تھا اور ہم ہندوستانی اس کی رعایا تھے۔ گویا وہی بادشاہ اور رعایا والا رشتہ تھا اور بادشاہ بھی ہم میں سے نہیں بلکہ غیر ملکی ایک کریلا دوسرا نیم چڑھا۔آئین بادشاہی یہ ہوتا ہے کہ عوام کو بے اختیار غلام بنا دیا جائے۔ چنانچہ دوسرے اقدامات کے علاوہ انگریزوں نے اے سی آر سسٹم متعارف کروایا، جس کا مطلب یہ تھا کہ ہم ہندوستانی غلام ملازمین اپنے انگریز افسروں کی تابعداری کریں اگر افسر کسی وجہ سے ناراض ہو گیا تو وہ سالانہ خفیہ رپورٹ میں غریب ملازم کا تیا پانچہ کر دے گا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ قانون اور کارکردگی پر افسر کی خوشنودی کو ترجیح دی جائے اس کے شاہانہ مزاج کا خیال رکھا جائے اور بھول کر بھی ایسی حرکت نہ کی جائے جو افسر کے نازک مزاج پر گراں گزرے۔ انگریز کے جانے کے بعد ہمیں وراثت میں جو نظام ملا وہ آقائوں کا نظام تھا غلام کے لئے اسی نظام کو جاری رکھنا ہماری مجبوری تھی لیکن یہ مجبوری تو نہیں تھی کہ اس پر آنکھ بند کر کے اسے جاری رکھا جائے۔ ہمیں چاہیے تھا کہ اس نظام کی شاہانہ بنیاد میں سے غلامی کا عنصر نکال کر آزادی کی روح داخل کریں۔ اسے عوام دوست بنائیں عوام کو ہولے ہولے وہ حقوق لٹائیں جو غیر ملکی حکمرانوں نے چھین لئے تھے۔ یہ کام ظاہر ہے ایک دم تو نہیں ہو سکتا تھا۔ تبدیلی تو بتدریج ہی لائی جاتی ہے لیکن افسوس کا مقام ہے کہ ابھی تک موجودہ نظام(فی الحال دفتری نظام) میں افسرں کی حاکمیت اور ملازمتوں کی بے وقعتی کا عنصر موجود ہے اسی کو افسر شاہی کہتے ہیں۔قائد اعظمؒ نے افسروں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا: کہ آپ لوگ عوام کے خادم ہیں آپ نے کسی ایسے دبائو کو قبول نہیں کرنا جو عوامی خدمت کے راستے میں حائل ہو لیکن افسوس ایسا نہیں ہو سکا۔ اب بھی افسر ایک بدتر مخلوق اور ملازم بڑی حد تک غلام ہے۔یہ سالانہ خفیہ رپورٹ کا نظام افسروں کے ہاتھ میں ایک ایسی تلوار کی طرح ہے جس سے وہ کسی بھی ملازم کا گلا کاٹ سکتا ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ سال کے آخر میں افسر اپنے ماتحت ملازمین کی سالانہ رپورٹ لکھتا ہے جس ملازم سے وہ ناراض ہوتا ہے اس کے بارے میں ADVERSEریمارکس دے دیتا ہے۔ مثلاً یہ کہ یہ ملازم سست ہے۔ وقت کا پابند نہیں ہے۔ اس کی دیانت داری مشکوک ہے۔ اس کی عمومی شہرت اچھی نہیں ہے۔ فنڈز کے غبن میں ملوث ہے۔ قانون کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوتا ہے۔ بدتمیز ہے۔وغیرہ وغیرہ۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ افسر اگر کوئی الزام لگائے تو اس کا ثبوت بھی مہیا کرے۔ لیکن ایسا بالکل نہیں ہوتا۔ جو انٹ شنٹ اس کے دل میں آئے وہ لکھ دیتا ہے۔ کوئی اس سے پوچھنے والا نہیں کہ سارا سال آپ اس ملازم کی غلط کاریاں برداشت کرتے رہے اسے کبھی شوکاز نوٹس نہیں دیا۔ کسی قسم کی انکوائری اس کے خلاف نہیں ہوئی۔ آپ نے کس بنیاد پر اس کی رپورٹ خراب کر کے اس کے کیریئر کو خراب کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس سے اس لئے نہیں پوچھا جاتا کہ وہ شاہی نظام کا نمائندہ ہوتا ہے۔ وہ جو چاہے کہے اور جو چاہے کرے۔ دیکھا جائے تو اس کے اختیارات اعلیٰ عدالتوں کے ججز سے بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ جج حضرات ہر بات کا ثبوت مانگتے ہیں لیکن افسران عظام بغیر کسی ثبوت کے ملازمتوں کی عزت کو دو کوڑی کا کر دیتے ہیں اگر سالانہ خفیہ رپورٹ میں کسی ملازم پر بغیر ثبوت کے الزامات لگائے جاتے ہیں تو ملازم کو حق ہونا چاہیے کہ وہ افسر پر ہتک عزت(ازالۂ حیثیت عُرفی) کا دعویٰ کرے۔ لیکن ہوتا یہ ہے کہ اس ملازم سے کہا جاتا ہے کہ تم اپیل کر سکتے ہو کہ میرے خلاف جو ریمارکس دیے گئے ہیں وہ مبنی بر حقائق نہیں ہیں لہٰذا انہیں فدوی پر بے پایاں مہربانی فرماتے ہوئے EX PUNGEکر دیا جائے، یعنی حذف کر دیا جائے گویا اسے موقع دیا جاتا ہے کہ وہ راہ راست پر آ جائے۔افسر اعلیٰ کی وفاداری کا دم بھرے اور آئندہ کے لئے توبہ کر لے۔ چنانچہ اس طرح ایک لمبا پراسس شروع ہو جاتا ہے۔ بے چارے ملازم کی راتوں کی نیند حرام ہو جاتی ہے اور اس کی کارکردگی بری طرح متاثر ہوتی ہے مخالفانہ ریمارکس بالعموم EXPUNGEبھی ہو جاتے ہیں لیکن بعداز خرابی بسیار۔ اس سارے عمل میں افسر حضرات بے چارے ملازمین کا تماشہ دیکھتے رہتے ہیں اور ملازمین اپنی قسمت کو کوستے رہتے ہیں جب ریمارکس حذف کئے جاتے ہیں تو یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ریمارکس غلط تھے اگر غلط تھے تو افسر نے لکھے کیوں اور اس کے خلاف غلط الزامات لگانے کی وجہ سے قانونی کارروائی کیوں نہ ہوئی۔ یہ سوالات جواب طلب ہیں۔