ایسا ہوتا ہے جانا اور پھر ایسا ہوتا ہے آنا___ اسے کہتے ہیں ’’کسب کمال کن کہ عزیز جہاں شوی‘‘ 92 سال کے مہاتیر محمد کو اس کے عوام نے بزور بلا لیا۔ وہ ان کی ضرورت بن گیا۔ ان کا نجات دہندہ بن گیا۔ مہاتیر محمد نے ۲۲ سال ملائیشیا پر حکومت کی۔ اور ملائیشیا کو دُنیا کے بڑے اور ترقی پذیر ملکوں میں شامل کر دیا۔ کوالالمپور کے ائیرپورٹ پر اترتے ہی اس بات کا احساس شدت سے ہوتا تھا کہ یہ مسلمانوں کا بہت بڑا ملک ہے___ گو اس کے اندر مختلف بودوباش کے جزائر ہیں۔ مگر ارتقا کے ثمرات ہر جگہ پہنچ گئے۔ شرحِ خواندگی سو فیصد ہو گئی۔ معیشت اپنے پاؤں پر کھڑی ہو گئی۔ خارجہ پالیسیاں عروج کی طرف لے گئیں۔ غریب امیر کی حالت سنور گئی۔ وہ کونسا تعمیراتی اور ترقیاتی کام تھا جس میں مہاتیر گورنمنٹ نے کمال نہ حاصل کیا ہو۔ ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد ہمدردشوریٰ نے انہیں کراچی کے ایک سیمینار میں چیف گیسٹ کے طور پر مدعو کیا تھا۔ مَیں بطور خاص ان سے ملنے گئی۔ اور حسب عادت میں نے ان سے آٹوگراف بھی لئے تھے۔ اور ان سے روبرو گفتگو بھی کر کے پوچھا تھا کہ آپ نے اپنے ملک کو بام عروج پر کیسے پہنچایا___؟ وہ مسکراتے رہے اور کوئی بھی کریڈٹ لینے کو تیار نہیں تھے۔ بس یہی کہتے رہے کہ یہ ٹیم ورک ہوتا ہے۔ سٹیج پر بھی انہوں نے یہی کہا کہ اگر معاشرہ کرپشن سے پاک ہو تو ارتقائی منازل طے کر لیتا ہے۔ ان کا لباس بالکل سادہ تھا۔ سفید قومی لباس میں ملبوس تھے۔ لاکھوں کے فرنگی سوٹ اور نکٹائی میں ملبوس نہیں تھے۔ اور نہ ہی انہیں ایسا کوئی کامپلیکس تھا۔ جو کچھ انہوں نے اپنے صدارتی خطبے میں کہا۔ وہ پاکستان کی سیاست کی نفی کرتا تھا۔ اس دن ہمیں معلوم ہوا کہ لیڈر قدرت کی طرف سے بنا کر بھیجا جاتا ہے۔ نہ اسے ہوائی مخلوق بناتی ہے نہ اسے حواری سنوارتے ہیں۔ تب میں نے ان سے یہ بھی پوچھا تھا کہ آپ بہت کامیاب حکمران کی طرح جا رہے تھے۔ ریٹائرمنٹ کیوں لی___ اس کا انہوں نے مسکرا کر یہ جواب دیا تھا کہ بیس بائیس سال بہت ہوتے ہیں۔ اور پھر میں نے اپنے ملک کے لئے جو کرنا تھا‘ کر لیا۔ اب مجھے باقیوں کو موقع دینا چاہیے۔ یوں بھی میری اب آرام کرنے کی عمر ہے___۔ لیکن دیکھ لیجئے___ جب ان کی قوم نے انہیں پھر پکارا‘ تو وہ آگئے۔ اللہ نے انہیں توفیق اور توانائی بھی دی۔ توانائی اور توفیق ان لوگوں کو ملتی ہے جو رزق حلال پر یقین رکھتے ہیں‘ کرپشن نہیںکرتے‘ غبن نہیں کرتے‘ غرور نہیں کرتے‘ رعایا کو کیڑے مکوڑے نہیں سمجھتے۔ جو دنیوی عیش ونشاط اور کروفر سے متنفر ہو جاتے ہیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھلائی کے کام کرتے ہیں۔ بھلائی کی بات کرتے ہیں۔ گوشہ نشین ہو جاتے ہیں۔ عام بندوں کی طرح رہنے لگتے ہیں۔ اللہ کو ان کا یہ انداز پسند آ جاتا ہے۔ وہ پھر انہیں کسی نہ کسی بہانے سے اُٹھا کر خاص بندوں میں شامل کر دیتا ہے ؎ گاہ بحیلہ می برد‘ گاہ بزور می کشد! انہوں نے آتے ہی اپنا ایجنڈا دے دیا ہے۔ اور اپنے سب سے بڑے مخالف کو معاف کر دیا ہے۔ معاف کرنے کا مقصد یہ ہے کہ وہ آئندہ اسے حکومت گری کے گُر بھی سکھائیں گے..... سارا گند صاف کریں گے مگر دُنیا کو چیخ چیخ کر نہیں سنائیں گے___ کہ دیکھو دُنیا والو! میں آگیا ہوں۔ میں ناگزیر تھا۔ ملک کا خزانہ خالی ہو چکا ہے۔ معیشت حالتِ نزع میں ہے۔ دُنیا ہمیں عبرت کا نشان سمجھ رہی ہے۔ اب میں آ گیا ہوں۔ میں نہ کہتا تھا___ میرے بغیر یہ ملک نہ چل سکے گا___‘‘ یہاں کیا ہو رہا ہے۔ اول تو کوئی اپنی ٹرم پوری کر کے جانا ہی نہیں چاہتا۔ اور اگر جانا پڑے تو واویلا مچا مچا کے دُنیاسر پر اُٹھا لیتا ہے۔ اپنی کرتوتوں کی طرف نہیں دیکھتا۔ اگر اچھے کام کئے ہوتے تو خلقت تمہیں بھی آواز دے لیتی___ یہاں جلسے اور جلوسوں کا مقابلہ ہو رہا ہے۔ ترانوں اور نغموں میں مدح سرائی کا مقابلہ ہو رہا ہے۔ گالی گلوچ‘ طنز وتشنیع کے اندر ایک نئی لغت ترتیب دی جا رہی ہے۔ اخلاقیات کی دھجیاں اُڑائی جا رہی ہیں۔ کوئی بھی جانے کو تیار نہیں ہے۔ سب آنے کو پر تولے بیٹھے ہیں۔ جھوٹ پر جھوٹ بولا جا رہا ہے___ اللہ کی قسم کھا کر غلط بیانی کی جا رہی ہے۔ جانتے ہیں کہ اللہ سمع و علیم وبصیر ہے۔ پھر بھی اس کے سامنے دروغ گوئی اور لغوبیانی سے کام لیا جا رہا ہے۔ لفظی کُشتیاں لڑی جا رہی ہیں۔ اب تو ان کی دیکھا دیکھی مذہبی جماعتیں بھی میدان میں اُتر آئی ہیں___۔ حیران وپریشان عوام کیا کریں___ ؎ حیراں ہوں دِل کو روئوںکہ پیٹوں جگر کو میں مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک تیز رو کے ساتھ پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں! ان سب میں کوئی راہبر لگتا ہی نہیں___ کسی کا ماضی سیاہ‘ کسی کا حال تباہ‘ کسی کا مستقبل نہ معلوم___ جس وقت اللہ تبارک وتعالیٰ کسی عام آدمی کو کوئی خاص منصب عطا کرتا ہے تو اس سے توقع رکھتا ہے۔ کہ اس کے اندر سے عام آدمیوں والی علتیں نکل جائیں گی۔ وہ تقویٰ کے راستے پر چل نکلے گا۔ کیونکہ اب وہ راہبر ہے اور لوگ اس کے پیچھے چل رہے ہیں۔ وہ کردار میں‘ گفتار میں‘ اطوار میں‘ عادات میں اور معاملات میں بالکل مختلف انسان نظر آئے گا___۔ ناجائز دولت کو چھپانے کے لئے اتنے جھوٹے بیان اور اتنی جھوٹی قسمیں نہیں کھائے گا۔ جس ملک نے آپ کو دُنیا میں سر بلند کیا‘ جاتے جاتے آپ اس ملک کے چہرے پر اپنے کردار کی سیاہی پھینک کر جانا چاہتے ہیں___ نوازشریف کا حالیہ بیان انتہائی شرمناک ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ شخص کبھی پاکستان کا وفادار نہیں تھا‘ نہ کبھی پاکستان کا وفادار ہو گا۔ اس کو اپنے اس سرمائے کی فکر ہے جو اس نے انڈیا کی معیشت کو بڑھاوا دینے کے لئے انڈیا میں لگا رکھا ہے___ پاکستان سے محبت کا سبق تو آپ کو ان فوجیوں سے لینا چاہیے جو دشمن کی قید میں بھی ہوں تو ہر قسم کی اذیت سہہ لیتے ہیں۔ نہ تو وطن کے خلاف کوئی بات کرتے ہیں اور نہ اپنے وطن کا کوئی راز افشا کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ جان سے گذر جاتے ہیں۔ اسلئے وہ امر ہو جاتے ہیں۔ وطن کا فخر ہو جاتے ہیں۔ آجکل سابق صدر پرویز مشرف بھی ٹی وی پر نظر آ رہے ہیں۔ آج ان کو احساس ہو رہا ہو گا کہ انہوں نے NRO کر کے کتنی بڑی غلطی کی تھی۔ ملک کی سیاست کو کتنا نقصان پہنچایا تھا۔ کیا سوچ کر انہوں نے ساری گندی مچھلیاں سیاست کے تالاب میں بلا لیں۔ کونسے معرکے سر کر لئے ان لوگوں نے..... خود بھی خراب ہوئے اور عوام کو بھی خراب کیا___ اس زمانے میں جناب پرویز مشرف کے مخلص دوستوں نے انہیں سمجھایا تھا کہ جن کرپٹ سیاست دانوں کو NRO کا تاجِ پذیرائی پہنا کر واپس بلا رہے ہیں۔ اور اپنے بنائے ہوئے آرڈیننس ’’ایل ایف او‘‘ کی نفی کر رہے ہیں۔ وہ اب اس قابل نہیں رہے کہ آکر اتنے بڑے ملک کی کمان سنبھالیں جس کو تباہی کے گڑھے میں پھینک کر گئے تھے۔ اب اس کو ارتقائی عروج نہیں عطا کریں گے۔ یہ لوگ جو NRO کے سمجھوتہ تالاب میں نہا کر پاک صاف ہو کر آ رہے ہیں۔ ان کے ذہنوں میں انتقام کی آگ جل رہی ہے اور انا کے الاؤ بھڑک رہے ہیں۔ یہ آپ کو بھی رسوا کریں گے اور ملک کو بھی نقصان پہنچائیں گے۔ مگر اُس وقت صدر پرویزمشرف بھی کسی بھی دوست کی سننے کو تیار نہیں تھے۔ آج وہ ہر چینل پر آ کر کہہ رہے ہیں۔ ’’NRO میری سب سے بڑی غلطی تھی‘‘۔ ان کی غلطی کا خمیازہ پانچ دس سالوں پر محیط ہے او رقوم برابر بھگت رہی ہے..... اب اپنی غلطی تسلیم کرنے سے حاصل..... ان لوگوں کو تو NRO کی لت لگ گئی___۔ جب یہ لت پوری نہیں ہوئی تو ملک داؤ پر لگا دیا؟ ؎ چرا کارے کند عاقل کہ باز آید پشیمانی؟