سائنس کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ سائنس ایک ہاتھ سے دیتی اور دوسرے سے واپس لے لیتی ہے، بعض اوقات دیتی کم اور لیتی زیادہ ہے، یعنی اصل زر مع سود وصول کر لیتی ہے۔ ایک ہاتھ سے دینے اور دوسرے سے دی گئی چیز واپس لینے کے عمل کو سائنسی رویہ کہتے ہیں۔ آرٹ کا معاملہ اس کے برعکس ہے۔ آرٹ معاشرے کو بہت کچھ دیتا ہے لیکن بدلے میں لیتا کچھ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سائنٹسٹ امیر اور آرٹسٹ غریب ہوتا ہے۔ میں ایک مثال سے بات واضح کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ ایک شخص جو کسی شادی میں ایک ہزار روپیہ سلامی دے اور گیارہ سو کا کھانا کھا لے، اسے سائنٹسٹ کہا جاتا ہے، جو شخص ہزار روپے سلامی کے عوض بمشکل چند لقمے ہی کھائے اسے آرٹسٹ کہتے ہیں۔ سائنس نے انسان کو بہت کچھ دیا اور بہت کچھ واپس لے لیا۔ اگر بات یہیں تک رہتی تو بھی غنیمت تھا۔ ہم سمجھتے کہ چلو حساب برابر ہو گیا لیکن ہوا یہ کہ سائنس جب واپس لینے پر آئی تو اپنی دی ہوئی چیزوں کے علاوہ ایسی چیزیں بھی واپس لے گئی جو انسان کو سائنس نے نہیں دی تھیں بلکہ اسے وراثت میں ملی تھیں۔ وراثت میں انسان کو اچھی چیزیں بھی ملیں اور بری بھی۔ سائنس نے یہ ظلم کیا کہ اچھی چیزیں زبردستی ہتھیا لیں اور بری چیزوں کو ہاتھ تک نہ لگایا اور اگر کہیں ہاتھ لگایا تو ان کی شکل مزید بگاڑ دی۔ گویا سائنس انسانوں کیلئے سراسر گھاٹے کا سودا ثابت ہوئی۔ معاف کیجئے گا حضرات، گفتگو میرے نہ چاہنے کے باوجود سنجیدہ رخ اختیار کر گئی۔ میرا تجربہ اور مشاہدہ ہے کہ لوگ سنجیدہ باتوں کو سنجیدگی سے نہیں لیتے اور سنجیدہ گفتگو سن کر رنجیدہ ہو جاتے ہیں۔ دراصل کالم شروع کرنے سے پہلے میرے ذہن میں موبائل فون تھا۔ موبائل فون میں سینکڑوں فنکشنز ہیں جن میں سے مجھے تین چار سے زیادہ کا پتہ نہیں ہے۔ میں عرض کر رہا تھا کہ سائنس نے ہمیں فائدہ بھی پہنچایا اور نقصان بھی۔ موبائل فون اس حقیقت کا بہترین ثبوت ہے۔ اس کے فوائد سے تو تقریباً ہر شخص واقف ہے۔ موبائل فون کے نقصانات بھی بہت ہیں لیکن انہیں خاطر میں نہیں لایا جاتا۔ آپ Chatting کی مثال لیں۔ اس کا فائدہ تو یہ ہے کہ وقت اچھا کٹ جاتا ہے۔ طالب علم پڑھائی سے بچ رہتے ہیں۔ والدین کو چکمہ دینا آسان ہو جاتا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی بیٹی یا بیٹا بذریعہ انٹرنیٹ علم حاصل کرنے میں مصروف ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں Chatting اور Cheating کا ایک حسین امتزاج وجود میں آتا ہے۔ والدین تو رہے ایک طرف Chatting کرنے والے خود بھی بیک وقت Chatting اور Cheating میں مصروف ہوتے ہیں۔ رہے Chatting کے نقصانات تو یہ بحث کسی اور وقت پر اٹھا رکھتے ہیں۔ مزید سنجیدہ باتیں کرکے میں آپ کا قیمتی وقت ضائع کرنا نہیں چاہتا۔ Chatting میں جو دو افراد مصروف گفتگو ہوتے ہیں وہ ایک دوسرے کیلئے اجنبی ہوتے ہیں۔ اس اجنبیت کی وجہ سے جھوٹ بولنے میں بہت آسانی پیدا ہو جاتی ہے اور یہ اجنبیت ایک تجسس کا باعث بھی بنتی ہے۔ ہم دوسروں کے بارے میں وہ حقائق بھی جاننا چاہتے ہیں جنہیں جانے بغیر بھی زندگی آرام سے بسر ہو جاتی ہے۔ چنانچہ انٹرنیٹ پر جونہی دو افراد کو Chatting کا موقع ملتا ہے، ان کا تجسس بیدار ہو جاتا ہے۔ سب سے پہلے تو یہ جاننا ضروری ہے کہ دوسرے کی شکل کیسی ہے۔ اس سلسلے میں Face Book پر دی گئی تصویر سے بھی کچھ نہ کچھ رہنمائی مل سکتی ہے لیکن سمجھدار لوگ فیس بک والی تصویر کو زیادہ معتبر نہیں سمجھتے۔ تصویر ان دنوں کی ہو سکتی ہے جب چہرے پر پھٹکار نہیں پڑی تھی یا عمر رواں کے اثرات نمایاں نہیں ہوئے تھے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ اگر معمولی چہرے کی بھی مختلف زاویوں سے پندرہ بیس تصویریں لے لی جائیں تو ان میں ایک آدھ تصویر ایسی مل جاتی ہے جو اصل چہرے سے کافی بہتر ہوتی ہے۔ چنانچہ ایسی تصویر کو فیس بک پر لگا دیا جاتا ہے۔ اگر اس سلسلے میں کسی ماہر فوٹو گرافر کی خدمات حاصل کر لی جائیں تو ایسی تصویر بھی بن سکتی ہے جسے وہ شخص بھی نہ پہچان سے، جس کی تصویر ہوتی ہے۔ لڑکیوں کو قدرے زیادہ محنت کرنا پڑتی ہے۔ فوٹو گرافر کے پاس جانے سے پہلے انہیں کسی بیوٹی پارلر میں جانا ہوتا ہے۔ جہاں شلجم کو کشمیری سیب بنانے کا کام ہوتا ہے۔ قصہ مختصر دونوں فریقوں کی کوشش ہوتی ہے کہ نقل بمطابق اصل ہو یعنی وہ ایک دوسرے کی تازہ ترین شکل دیکھنا چاہتے ہیں۔ نوجوان لڑکیوں کا مسئلہ صرف شکل صورت ہے لیکن سینئر لڑکیوں کا مسئلہ شکل کے علاوہ عمر کا بھی ہے۔ سینئر لڑکیوں کے علاوہ سینئر لڑکوں کا بھی یہی مسئلہ ہے۔ چنانچہ تصویروں کے تبادلے میں اس وقت کی تصویریں بھیج دی جاتی ہیں جب کیمرہ نیا نیا ایجاد ہوا تھا۔ میں قارئین کو اگلے کسی کالم میں اس Chatting کا ایک دلچسپ نمونہ پیش کروں گا۔ فی الحال میں آپ کو ماضی میں لے چلتا ہوں۔ جب موبائل فون تو بہت دور کی بات ہے۔ PTCL فون بھی کسی کسی کے پاس ہوتا تھا۔ آج سے تقریباً 55 برس پہلے کی بات ہے۔ ان دنوں روزنامہ مشرق ایک بہت مقبول اخبار تھا ’روزنامہ مشرق‘ منفرد سوچ رکھنے والے صحافی عنایت اللہ نے جاری کیا تھا۔ یہ اخبار معاشرے کے تمام طبقات کی بھرپور نمائندگی کرتا تھا۔ مرحوم جرنلسٹ ریاض بٹالوی عملے کے ایک اہم رکن تھے۔ ہمارے دوست سینئر جرنلسٹ جناب اسلم ملک لکھتے ہیں: مشرق میں ریاض بٹالوی کے پورے صفحے کے فیچر بہت مقبول ہوئے۔ ایک بار ریاض بٹالوی نے چیلنج کیا کہ وہ روزانہ بھیس بدل کر شہر میں گھومتے رہیں گے۔ جو مجھے ڈھونڈ لے گا، انعام پائے گا۔ وہ روزانہ مختلف مقامات پر اپنی موجودگی کی تصاویر چھاپتے رہے لیکن شاید انہیں کوئی نہ ڈھونڈ سکا۔ قارئین کرام! ان دنوں مجھے ایک دلچسپ واقعہ پیش آیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ میرا ڈیل ڈول ریاض بٹالوی صاحب سے ملتا تھا اور شکل میں بھی قدرے مشابہت تھی۔ ہوا یوں کہ ان دنوں ایک بار میں ایک ڈبل ڈیکر بس میں بیٹھا مغل پورہ جا رہا تھا۔ ان دنوں لاہور میں ڈبل ڈیکر بسیں چلا کرتی تھیں۔ میں نے دیکھا کہ ایک ساٹھ سالہ بزرگ مجھے گھور رہے تھے گویا پہچاننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پھر اچانک وہ ایک نعرہ مستانہ لگاتے ہوئے اٹھے اور چلا کر کہا ’’پکڑے گئے، ریاض بٹالوی پکڑے گئے۔‘‘ مجھے ریاض بٹالوی ڈیکلیئر کرنے کے بعد انہوں نے اٹھ کر مجھے قابو کیا۔ سٹاپ پر بس ٹھہری تو اتر کر ایک رکشے کو ہاتھ دیا۔ رکشا رکا تو پہلے مجھے ایک گٹھڑی کی طرح رکشے میں پھینکا اور پھر خود بیٹھ کر مجھے مزید مضبوطی سے پکڑ لیا۔ میں نے انہیں کہا، ’’آپ فکر نہ کریں۔ میں بھاگوں گا نہیں۔ اب آپنے مجھے پکڑ ہی لیا ہے تو میں کیوں بھاگوں گا۔‘‘ چنانچہ ہم باتیں کرتے ہوئے نسبت روڈ پر مشرق کے دفتر میں پہنچ گئے۔ وہاں سارا عملہ اکٹھا ہو گیا۔ اچھا خاصا شغل میلہ لگ گیا۔ کچھ لوگ بڑے میاں سے کہہ رہے تھے کہ آپ غلط بندہ پکڑ لائے ہیں۔ یہ ریاض بٹالوی نہیں ہے۔ چند ایک کو شرارت سوجھی۔ انہوں نے اس بزرگوار کو اس کارنامے پر مبارکباد دی اور انہیں انعام کا مستحق قرار دیا۔ اس تمام ہلے غلے میں، میں چپ چاپ بیٹھا رہا۔ عملے کے چند افراد مجھ سے باتیں کرنے لگے گویا میں ریاض بٹالوی ہوں اور وہ میرے کولیگ ہیں۔ یہ صورتحال دیکھ کر ان صاحب کو پکا یقین ہو گیا کہ انہوں نے مچھلی ہی پکڑی ہے، پرانا جوتا نہیں پکڑا۔ عملے کے ایک سنجیدہ رکن نے انہیں حقیقت حال بتا کر تشریف لے جانے کا کہا تو وہ صاحب اڑ گئے۔ کہنے لگے، آپ میرے ساتھ دھوکا کر رہے ہیں۔ میں انعام لئے بغیر نہیں جائوں گا۔ بہرحال بڑی مشکل سے معاملہ رفع دفع ہوا۔ اگلے روز اخبار میں میری تصویر چھپی۔ ساتھ ہی ریاض بٹالوی صاحب کی تصویر تھی۔ ساتھ ساتھ دونوں تصویریں چھاپنے کا مقصد یہ تھا کہ ہماری شکلوں کی مشابہت دکھائی جائے۔ زیادہ مشابہت تو نہیں تھی لیکن بہرحال کچھ نہ کچھ ضرور تھی۔ اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ میری جائے پیدائش دھاریوال (گورداسپور) سے بٹالہ صرف دس کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ جغرافیائی ماحول بھی شکلوں پر اثرانداز ہوتا ہے۔ ہوتا ہے نا جی!