26 اکتوبر کو اسلام آباد میں دو (پاکستانی) افغان لیڈروں، وزیر دفاع پاکستان جناب پرویز خٹک اور ’’ جمعیت عُلماء اسلام‘‘ (فضل اُلرحمن گروپ) کے اکرم درانی صاحب نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہُوئے کہا کہ ’’31 اکتوبر ،کو آزادی ماؔرچ (کا) احتجاج اسلام آباد "Red Zone" اور "D-Chowk" میں نہیں ہوگا۔ بلکہ ’’اتوار بازاؔر۔ پشاور موؔڑ‘‘ پر ہوگا۔ مَیں اِسے ’’راضی نامہ ‘‘ ہی کہوں گا ، ’’ مُک مُکا‘‘ ہر گز نہیں کہوں گا!۔ اگر یہ ’’ راضی نامہ‘‘ واقعی خلوص دِل سے ہُوا ہے تو اِس کا خیر مقدم کیوں نہ کِیا جائے؟ ۔ وفاقی حکومت / جناب پرویز خٹک کی طرف سے ڈپٹی کمشنر اسلام آباد چودھری محمد حمزہ شفقات اور فضل اُلرحمن صاحب کی طرف سے اُن کی ’’جمعیت عُلماء اسلام ‘‘ کے ضلع اسلام آباد کے جنرل سیکرٹری محمد عبداللہ صاحب نے پندرہ روپے کے سرکاری "Stamp Paper" پر دستخط کئے ہیں ۔ صِرف پندرہ روپے کے "Stamp Paper" پر؟۔ "Stamp Paper" تو ہزاروں روپے کے بھی ملتے ہیں ؟۔ معزز قارئین!۔ جب بھی پاکستان کی ’’ احتجاجی سیاست‘ ‘کی تاریخ لکھی جائے گی تو، فریقین ، وزیراعظم عمران خان اور اِس وقت ( اپوزیشن لیڈر) فضل اُلرحمن صاحب کے کفایت شعاری کے جذبے کی ضرور تعریف کی جائے گی ؟۔ ممکن ہے فریقین کے نزدیک "15" کے ’’ ہندسے‘‘ (Figure) کی کوئی خاص اہمیت ہو ؟۔ اِس سے پہلے ، جب بھی کبھی کسی حکومت اور اپوزیشن قائد (یا قائدین) میں مذاکرات کے بعد ، اتنی سادگی سے راضی نامہ نہیں ہُوا ۔ جناب پرویز خٹک اور محمد اکرم درانی دونوں افغان / پٹھان ہیں ۔ جمعیت عُلماء اسلام ( ف) کے ضلعی جنرل سیکرٹری اسلام آباد محمد عبداللہ صاحب بھی ہیں یا نہیں ؟ مَیں نہیں جانتا ؟ لیکن ، مَیں ڈپٹی کمشنر اسلام آباد ۔ ضلع گجرات کے موضع ’’ بھدر‘‘ کے پنجابی سپیکنگ جاٹ ، چودھری حمزہ شفقات سے میری پہلی ملاقات ، (5 رمضان اُلمبارک ) 11 مئی 2019ء کو چیئرمین ’’پاکستان کلچرل فورم‘‘ اسلام آباد برادرِ عزیز ظفر بختاوری صاحب کی دعوت ِ افطار میں ہُوئی تھی۔ دعوتِ افطار کے بعد مَیں ، اپنا رختِ سفر باندھ ہی رہا تھا کہ ’’ ظفر بختاوری صاحب نے، میرا ڈپٹی کمشنر صاحب سے تعارف کرایا ۔ جواباً اُنہوں نے مجھ سے مخاطب ہو کر بڑی نسطعلیق اردو میں کہا کہ ’’ محترم اثر چوہان صاحب!۔ دعوتِ افطار میں موجود ، میرا "Cousin" اور آپ کا اسلام آبادی داماد ، معظم ریاض چودھری مجھ سے ، آپ کا پہلے ہی غائبانہ تعارف کرا چکا ہے‘‘۔ مَیں نے کہا کہ ’’ عزیز گرامی!۔ مَیں بھی آپ کی طرح اردو سپیکنگ پنجابی‘‘ ہُوں لیکن، مجھے آپ کی طرح اردو بولنے کا ڈھنگ ابھی تک نہیں آیا‘‘ ۔ دو دِن بعد میرے ’’ کُڑم‘‘ ( سمبندھی) چودھری محمد ریاض اختر نے یہ راز فاش کِیا کہ ’’ پنجابی ڈپٹی کمشنر اسلام آباد، صوبہ خیبر پختونخوا ، کے افغان (پٹھان) ۔ عوامی نیشنل پارٹی کے (مرحوم) لیڈر، جناب بشیر احمد بلور ؔکے داماد ہیں‘‘۔ بہرحال ڈپٹی کمشنر اسلام آباد اور ’’ جمعیت عُلماء اسلام کے ضلعی سیکرٹری اسلام آباد نے جس 15 روپے کے "Stamp Paper" پر دستخط کئے ہیں اُس کا خیر مقدم ہی کِیا جانا چاہیے ؟۔ ’’27 اکتوبر کے روزنامہ ’’92 نیوز‘‘ کی شہ سُرخی تھی کہ’’۔ مذاکرات کامیاب۔ دھرنے کا مقام تبدیل۔ سٹیج ، اب پشاورؔ موٹر پر سجے گا‘‘۔ معزز قارئین!۔ خیبر پختونخوا کا داراُلحکومت پشاور، اسلامیہ جمہوریہ پاکستان کا ایک تاریخی اور اہم شہر ہے ۔ جس طرح پنجاب کے داراُلخلافہ لاہور کے باسیوں کو ’’ زندہ دِلانِ لاہور ‘‘ کے نام (بلکہ ) لقب سے یاد کِیا جاتا ہے اُسی طرح اہل ِپشاور کی بھی اپنی پہچان ہے۔ اُن کی (یا اُن کے کے بارے میں ) ’’ دِل پشوری/ دِل پشائوری ‘‘ ۔ مشہو ر ہے؟۔ ’’ دِل پشوری یا دِل پشائوری ‘‘ کے معنی ہیں ۔ ’’دِل بہلانا، ہنسنا کھیلنا، مخول کرنا، شُغل میلہ کرنا ، نظارہ بازی کرنا اور بغیر کچھ حاصل کئے کسی چیز سے حَظ ( لطف / مزا) اُٹھانا ‘‘۔ حضرت امیر میناؔئی نے صِرف عاقل بالغ نوجوانوں کو مشورہ دِیا تھا کہ … حَظ اُٹھائو، کچھ جوانی کا! کچھ مزا دیکھو، زندگانی کا! معزز قارئین!۔ 6 سال تک خود ساختہ جلا وطنی کے بعد ’’ شیخ اُلاسلام‘‘ کا لقب اختیار کر کے ’’ تحریک منہاج اُلقرآن‘‘ کے سربراہ ، علاّمہ طاہر اُلقادری جب وطن واپس آئے تو، اُنہوں نے ، 23 دسمبر 2012ء کو لاہور میں مینار پاکستان کے سائے تلے جلسۂ عام سے خطاب کرتے ہُوئے (اُن دِنوں ) آصف علی زرداری کو "Warning" دِی تھی کہ’’ اگر 10 جنوری 2013ء تک آپ نے میری مرضی کے مطابق ، انتخابی نظام میں تبدیلیاں نہ کِیں تو ، مَیں 40 لاکھ اِنسانوں کی قیادت کرتے ہُوئے اسلام آباد تک "Long March" کروں گا اور وہاں پہنچ کر ، عوامی پارؔلیمنٹ کے اجلاس میں تمام فیصلے کروں گا اور اگر کوئی ناخوشگوار واقعہ ہوگیا تو اُس کے ذمہ دار آپ (صدر آصف زرداری ) ہوں گے ‘‘۔ صدر آصف زرداری نے طاہر اُلقادری کی اِس "Warning" کی پروا نہیں کی ، پھر القادری صاحب نے لاہور سے اسلام آباد تک "Long March" شروع کردِیا۔ (القادری صاحب اُسے "Million March"کہتے رہے) لیکن، پہلے تو ، اُنہوں نے اپنی قیادت میں ’’ لانگ مارچ ‘‘ کو ’’ عوامی جمہوریہ چین‘‘ کے بانی ، چیئرمین مائوزے تنگ (Mao Zedong)کی قیادت میں (1934ء 1935ئ) میں ’’ سُرخ فوج‘‘ کے لانگ ؔمارچ تے تشبیہ دِی (بقول مائوزے تگ ) جس میں اُن کے ساتھ نظریات ؔسے مسلح اور گوریلا جنگ میں تربیت یافتہ جوان اور معمر لوگ چل رہے تھے، پھر القادری صاحب نے یہ بھی کہا کہ ’’ میرا ’’ لانگ مارچ‘‘ سیّد اُلشہدا ء حضرت امام حسین علیہ السلام کے نام پر ’’ حسینی ماؔرچ‘‘ ہوگا لیکن ،پھر ’’چشم فلک ‘‘ کے ساتھ دُنیا بھرکے ناظرین نے الیکٹرانک میڈیا پر القادری صاحب کی سکیورٹی کے لئے زندگی کی تمام آسائشوں سے لبریز "Bomb Proof Container" تھا۔ اِن کے ساتھ 313 گاڑیاں اور کمانڈوز کی 90 گاڑیاں چل رہی تھیں؟۔ اسلام آباد پہنچ کر 14جنوری 2013ء کو ’’ ڈی ۔ چوک‘‘ میں ایک بہت بڑا سٹیج بنوا کر القادری صاحب نے اعلان کِیا کہ’’ مَیں نے صدر آصف زرداری اور وزیراعظم راجا پرویز اشرف کو اُن کے عہدوں سے برطرف کردِیا ہے اور اگر کل (15 جنوری)11 بجے دِن تک قومی اور صوبائی اسمبلیو ں کو تحلیل نہ کِیا گیا تو عوام کی پارلیمنٹ ( لانگ مارچ کے شُرکاء ) خُود فیصلے کرے گی اور فیصلے مَیں سنائوں گا‘‘۔ پھر نہ جانے القادری صاحب کی تاریںؔ کِس نے اور کیسے ہلائیں ؟ کہ ’’ 17 جنوری 2013ء کو وزیراعظم راجا پرویز اشرف کی طرف سے پاکستان پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ (ق)، ایم ۔ کیو ۔ ایم ، عوامی نیشنل پارٹی اور فاٹا کے با اختیار قائدین ’’ ڈی ۔ چوک‘‘ میں کھڑے القادری صاحب کے "Container"میں پہنچ گئے اور معاہدہ طے ہوگیا۔ 19 جنوری 2013ء کو میرے کالم کا عنوان تھا ’’ میثاق جمہوریت۔۔۔دو نمبر‘‘۔ علاّمہ القادری نے چار دِن تک ’’لانگ مارچ‘‘ کے شرکاء سے خطاب کرتے ہُوئے حکمرانوں کو بہت سی گالیاں دِیں، پھر 11 مئی 2013ء کے عام انتخابات سے خود دستبردار ہوگئے اور اپنے بیٹوں کو بھی دستبردار کرالِیا۔ اُس کے بعد میرے کالم کاعنوان تھا۔ ’’ Man Out of the Match"۔ فضل اُلرحمن صاحب کی سب بڑی ناکامی تو یہ ہے ک اُن کی فرمائش پر وزیراعظم عمران خان نے مستعفی ہونے سے انکار کردِیا ہے ۔ وہ ’’پشاور موڑ ‘‘ پر اپنے ساتھیوں ، کارکنوں یا الیکٹرانک میڈیا کے ناظرین کو حکومت پر تنقید کر اُن کی ’’دِل پشوری / دِل پشائوری ‘‘ کے لئے جو کہنا/ کرنا چاہیں اُنہیں کُھلی چھوٹ دے دِی گئی ہے ۔ بظاہر فضل اُلرحمن صاحب کے اتحادی ’’بیمارانِ سیاست ‘‘ میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری تو پہلے ہی اپنی اپنی ’’بھسوڑی ‘‘ ( نَسّ بَھج) میں پھسے ہُوئے ہیں ؟۔ معزز قارئین !۔ کچھ دِن تک سارے پاکستان میں ، حکومت کی طرف سے اور جوابِ آں غزل کے طور پر فضل اُلرحمن صاحب کی طرف سے الیکٹرانک میڈیا پر اپنے اپنے "Containers" دِکھائے جا رہے تھے تو، مَیں یہی سوچ رہا تھا کہ ’’ کیا واقعی قائداعظمؒ کے پاکستان میں "Containerization of The Politics?"۔ کا دَور آگیا ہے ؟۔ پھر کیا ہوگا؟۔ فی الحال میرے پاس اِس کا جواب نہیں ہے؟۔