مرحوم شورش کاشمیری کہا کرتے تھے کہ شرفا کے سینے رازوں کے دفینے ہوتے ہیں مگر آج کے شرفا کے سینے ’’سلگتے ہوئے رازوں‘‘ کے انگارے ہیں۔ میاں نوازشریف روز دھمکی دیتے ہیں کہ سدھر جائو ورنہ میں سب کچھ طشت ازبام کردوں گا۔ جو آدمی کئی دہائیوں سے اتنے اہم مراتب و مناصب پر فائز رہا یقینا اس کے پاس وہ معلومات ہوں گی جو میرے اور آپ کے پاس نہیں۔ ویسے میاں صاحب اور ان کے نئے نورتنوں کی مہربانی سے اس ملک میں اب کوئی راز، راز نہیں۔ میاں صاحب کی اس وقت جو حالت ہے اسے دیکھ کر یہ شعر یاد آتا ہے۔ دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے میاں صاحب کی حالت اس وقت ایک ایسے پریشر ککر کی سی ہے جس کا سیفٹی والو بھی انہوں نے اپنے ہاتھوں سے بند کر رکھا ہے۔ ایسے پریشر ککر کا جو حال ہوتا ہے اس سے اللہ تعالیٰ میاں صاحب کو بھی محفوظ رکھے اور ہمارے وطن پاکستان کو بھی محفوظ رکھے۔ بریگیڈیئر صدیق سالک نے ’’پریشر ککر‘‘ کے عنوان سے ایک ناول لکھا تھا جس میں ایک ایسے انسان کی داستان غم کا تذکرہ ہے جو ہر طرف سے مایوس ہو چکا تھا۔ ایسی مایوسی سے اللہ ہر کسی کو بچائے کیونکہ بقول اسداللہ غالب منحصر مرنے پہ ہو جس کی امید ناامیدی اس کی دیکھا چاہیے سوال یہ ہے کہ میاں صاحب اتنے ناامید کیوں ہو گئے ہیں اور وہ ایسے خودکش ردعمل کا مظاہرہ کیوں کر رہے ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ میاں صاحب اور ان کا خاندان سیاست میں بے نام اور تجارت میں برائے نام تھا مگر ان کے والد گرامی میاں شریف کی دانشمندی اور ہنرمندی سے میاں صاحب یکایک گمنامی کی دنیا سے نکل کر سیاست میں نامور ہوتے چلے گئے جس ’’خلائی مخلوق‘‘ کو میاں صاحب آج کل رات دن دھمکیاں دیتے اور انہیں سدھر جانے کی تلقین کرتے ہیں وہی خلائی مخلوق میاں صاحب کو میدان سیاست میں لائی اور پھر وہ آسمان سیاست پر جگمگانے لگے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ میاں صاحب اس نعمت خداوندی پرزیادہ سے زیادہ اللہ کا شکر ادا کرتے اور اللہ نے بار بار واضح کردیا کہ اس کا شکر ادا کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اس کی مخلوق کی زیادہ سے زیادہ خدمت کی جائے مگر میاں صاحب نے یہ سمجھا کہ وہ اور ان کا خاندان خدا کا منتخب کردہ ہے۔ ان کا طرز حکمرانی یہ تھا کہ فوج پر ان کا استحقاق ہے، بیوروکریسی ان کی ذاتی خدمتگار ہے، پولیس ان کے گھر کی لونڈی ہے، عدلیہ ان کے اشارہ ابرو کی منتظر ہے اور جہاں تک عوام کا تعلق ہے انہیں معصومیت سے بہلائو پھسلائو اور اپنے دام فریب میں لائو۔ 35 برس میں عوام کی زندگی میں کوئی جوہری بہتری نہیں آئی۔ میاں صاحب اور ان کے خاندان نے یہ سمجھا کہ اس ملک کی ساری تجارت ان کی ہے، اس ملک کی ساری زمینیں ان کی ہیں، اس ملک کی ساری دولت ان کی ہے، ساری شہرت ان کی ہے، ساری سیاست پر ان کا مکمل استحقاق ہے۔ اب جھوٹ، مکر، فریب اور دلفریب معصومیت سے تعمیر کردہ یہ تخت و تاج لرزتے ہوئے محسوس ہورہے ہیں تو میاں صاحب سب کچھ بھسم کردینے پر تل گئے ہیں مگر یقین رکھئے کہ وہ ایسا ہرگز نہیں کریں گے کیونکہ میاں صاحب دیوانے نہیں ہیں وہ صرف دیوانگی کی اداکاری کر رہے ہیں۔ سپریم کورٹ سے لے کر احتساب عدالت تک سب کا سوال بڑا سیدھا سادہ اور دو ٹوک ہے۔ جناب ماڈل ٹائون لاہور کا گھر آپ کا ہے؟ جی ہمارا ہے، جناب جاتی عمرہ کا طویل و عریض فارم ہائوس آپ کا ہے؟ جی ہمارا ہے، جناب ڈونگا مکی اور مری کے دلفریب نظاروں میں گھرے کئی دولت کدے آپ کے ہیں؟ جی ہمارے ہیں، جناب ایون فیلڈ لندن کے اربوں مالیت کے فلیٹ آپ کے ہیں؟ اس کا جواب ہاں یا ناں میں دینے کی بجائے میاں صاحب نے سارے ملک میں ایک طوفان اٹھا دینے کا فیصلہ کیا۔ اس سوال کا جواب اس لیے نہیں دینا کہ اس سے جمہوریت کو شدید خطرات لاحق ہو جائیں گے۔ اس سوال کا جواب اس لیے نہیں دینا کہ اس سے خلائی مخلوق کے انتخابات میں جیت جانے کے امکانات بہت بڑھ جائیں گے۔ میاں صاحب اور ان کی صاحبزادی اور صاحبزادوں نے اس سوال کے مختلف اوقات میں جو جوابات دیئے تھے وہ باہم متضاد اور متصادم تھے۔ نیب کے تفتیشی افسر عمران ڈوگر نے برطانوی دستاویزات کی بنیاد پر دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کردیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تحقیقات سے ثابت ہوتا ہے کہ نوازشریف عوامی عہدہ رکھتے ہوئے لندن فلیٹس کے مالک تھے اور انہوں نے نیلسن اور نیسکول لمیٹڈ کے ذریعے بے نامی دار کے نام پر فلیٹس خریدے۔ مریم نواز کی ٹرسٹ ڈیڈ جعلی ہے۔ گزشتہ کئی روز سے نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث پانی میں مدہانی ڈال کے بیٹھے ہوئے اور گواہ سے لامتناہی غیر متعلقہ سوالات کئے جا رہے ہیں تاکہ مقدمہ طول کھینچے۔ آنکھیں بدل لینا، نگاہیں پھیر لینا، محسنوں کو بھول جانا اور یوں معصوم بن جانا جیسے باتیں ان کے بارے میں نہیں کسی اور کے بارے میں کی جا رہی ہوں، میاں صاحب کا یہ رویہ ان کا طرز حیات بھی ہے اور طرز سیاست بھی۔ آج کل انہوں نے اور ان کی صاحبزادی مریم نواز نے جس خلائی مخلوق کے خلاف توپوں کے دہانے کھول رکھے ہیں، وہی خلائی مخلوق انہیں گمنامی کی دنیا سے اٹھا کر مسند اقتدار پر لائی اور ایک موقع پر اسی خلائی مخلوق کے ایک سپہ سالار نے یہ تک کہہ دیا کہ نوازشریف کا کلہ بہت مضبوط ہے اورانہیں میری عمر بھی لگ جائے۔ اسی مرحوم محسن کو وہ اور ان کی صاحبزادی آمریت کے طعنے دیتے نہیں تھکتے۔ آسمانوں پر جنرل ضیاء الحق یہ تبصرے سنتے ہوں گے اور اکثر یہ حسب حال شعر ذرا سے تصرف کے ساتھ الاپتے ہوں گے۔ آشنا طرز تکلم سے جسے ہم نے کیا اس حلیف بے زباں کی گرم گفتاری بھی دیکھ اس خلائی مخلوق نے ایک باز نہیں بارہا میاں صاحب کے لیے اقتدار کا راستہ ہموار کیا ہے ، آج اگر وہ ’’خلائی مخلوق‘‘ بالکل غیر جانبدار ہو گئی ہے، اسی طرح عدلیہ بھی عدل و انصاف کے تقاضوں سے سرموانحراف کرنے پر آمادہ نہیں اور نیب بھی کسی سے کوئی ڈکٹیشن لینے پر تیار نہیں تو یہی وہ قانون کی عمل داری اور آئین کی پاسداری ہے جس نے نوازشریف صاحب کی نیندیں اڑا رکھی ہیں۔ میاں صاحب کا کمال یہ ہے کہ بنا بنایا اقتدار ان کے حوالے کیا گیا۔ اللہ نے انہیں عوامی مقبولیت کی نعمت عطا کی مگر میاں صاحب نے کسی نعمت کی قدر نہیں کی۔ غریب پہلے سے بڑھ کر غریب ہو چکا ہے، اس کے بچے اچھے سکولوں میں جانا تو خیر ناممکن وہ زیور تعلیم سے محروم ہیں۔ اڑھائی تین کروڑ بچے سکول نہیں جاتے، ایسے ہزاروں والدین میرے علم میں ہیں جو اپنے بچوں کے علاج کے لیے سود در سود قرضہ لینے پر مجبور ہوئے۔ 80 فیصد کو پینے کا صاف پانی نہیں ملتا۔ بے روزگاری عروج پر ہے، حکمرانوں اور ان کے بچوں کی دولت بے حد و حساب ہے۔ میاں صاحب کی کسی زمانے میں یہ شہرت تھی کہ وہ غیر شائستہ زبان استعمال نہیں کرتے۔ کسی کو گالی دیتے ہیں نہ کسی کی تضحیک کرتے ہیں مگر مقام افسوس ہے کہ میاں صاحب ان صفات سے بھی تہی دست ہو چکے۔ بعض اوقات اس دنیا میں ہی مکافات عمل کا منظر دکھا دیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کو چند ماہ قبل لاہور کے ایک جلسے میں کرنٹ لگا تو وہ گھبرا کر اٹھ کھڑے ہوئے۔ میاں نوازشریف نے سٹیج پر کھڑے ہو کر ڈاکٹر صاحب کی بدحواسی اور گھبراہٹ کا مذاق اڑایا اور لوگوں کو ہنسایا۔ تھوڑا عرصہ پہلے میاں نوازشریف کو ایک ناخوشگوار واقعے کا اچانک سامنا کرنا پڑا اور ان کا قدرتی ردعمل بھی اسی گھبراہٹ کا تھا جو ڈاکٹر طاہرالقادری کا تھا۔ پاکستان میں جس نے بھی قانونی جنگ کو سیاسی انداز میں لڑنے کی کوشش کی اس نے نقصان اٹھایا۔ مسلسل تین ساڑھے تین عشروں سے کسی نہ کسی رنگ میں برسراقتدار رہنے کے بعد میاں صاحب سے متانت، سنجیدگی، سمجھداری، دانشمندی، فہم و فراست اور تدبر کی امید کی جاتی ہے۔ میاں صاحب کبھی گوشہ تنہائی میں بیٹھ کر اپنے رویوں کا جائزہ لیں انہیں معلوم ہو جائے گا کہ وہ کیا سے کیا ہو گئے ہیں۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ میاں صاحب ’’دیوانگی‘‘ میں کہاں تک جائیں گے؟ جان لیجئے میاں صاحب وہ دیوانے ہیں کہ جو بکار خویش ہشیار باش ہیں۔ میاں صاحب ’’دیوانگی‘‘ نہیں، محض دیوانگی کی اداکاری کر رہے ہیں۔