ترقی معکوس کی ترکیب تو آپ نے سن رکھی ہوگی۔ اس کا مطلب ہے الٹی ترقی یعنی تنزل۔ لیکن ہم لفظ تنزل کے استعمال سے پرہیز کرتے ہیں کیونکہ اس لفظ میں ذلت پوشیدہ ہے۔ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ لفظوں کی مدد سے گھٹیا چیز کا ذکربھی یوں کریں کہ تاثر بڑھیا چیز کا ملے۔ اسے انگریزی میں EUPHEMISM کہتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے سننے والے کو شاک (Shock) سے اور خود کو دھوکے میں رکھنے کے لیے کسی بدصورت چیز کو ممکن حد تک خوبصورت یا کم از کم قابل قبول لفظ سے پکارا جائے۔ ایسا انداز سخت چیز کی ناگواری کو دور رکھنے کے لیے اختیار کیا جاتا ہے۔ منافقت قدرے سخت لفظ ہے لیکن یہ بھی ایک نوع کی منافقت ہی ہے۔ زبان کا یہ استعمال اور سٹائل وقتی طور پر تو مفید ہوتا ہے کہ ماحول کی تلخی کم ہو جاتی ہے اور کڑوی چیز کو شوگر کوٹ کر کے نکلنا آسان ہو جاتا ہے اور انسانی تعلقات اور ماحول میں بدمزگی پیدا نہیں ہوتی۔ اب میں روزمرہ زندگی سے EUPHEMISM کی ایک دلچسپ مثال پیش کرتا ہوں۔ امید ہے کہ آپ لطف اندوز ہوں گے۔ اس کے کردار فرضی نہیں۔ پنچاب کے ایک شہر کے ایک انتخابی حلقے میں بلدیاتی انتخابات ہوئے۔ پانچ چھ کے قریب امیدوار الیکشن میں حصہ لے رہے تھے لیکن اصل مقابلہ رانا اور چوہدری کے درمیان تھا۔ رانا صاحب کا تعلق مسلم لیگ ن اور چوہدری صاحب کا تعلق تحریک انصاف سے تھا۔ یہ دونوں حضرات شہر کے معززین میں گردانے جاتے تھے۔ ان کے مشترکہ دوستوں کی تعداد بھی اچھی خاصی تھی۔ دونوں خاندانوں کے تعلقات بھی خوشگوار تھے۔ الیکشن مہم کے دوران البتہ کچھ مخاصمت کی فضا پیدا ہوئی۔ ایک دوسرے کی کمزوریوں کو بھی اچھالا گیا لیکن تہذیب کے دائرے میں رہ کر۔ دونوں امیدوار اس خیال کے حامی تھے کہ الیکشن تو آنی جانی چیز ہے۔ الیکشن کی وجہ سے برسوں پرانے تعلقات پر آنچ نہیں آنی چاہیے۔ چنانچہ الیکشن مہم بڑی پرامن رہی۔ ایک میلے کا سماں تھا۔ لوگ لطف اندوز ہورہے تھے۔ مقررہ تاریخ پر الیکشن ہوئے۔ ووٹنگ کا مرحلہ بخیر و خوبی طے پا گیا۔ صورت حال خوشگوار رہی۔ دونوں امیدواروں کے سپورٹرز آفس میں خوش گپیاں کرتے رہے۔ ہلکے پھلکے طنزومزاح نے ماحول کو خوشگوار بنائے رکھا۔ دونوں امیدواروں کی گاڑیاں بلاامتیاز ووٹرز کو گھروں سے پولنگ سٹیشنز پر لاتی رہیں۔ رانا کے سپورٹر چوہدری کی گاڑیوں میں اور چوہدریوں کے سپورٹرز رانا کی گاڑیوں میں آتے رہے۔ اسے جمہوریت کا حسن کہا جا سکتا ہے۔ پولنگ کا وقت ختم ہونے پر ووٹوں کی گنتی شروع ہوئی۔ دونوں امیدواروں نے اپنے سپورٹرز کو سختی سے کہہ رکھا تھا کہ نتیجے کے اعلان کے بعد کسی قسم کا ہلہ غلہ نہیں کرنا۔ ہارنے والے امیدوار کی تضحیک نہیں کرنی اور سیاسی رواداری اور برداشت کا ثبوت دینا ہے۔ رات گئے نتیجے کا اعلان ہوا۔ مسلم لیگ ن کے امیدوار چند سو ووٹوں کی معمولی اکثریت سے جیت گئے۔ رانا کے سپورٹرز نے ایک جلوس نکالا لیکن شائستگی کی حدود کے اندر رہ کر۔ جب فتح کا ہنگامہ قدرے کم ہوا تو چوہدری صاحب اپنے چند سپورٹرز کے ہمراہ مٹھائی کا ٹوکرا لے کر رانا صاحب کے گھر پہنچے۔ رانا صاحب نے ان کا استقبال یوں کیا جسے برات کا استقبال کیا جاتا ہے۔ سب کو کوٹھی کے وسیع لان میں کرسیوں پر بٹھا دیا گیا۔ سب یوں گھل مل گئے گویا ایک ہی برادری کے رکن ہوں۔ رانا صاحب اور چوہدری ایک صفے پر بیٹھے یوں باتیں کر رہے تھے جیسے نئے نئے سمدھی باتیں کرتے ہیں۔ جب مٹھائی اور مشروبات سے سب کی تواضح ہو چکی تو اعلان ہوا کہ دونوں امیدوار باری باری حاضرین سے خطاب فرمائیں گے۔ سب نے یہ سن کر تالیاں بجائیں اور چوہدری صاحب تقریر کے لیے اٹھے۔ (نوٹ: معزز قارئین! اب میں چوہدری صاحب کے ہر جملے کا مفہوم آگے بریکٹ میں لکھ دوں گا تاکہ آپ EUPHEMISM کی ایک مزیدار مثال سے لطف اندوز ہو سکیں۔) لان کے سامنے والے کمرے میں خواتین بھی تشریف فرما تھیں۔ جن کی موجودگی میں چوہدری صاحب نے آتے ہی نوٹ کرلی تھی۔ لیجئے تقریر سنیے۔ معزز خواتین و حضرات السلام علیکم۔ سیاست اپنی جگہ‘ ہم سب کی اس جگہ موجودگی ظاہر کرتی ہے کہ ہم سب ایک ہی شہر کے باسی ہیں۔ ہمارا اتحاد مثالی ہے اور ہم سب مل کر عوام کی خدمت کریں گے۔ (عوام گئے جہنم میں۔ سب جانتے ہیں کہ مسلم لیگ ن کرپشن کا دوسرا نام ہے۔ پھر بھی انہوں نے رانا کو جتوا دیا۔ کوئی بات نہیں رانا کے سپورٹرز اور ووٹرز کو ایسا سبق پڑھائوں گا کہ یاد رکھیں گے۔) الیکشن میں ہار جیت کوئی نئی بات نہیں۔ رانا صاحب میرے بھائی ہیں۔ ان کی جیت میری جیت ہے۔ مجھے الیکشن ہارنے کا کوئی افسوس نہیں۔ (الیکشن میں ہار جیت ہی اصل چیز ہے۔ غضب خدا کا۔ پندرہ بیس لاکھ روپے مٹی میں مل گئے۔ سوچا تھا یہ رقم انویسٹ کر کے دوگنی بلکہ تگنی بنالوں گاالیکشن افسوس! سب منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے۔رانا جیت گیا۔ کیسی شیطانی مسکراہٹ اس کے چہرے پر کھل رہی ہے۔ کوئی بات نہیں بچو۔ الیکشن پھر بھی ہونے ہیں۔ دیکھ لوں گا۔ تجھے اور تیرے حامیوں کو۔ یہ سب کرپٹ‘ ان کا لیڈر سب سے بڑا کرپٹ۔ اللہ جانے بے وقوف عوام کو یہ بات کیوں سمجھ میں نہیں آتی۔ پیسہ چلا ہے پیسہ) ہمارا مقصد عوام کی خدمت ہے۔ یہ خدمت رانا کرے یا چوہدری ایک ہی بات ہے۔ ہم دونوں ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ ہم یک جان دو قالب نہیں۔(ہمارا مقصد عوام کی خدمت نہیں‘ حجامت ہے۔ ٹکے ٹکے کے لوگوں کے گھر جانا اور ووٹ کی بھیک مانگنا آسان کام نہیں ہے۔ بدبودار لوگوں کو گلے لگانا پڑتا ہے۔ ہم لوگ اتنی مصیبتیں کیوں مول لیتے ہیں۔ صاف بات ہے پیسے کی خاطر۔ اپنے بچوں کے مستقبل کو محفوظ کرنے کے لیے۔ نون لیگیوں کو دیکھ لو۔ کروڑ پتی‘ ارب پتی اس لیے کہ حکومت کے ہر منصوبے میں ان کی پتی ہوتی ہے۔ خیر کوئی بات نہیں۔ آج تم کل ہماری باری ہے۔) میں تہہ دل سے رانا صاحب کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ (میں تین لفظ بھیجتا ہوں اس منحوس انسان پر۔ میرے سامنے بیٹھا میرے سینے پر مونگ دل رہا ہے۔ خیر‘ کوئی بات نہیں۔ میرا وقت بھی آئے گا۔ ناکوں چنے نہ چبوا دیئے تو چوہدری نام نہیں) میں اس موقع پر اپنے سپورٹرز کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے دن رات کام کیا۔ میں ان عظیم سپورٹرز سے کہنا چاہتا ہوں کہ جی چھوٹا نہ کریں۔ آپ نے اپنا فرض تندہی سے نبھایا۔ اللہ ہر امیدوار کو آپ جیسے سپورٹرز دے۔ (ان حرام خوروں سے تو میں اب نبٹوں گا۔ میرے لاکھوں ہضم کر گئے۔ دکھاوے کی بھاگ دوڑ کرتے رہے۔ مختلف حیلے بہانوں سے پیسے ٹھگتے رہے۔ بے ایمان کہیں کے۔ مجھے تو لگتا ہے کہ کوئی ایک تو دونوں طرف سے کھاتے رہے۔ اندر خانے رانا سے بھی ملتے رہے۔ سمجھ میں نہیں آتا۔ عمران خان یہاں بہت پاپولر ہے۔ نوازشریف بدنام ہے۔ ن لیگ والے خود تسلیم کرتے ہیں کہ ان کا لیڈر ڈاکو ہے۔ پھر بھی ووٹ اس کو مل جاتے ہیں۔)