نومبر 2018میں حکومتی عہدے پر فائز انتہائی ملنسار شخصیت نے ملاقات کیلئے مدعوکیا۔مجھ سے ملاقات کی وجہ انکے ماتحت سرکاری ادارے سے متعلق روزنامہ 92میں شائع ہونیوالی میر ی خبر تھی ۔ وہ اس خبر کی تردید کے بجائے متعلقہ اقدام کا پس منظر اور قومی مفادبیان کر نا چاہتے تھے۔ ملاقات کے دوران قومی مفاد اور وجوہات بیان کرنے کے بعد انہوں نے دستاویز اور خبرکے ’’سورس‘‘کا نام پوچھ لیا۔ نام ظاہر کرنے پر میری معذرت کے بعد انہوں نے ممکنہ ناخوشگوار نتائج پرروشنی ڈالتے ہوئے سورس کا نام ظاہر کرنے پر اصرار شروع کردیا۔ ملاقات چونکہ ابھی تک خوشگوار اندازمیں جاری تھی ۔صورتحال کی نزاکت اور تلخی بھانپتے ہوئے میں نے ایک سوال پوچھ لیا ۔ سوال پوچھنے کا مقصد انہیں خبراور دستاویز کے سورس کا نام ظاہر کرنے کے اصرار سے پیچھے ہٹانا مقصود تھا۔ آپ ایک انتہائی ذہین‘اعلیٰ تعلیم یافتہ اور سماجی روایات کے امین ہونے کے باوجود اپوزیشن ارکان کیلئے پارلیمنٹ ہاؤس‘پریس کانفرنسز‘میڈیا ٹاکس اور کرنٹ افیئرز پروگرام میں جو لب ولہجہ اختیار کرتے ہیں وہ آپکی شخصیت اور خاندانی وقار کے قطعی مطابقت نہیں رکھتا۔آپ ایک اہم وزارت کا قلمدان رکھنے کے باوجود حکومتی رکن کے بجائے اپوزیشن رکن ہونے کا ثبوت کیوں دیتے ہیں؟آپکے الفاظ کے چُناؤاور انداز بیان پر آپکے حلقہ احباب میں موجود ہرفرد ندامت محسوس کرتا ہے۔کیا آپ کسی مجبوری کے باعث یہ سب کچھ کرتے ہیں یا آپکی شخصیت کے اس پہلو سے ہم سب پہلے ناواقف تھے ؟ موصوف نے اپنا موبائل فون اٹھایا اورمشہور برانڈ کی کرسی کا رخ انتہائی تیزی کیساتھ میری طرف موڑدیا۔ واٹس ایپ اوپن کیا اور کہا یہ پڑھ لیں۔چیٹ میں درج تھا"Hit them hard"۔میں نے اس میسج کی وجہ پوچھی تو کہنے لگے ’’مانیٹرنگ سخت ہے۔ دودن تک اپوزیشن کیساتھ سلجھے ہوئے اندارمیں بات کی جائے توپھر باس کی جانب سے یہ میسج ملتا ہے کہ Hit them hard۔میرے چہرے پر چھائی حیرانی اور تجسس کو بھانپتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اچھا اب چھوڑ یں اس معاملے کو ۔ مجھے اندازہ ہے اب آپ خبر نکالنے کی کوشش کریں گے۔میں نے آپکے سوال کا جواب بھی دیدیا اور اپنا سورس بھی ظاہر کردیا۔ اب لازم ہے کہ مجھے اپنی خبر اور دستاویز کا سورس بتاؤ۔ میں نے ایک لمحے کے توقف کے بعد کہاکہ آپ کی مانیٹرنگ اور ٹریننگ بہت سخت ہے۔سورس کا نام جاننے کے بعدجیسے ہی میں آپکے آفس سے روانہ ہوں گا تو آپ نے اپنے ماتحت ادارے کے سربراہ کوفوراً فون کر نا ہے Hit him hard اور رپور ٹ پیش کرو۔انہوں نے بلند قہقہہ لگایا اور میں نے اسی دوران کمرے سے نکلنے میں عافیت جانی۔ منگل کے روز طویل عرصے بعد پارلیمنٹ ہاؤس جانے کا فیصلہ کیا تاکہ ایک متوازن بجٹ پراپوزیشن کی تجاویز اور سیاسی صورتحال کی کچھ جانکاری حاصل کی جاسکے۔ مگر بجٹ سیشن کے دوران وہ افسوسناک اور تکلیف دہ مناظر دیکھنے کو ملے جو کبھی میرے وہم وگمان میں بھی نہ تھے۔ بجٹ سیشن میں اپوزیشن کا شورشرابا‘احتجاج اور نعرے ایک روایتی عمل ضرور رہا مگرغلیظ گالیاں اپنے عوامی نمائندوں کے منہ سے نکلیں گی‘کبھی ایسا تصور نہیںکرسکتا تھا۔ پارلیمنٹ کی عزت اورتقدس کا ایسا جنازہ 16سال کے دوران پہلی مرتبہ دیکھا۔پارلیمنٹ میں ’’مفاد باہمی ‘‘ کیلئے جب بھی قانون سازی ہوئی تمام ارکان نے ایسے شرکت کی جیسے پاکستان میں ون پارٹی سسٹم نافذ ہو۔ ایسے مواقع پر کبھی گالم گلوچ ہوئی‘ سیٹیاں بجیں ‘دست وگریباں ہوئے اور نہ ہی کبھی غلیظ گالیوں کا استعمال ہوا۔ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی تقریر کے دوران ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے وزیراعظم عمران خان کی قومی اسمبلی میں پہلی تقریر کے دوران اپوزیشن ارکان کے شورشرابے اور نعروں سے وزیراعظم کی دل شکنی کا غم پی ٹی آئی ارکان میںآج دوبارہ تازہ ہوگیا ہے۔ جیسے نومبر 2018سے جاری Hit them hard کی پالیسی پر آج بھی حکومتی ارکان دل وجان سے عمل پیرا ہیں۔ دوسری جانب 92نیوز کی خبر پر نیپرا نے سنٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی کی جانب سے دو آئی پی پیز اے ای ایس لعل پیر اور پاک جن کے معاہدوں میں ترمیم کا نوٹس لیتے ہوئے متعلقہ اداروں سے جواب طلب کرلیا ہے۔ سابق ایم ڈی نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپییچ کمپنی ڈاکٹر خواجہ رفعت نے معاہدہ میں ترمیم کو خلاف ضابطہ اورعوام پر 15ارب روپے سالانہ بوجھ قرار دیا تھا جبکہ سنٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی نے قومی خزانے کو 19ارب روپے کی بچت کا دعویٰ کیا ۔ ابتدائی تحقیقات کے دوران ہوشربا انکشافات سامنے آرہے ہیں۔ سابق ایم ڈی این ٹی ڈی سی ڈاکٹر خواجہ رفعت نے بطور سی پی پی اے بورڈ ممبر معاہدوں میں ترمیم کی سمری پر دستخط کئے ۔ڈاکٹر خواجہ رفعت اور دیگر بورڈ ممبران کی منظوری کے بعد سی پی پی اے کو دونوں آئی پی پیز کیساتھ معاہدوں میں ترمیم کا قانونی راستہ مل گیا۔ اگرچہ سی پی پی اے نے معاہدے میں ترمیم سے قبل نیشنل پاور کنٹرول سنٹر کی سسٹم پر ٹیکنیکل اثرات کی رپورٹ موصول ہونے کے بعد تمام سٹیک ہولڈرز کیساتھ مطلوبہ قانونی اور مالی مشاورت نہیں کی۔ سابق جنرل منیجر سسٹم آپریشن محمد ایوب نے صرف آپریشنل کمنٹس دئیے جبکہ پاور پرچیز ایگریمنٹ میں ترمیم سے کبھی اتفاق نہیں کیا۔ جی ایم ایس او نے تمام سٹیک ہولڈرز کیساتھ بھرپورمشاورت کی سفارش کی تھی مگر بدقسمتی کیساتھ جنرل منیجر محمد ایوب کی اہم ترین سفارش کو سی پی پی اے نے نظر انداز کیا۔ آپریشنل کمنٹس سے قبل خودمختار کنسلٹنٹ سے سٹڈی بھی کروائی گئی تھی۔ سی پی پی اے نے اب وفاقی حکومت کی منظوری کے بغیر معاہدوں میں ترمیم کو وسیع تر قومی مفاد سے جوڑ دیا ہے ۔ماضی میں این ٹی ڈی سی افسران نے آئی پی پیز مالکان کو نوازنے کی ہر حد عبور کئے رکھی مگر اب شاید وقت قدرے بدل رہا ہے۔ یہ سب کچھ وسیع ترقومی مفاد میں ہوا یا آئی پی پیز کے مفاد میں۔حتمی فیصلہ نیپراکرے گی۔