معزز قارئین!۔18 اگست 2018ء کو جنابِ عمران خان نے وزارتِ عظمیٰ کا حلف اُٹھایا تو پاکستان کے 60 فی صد مفلوک اُلحال عوام کو بہت خُوشی ہُوئی اور اُنہیں تصّور میں ’’ ریاستِ مدینہ جدید‘‘ کا وعدہ وفا ہوتا نظر آیا ۔ پھر اُنہوں نے ’’پاکستان تحریک انصاف‘‘ اور اُس کی اتحادی جماعتوں سے بہت سی امیدیں وابستہ کرلیں ۔ میرے دوست ’’ شاعرِ سیاست‘‘ تو پھولے نہیں سما رہے تھے ۔ اُنہوں نے کہا کہ ’’ جس طرح ریاست مدؔینہ میں انصارِ مدؔینہ نے اپنی آدھی دولت مہاجرین ؔمکّہ میں بانٹ دِی تھی، اُسی طرح ’’پاکستان تحریک انصاف ‘‘ اور اُس کی اتحادی جماعتوؔں کے خوشحال لوگ بھی اپنی ، اپنی آدھی دولت، مفلوک اُلحال لوگوں میں بانٹ دیں گے ‘‘۔ نظم کی صورت میں ’’ شاعرِ سیاست‘‘ نے ’’ ریاست ِ مدینہ جدید‘‘ کا نقشہ یوں کھینچا تھا / ہے … اِس حکومت نے ، سُنایا ، مُژدۂ فصلِ بہار! مِلّت غُرباء کی خُوشحالی ، کے وعدے بے شمار! خُود بخود گِر جائیں گے، سارے کرپشن کے ستُون! بس دیانت اور امانت پر، ہی ہوگا اِنحصار! ڈاکوئوں اور چوروں کا ،مِٹ جائے گا نام و نشاں! اور دہشت گرد بھی ،ہوں گے نہ ہر گز کامگار! وقف کردیں گے ، سبھی دولت ، غریبوں کے لئے! ہوں گے انصارِ مدؔینہ کی طرح سرمایہ دار! قوم ؔاور خاص طور پر ملک کے 60 ؔفی صد عوام بہت ہی خُوش تھے لیکن ، وزیراعظم عمران خان کے ذاتی دوست، ’’پاکستان تحریکِ انصاف ‘‘کی ہائی کمان کے بانی رُکن حضرت علی مرتضیٰ ؑ اور حضرت عُمر بن الخطاب ؓکے صفاتی ناموں والے جناب اسدؔ ، عُمرؔ مفلوک اُلحال عوام کے لئے کچھ نہیں کرسکے تو، جنابِ وزیراعظم اُن کی جگہ "I.M.F" (International Monetary Fund) کے ایک سابق ملازم ( ماہرمعاشیات ) امریکہ اور پاکستان کی ’’دُہری شہریت‘‘ کے حامل ،جناب عبداُلحفیظ شیخ کو ( فی الحال) مشیر خزانہ بنا دِیا۔ اگر کامیاب رہے تو ،جنابِ وزیراعظم شیخ صاحب کو کسی ضمنی انتخاب میں قومی / سینٹ کا رُکن منتخب کرا کے باقاعدہ وزیر خزانہ بھی بنا دیں گے؟۔ معزز قارئین!۔ اُن دِنوں جناب سابق چیف جسٹس جناب ناصر اُلملک پاکستان کے نگران وزیراعظم تھے جب، وزارتِ خزانہ کی نج کاری (Privatization) کے عنوان سے 18 جولائی 2018ء کو شائع ہونے والے اپنے کالم میں میں نے لکھا تھا کہ ’’ مَیں نے میاں نواز شریف کی وزارتِ عظمیٰ کے تیسرے دَور میں 26 فروری 2015ء کو ’’ نوائے وقت ‘‘ میں گورنر شِپ اور وفاقی و صوبائی وزارتوں کی نج کاری‘‘ سے اپنے کالم میں تجویز کِیا تھا اور اب مَیں نئے سرے سے تجویز کر رہا ہُوں کہ ’’ پاکستان میں منتخب حکومت ہو یا نگران ، ’’نجکاری ‘‘ (Privatization) کے تحت صوبائی گورنرز ، وفاقی اور صوبائی وزراء کو کیوں نہ ’’ قرض اُتارو !، مُلک سنوارو!‘‘ کا نعرہ لگا کر اُن کے عہدوں کی نجکاری کردِی جائے؟۔ کم از کم وفاقی اور صوبائی وزارت ہائے خزانہ کی ؟ اور ہاں ! اگر وفاقی یا صوبائی وزارتِ خزانہ کے لئے امیدواروں کی تعداد زیادہ ہو ، تو قُرعہ اندازؔی کے ذریعے فیصلہ کِیا جاسکتا ہے ‘‘۔ مَیں نے لکھا تھا کہ مجھے یقین ہے کہ ’’ بغیر تنخواہ کے کام کرنے والے وفاقی یا صوبائی وزیر خزانہ تو "Uncle Dollar "کے نخرے ہر گز برداشت نہیں کریں گے ا‘‘ اوردُور ہی سے ’’ انکل ڈالر‘‘ کو دیکھ کر اُسے اُستاد سوؔز لکھنوی کا یہ شعر سُنا کر رُخصت کر دیں گے کہ … پڑا ہوگا، کسی کونے میں جا، پہچان کر لے لے! تجھے دِل دے کہ مَیں نے تو، تیرا نخرا ،نکالا تھا! …O… معزز قارئین!۔ مجھے خُوشی ہے کہ ’’ وزیراعظم عمران خان نے ،جزوی طور پر یا پہلے قدم کے طور پر ۔ جناب عبداُلحفیظ شیخ کو ( پیدائش کے لحاظ سے ) ’’ مادرِ وطن‘‘ پاکستان کی خدمت کا موقع تو دِیا ؟۔ اپنا ریکارڈ درست رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ ’’ جب بھارت نے ستمبر 1965ء میں ’’مادرِ وطن‘‘ پاکستان کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کِیا تھا تو میرا لکھا ہُوا ’’مِلّی ترانہ‘‘ ریڈیو پاکستان سے نشر ہوا تھا ۔ مِلّی ترانے کا مطلع اور دو بند یوں تھے / ہیں … زُہرہ نگاروں، سِینہ فگاروں کی خیر ہو! اے مادرِ وطن ، ترے پیاروں کی خیر ہو! …O… دُنیا میں بے مثال ہیں ، اربابِ فن ترے! ہر بار فتح یاب ہُوئے ، صَف شکن ترے! شاہ راہِ حق کے ،شاہ سواروں کی خیر ہو! اے مادرِ وطن ، ترے پیاروں کی خیر ہو! …O… پھیلے ہُوئے ہیں ، ہر سُو، وفائوں کے سِلسلے! مائوں کی پُر خُلوص دُعائوں کے سِلسلے! مضبوط ، پائیدار ، سہاروں کی خیر ہو! اے مادرِ وطن ، ترے پیاروں کی خیر ہو! …O… لیکن، معزز قارئین!۔ اِس سے ثابت ہُوا کہ میں ،جناب عبداُلحفیظ شیخ کی طرح ماہر معاشیات تو نہیں ہُوں لیکن، جناب شیخ صاحب بھی میری طرح شاعر نہیں ہیں اور مجھے تو’’ مفسر نظریۂ پاکستان‘‘ جناب مجید نظامی نے ’’ شاعرِ نظریۂ پاکستان‘‘ کا خطاب بھی دِیا تھا۔ ایک اور بات مَیں مشرقی ( اب بھارتی ) پنجاب میں پیدا ہُوا ، تحریکِ پاکستان کے دَوران سِکھوں کی ریاست نابھہ ؔاور پٹیالہ ؔاور ضلع امرتسر ؔمیں میرے خاندان کے 26 افراد (زیادہ تر ) حملہ آور سِکھوں سے لڑتے ہُوئے شہید ہُوئے تھے ، جناب عبداُلحفیظ شیخ سندھ کے ایک چھوٹے سے گائوں ’’ چار پائی‘‘ میں پیدا ہُوئے تھے اور وہاں 1947ء میں کسی بھی مسلمانوں کے ہاتھوں کوئی ہندو یا سکھ نہیں مارا گیا ۔ معزز قارئین!۔ پاکستان میں ’’فوجی آمریت ہو یا جمہوریت ‘‘ ۔ پاکستان کا وزیر خزانہ ، امریکہ کے دو اہم اداروں "I.M.F" اور ’’ عالمی بنک‘‘(World Bank) کے ماتحت بلکہ دست نگر ہوتا ہے ۔ جب بھی اُن دونوں اداروں سے ہمارے وزیر خزانہ کے مذاکرات کامیاب ہو جاتے ہیں تو’’ قومی بجٹ‘‘ کے نفاذ ، اُس سے پہلے یا بعد میں پاکستان میں مہنگائی کا سیلاب آ جاتا ہے ۔ اِس سیلاب سے اونچے محلاّت کے لوگ تو محفوظ رہتے ہیں لیکن، چھوٹے گھروں یا کچی بستیوں کے غریب غُرباء بہہ جاتے ہیں ۔ تازہ ترین خبروں کے مطابق ’’ حکومت پاکستان کا 'I.M.F" سے معاہدہ ہوگیا ہے ۔ ’’ آئی ۔ ایم ۔ ایف‘‘ پاکستان کو 6 ارب ڈالر قرض دے گا ‘‘۔ ماہرین معیشت کا تجزیہ ہے کہ ’’ ریاست ِ مدینہ جدید‘‘ کے علمبرداروں کو قوم پر 500 ، ارب کے نئے ٹیکس لگانا ہوں گے ‘‘۔ بجلی اور گیس مہنگی ہوگی تو قوم کا بالائی طبقہ تو "Mind" نہیں کرے گا لیکن، مفلوک اُلحال لوگ تو اللہ تعالیٰ سے یہی دُعا کریں گے کہ ’’ یا ربّ اُلعالمین !۔ آسمانوں سے حضرت عیسیٰ ؑ کا جلد نزول فرمائیں ‘‘لیکن ، ہمارے عُلماء نے تو یہ بھی کہا ہے کہ ’’ جب ’’کانا دجّال ‘‘40 دِن، 40 مہینے یا 40 سال تک دُنیا پر حکومت کر لے گا تو، پھر حضرت عیسیٰ ؑ اُسے ختم کر کے اپنی حکومت قائم کریں گے‘‘ ۔ معزز قارئین!۔ کیا ، کہیں کسی مُلک میں کانا دجّال حکمران بن کر آ تو ،نہیں گیا؟۔ مَیں نہیں جانتا؟ ۔ بہرحال ’’ آئی۔ ایم ۔ ایف‘‘ اور ’’ عالمی بنک‘‘ کے ذریعے دُنیا کے غیر ترقی یافتہ / پسماندہ ملکوں کا اقتصادی نظام تو Uncle Sam" ہی چلا رہے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ’’ اِن ملکوں کے حکمران (یا حکمرانی کے خواہشمند ) انکل سام ہی سے دُعائیں مانگتے ہیں۔ اُن کی ترجمانی کرتے ہُوئے ’’ شاعرِ سیاست‘‘ کی نظم کے دو بند پیش خدمت ہیں … دِل دے کعبے چ، لات منات نیں، کون ا ینہاں نُوں توڑے! مَینوں وِی تے ، چاہیدے نَیں ، اشرفیاں دے توڑے! …O… اُچّی کُرسی تے مَیں بیٹھاں ، ٹی وی تے ،کراں تقریریاں! کدی کدائیں، انکل سامؔ ، جے مَیں وَل ،واگاں موڑے! معزز قارئین!۔ مَیں تصّور میں دیکھ رہا ہُوں کہ جب بھی "I.M.F" کا کوئی با اختیار اعلیٰ افسر، پاکستان یا کسی دوسرے ضرورت مند ملک کے وزیر خزانہ کی زبانی یا تحریری درخواست کا ملاحظہ کر رہا ہوتا ہے تو"I.M.F" کا نمائندہ اُسے یہ کہہ رہا ہوتا ہے کہ"I Am F -- What You Are?" ۔ براہِ مہربانی "F" سے "Father" (باپ ) نہ سمجھیں ۔ "Fortune"(قسمت)سمجھیں!۔