جنگ سے تباہ حال ملبے پر کھڑی ہوئی‘ وہ عالمی طاقتوں سے سوال کرتی ہے۔ وہ رو رہی ہے۔ صرف آنکھیں نہیں۔ اس کے چہرے کے سب خدوخال آنسوئوں میں پگھلتے ہیں۔اس کا پورا وجود آنسوئوں میں ڈھلا ہے۔ اسے دیکھ کر لگتا ہے کہ پوری دنیا پر‘ وہی ایک رندھا ہوا چہرہ،رندھا ہوا لہجہ،چھا گیا ہے۔ وہ پوچھتی ہے میں صرف دس برس کی ہوں۔ کیوں تم نے میرے سارے خواب بارود میں جلا دیے۔ میرا بچپن‘ میزائل‘ بارود اور آگ میں جلنے کا حقدار نہیں تھا۔ کیوں تم نے میرے بچپن کے کچے برتن میں صدیوں کی اذیت انڈیل دی۔ میں اپنی سرزمین پر اپنے گھر میں کس قدر اجنبی ہو گئی ہوں۔! بمباری کی خوفناک آوازیں مجھے سونے نہیں دیتی۔ ہاں کبھی آنکھ لگ جائے تو آگ اور بارود کے وحشت ناک خواب میری روح کو لہولہان کر دیتے ہیں۔ میں آنکھ کھولوں تو اپنے وجود کو ملبے کے ڈھیر پر دیکھتی ہوں۔ میں اس ملبے پر کھڑی تم سے سوال کرتی ہوں کہ ایک پرامن زندگی جینے کا حق مجھے کیوں نہیں۔؟ کیوں میرے گھر کو ملبے کے ڈھیر میں بدلا۔؟ اس کی جلی ہوئی اینٹوں کے نیچے کہیں میرا بستہ پڑا ہے۔ میرے کھلونے پڑے ہیں۔ جانتے ہو کہ میں صرف دس برس کی ہوں اور ابھی میرا بچپن بیتا نہیں۔میں کیسے اس ملبے کے نیچے سے اپنی کتابیں بستہ اور کھلونا نکالوں۔؟مجھے ابھی بہت پڑھنا تھا۔ میں اپنے لوگوں کی مدد کرنا چاہتی ہوں، ڈاکٹر بن کر ایک مسیحا بن کر ان کے زخموں پر مرہم رکھنا چاہتی ہوں۔کیونکہ میرے لوگ بہت تکلیف میں ہیں۔ ان کے وجود زخم زخم ہیں۔ میں ڈاکٹر بن کر ان زخموں پر مرہم لگانا چاہتی تھی۔ مگر اب میں کیا کروں۔میرے اردگرد کچھ بھی سلامت نہیں یہ ملبے کا ڈھیر۔ یہ جلی ہوئی عمارتیں۔ ملبے کے نیچے دبی ہوئی بچوں کی لاشیں۔لہولہان زخمی بچے اور بڑے اس ادھڑی ہوئی، جلی ہوئی ،روندی ہوئی زندگی کو میں کیسے ٹھیک کروں۔میں صرف دس برس کی ہوں۔! کیا تم جانتے بھی ہو، کہ دس برس کا ہونا کیا ہوتا ہے۔ ابھی تو میں بچپنے کی دہلیز پر کھڑی ہوں، میں ابھی اتنی بڑی نہیں ہوئی کہ عالمی طاقتوں کی سازشیں خباثتیں اور سیاستیں سمجھ سکوں۔ میں تو بس اتنا جانتی ہوں کہ ایک تحفظ بھری‘امن سے ہمکنا زندگی ہر بچے کا بنیادی حق ہے۔ میں تو بس اتنا جانتی ہوں کہ دس برس کی عمر میں آسمان پر اڑتے ہوئے پرندے اچھے لگتے ہیں آسمان پر اڑتے جنگی طیاروں کو دیکھنا اچھا نہیں لگتا۔ وحشت کا آسیب بچوں کے معصوم دلوں کو کچل کے رکھ دیتا ہے۔ میں دس برس کی عمر میں اگر یہ سب جانتی ہوں تو تم کیوں نہیں جانتے۔؟ کیوںمیرے گھر ،سکول ،ہسپتالوں اور گلیوں پر بم برساتے ہو؟ تم کیوں میرا امن برباد کرتے ہو؟ کیوں تم اپنی جنگی حکمت عملیوں کی خفیہ مجلسوں میں میری موت کی پلاننگ کرتے ہو حالانکہ میں تو صرف دس برس کی ہوں؟ میں نے تمہارا کیا بگاڑا کہ تم نے مجھے امن کی بجائے جنگ اور وحشت کی سزا دی! گھر کی بجائے ملبے کا ڈھیر اور مسکراہٹوں کی جگہ آنسو اور آہیں دیں؟ میری روح کو عمر بھر کے زخم دیے اور میرے دل کو ایک لامتناہی خوف سے بھر دیا۔؟ آدم خوری کا یہ خباثت بھرا لبادہ اتار کر ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر بتائو۔ کیا میں اس اذیت اور اس کرب کی حق دار تھی؟ تمہارے بچے امن کے حق دار ہیں تو میں کیوں نہیں؟ وہ تحفظ کی دبیز پناہ گاہوں میں اپنی دل پسند چاکلیٹ کھاتے ہوئے‘ اپنے پسندیدہ کھلونوں سے کھیل رہے ہیں اور میں یہاں تمہارے میزائلوں سے تباہ ہونے والے گھر کے ملبے پر کھڑی سوچ رہی ہوں کہ میں کیسے اس ملبے کو Fix کروں کیسے اس کے نیچے سے اپنے کھلونے اپنا بستہ تلاش کروں۔This is unfairہاں یہ ناانصافی ہے۔ ٭٭٭ فلسطین کی جنگ گزیدہ سرزمین سے دس سالہ نادین عبدل طیف کی یہ دلخراش پکار دل کو بے طرح بوجھل کرتی ہے۔ ’’آئی ایم اونلی ٹن‘‘ ظلم کے خلاف انصاف کے لئے آواز بلند کرنے کا استعارہ بن گیا ہے۔ حسن اتفاق سے مالٹا سے تعلق رکھنے والی دس سالہ جارجا بورگ برطانیہ میں ہونے والے بچوں کے سانگ کمپیٹشن میں انہی الفاظ کے ساتھ سامعین کے دلوں میں اترتی ہے۔ اس کے لکھے ہوئے گیت کا کچھ حصہ ایسا ہے جہاں وہ فلسطین کی جنگ گزیدہ بچی نادین عبدل طیف کے الفاظ میں اپنا سُر ملا رہی ہوں۔ When i speak Do you even hear a word i say; or does it not matter in that way? because I am only ten I still need you to feel me I need you to portect me I need you to guide me home because, i am only ten !!