پاکستانی سیاست میں یہ اصطلاح بھٹو صاحب کے دور میں آئی تھی ۔اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کے موجد وہ خود تھے۔جب مارچ1977ء کی قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے پاکستان قومی اتحاد کی تحریک کا سرپرست امریکہ بہادر کو قرار دیا تھا۔ سرکاری ٹی وی پر براہ راست خطاب کرتے ہوئے امریکی سفارت خانے کے دو افسران کی گفتگو کا حوالہ دیا ۔جس میں ایک امریکی افسر ،دوسرے افسر سے پر جوش لہجے میں کہہ رہا تھا کہ "Party is over, party is over"

بھٹو صاحب نے قومی اسمبلی میں اپنے ڈیسک پر زوردار مکہ مارتے ہوئے کہا تھا، "party is not over"

’’کوئی اندرونی اور بیرونی طاقت عوام کی پارٹی کو ختم نہیں کر سکتی‘‘

قومی اسمبلی میں بیٹھے پی پی کے ارکان اسمبلی نے دونوں ہاتھوں سے ڈیسک بجا بجا کر قومی اسمبلی کے ہال کو سر پہ اٹھا لیا۔ 

سیاست اور تاریخ کے طالب علم کی حیثیت سے برسہا برس سے میں اس سوال کا ایسا احسن جواب نہیں پاتا کہ کیا واقعی بھٹو صاحب جیسا ذہین و فطین ،بین الاقومی سیاست کا نباض، تیسری دنیا کا پاپولر رہنما جولائی کی رات تک اس بات سے بے خبر رہے کہ اگلے دن نہ صرف ان کے اقتدار کا سورج ہی نہیں ڈوبنے والا بلکہ ان کے مخالفین کے انتقام کی پیاس صرف اُن کے خون سے بجھے گی۔بھٹو صاحب کے بعد ان کی صاحبزادی بے نظیر بھٹو کو ایک بار پھر پارٹی زندہ کرنے کا موقع ملا ۔مگر وہ بھی اس خوش فہمی کا شکار ر ہیں کہ امریکہ سمیت اسٹیبلشمنٹ کو افغان جنگ کی نازک گھڑی میں ان کی ضرورت ہے۔ سو ،وہ اس بات سے بے خبر رہیں کہ ان کے شہید والد کے قاتل انہیں بھی زندہ نہیں چھوڑیں گے۔معذرت کے ساتھ آج بھٹو کی پارٹی اوور ہوچکی ہے۔جبکہ زرداری صاحب کی پارٹی ہچکیاں لے رہی ہے۔کوئی معجزہ ہی بلاول بھٹو زرداری کی صدارت میں پیپلز پارٹی کو 2022ء کے الیکشن تک سیاسی میدان میں کھڑا رکھ سکتا ہے۔مگر سیاست میں اب معجزے بھی ہونے لگے ہیں ۔ایسے ہی جیسے ’’مریم نواز‘‘۔۔۔ ایک قطعی غیر سیاسی، فکری ،نظری مباحث سے نا آشنا۔ مگر بہر حال یہ بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ اپنی والدہ کی ناگہانی وفات اور والد کی جیل یاترہ کے بعد پنجاب کی سب سے بڑی پارٹی کی وہ ایک مقبول ترین قائد کی حیثیت سے ابھری ہیں۔ پاکستان کی سات دہائی کی سیاسی تاریخ پر نظر ڈالیں۔بانی ِ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی جماعت اُن کی آنکھ بند ہوتے ہی بکھرنا شروع ہوگئی تھی۔بہت تفصیل میں نہیں جاؤں گا مگر بانی ِ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے آخری سیاسی وارث سردار عبد الرب نشتر جب مسلم لیگ کے سربراہ بنے تو انگریز کے ایک پروردہ بیوروکریٹ اسکندر مرزا نے راتوں رات مسلم لیگ کا تختہ الٹ کر ری پبلکن پارٹی کی صورت میں نہ صرف ایک ملک گیر جماعت کی بنیاد رکھ دی ،بلکہ اسے مہینوں نہیں دنوں میں ملک کا والی وارث بھی بنا دیا۔جنرل ایوب خان جب اکتوبر 1958ء میں مارشل لاء لگا کر سیاسی جماعتوں کی بساط لپیٹ رہے تھے تو کسی کی نکسیر بھی نہیں پھوٹی۔پوری ایک دہائی ہمارے جنرل ایوب خان نے بڑے ٹھاٹ سے حکومت چلائی ۔بٹوں اور بوٹ کی بنیاد پر ہی سہی مگر بھٹو صاحب کی پیپلز پارٹی تو بچے کھچے پاکستان میں کروڑوں عوام کے دلوں میں دھڑکتی تھی۔سال دو سال میں ہی جس طرح وہ اپنے انجام کی طرف بڑھ رہی تھی اس میں 5جولائی 1977ء کو جنرل ضیاء الحق کا مارشل لاء کوئی بہت غیر متوقع نہیںتھا۔مزاحمت تو درکنار ،بھٹو حکومت کے خاتمے پر مٹھائیاں تقسیم کی گئیں۔اور پھر ایک بار تاریخ نے اپنے آپ کو دہرایا کہ جنرل ایوب خان کے مقابلے میں مردِ مومن ،مردِ حق جنرل ضیاء الحق نے زیادہ ٹھاٹ باٹ سے حکومت کی۔نوے کی دہائی میںدونوں مین اسٹریم جماعتوں نے جمہوریت کے ساتھ جو شرمناک کھیل کھیلا وہ shame democracyہی کہلائے گا۔زیادہ تفصیل میں نہیں جارہا ۔اسی کالم میں اس موضوع کو سمیٹنا چاہتا ہوں۔کہ تین دہائی تک ایک نہیں ،دو نہیں ،تین بار حکومت کر نے والی دونوں جماعتوں کا جس طرح ہمارے کپتان نے دھڑن تختہ کیا،بہر حال اس کا کریڈٹ تو تحریک انصاف کے قائدوزیر اعظم عمران خان کو جائے گا ہی کہ 2002ء اور 2008ء میں جب خان صاحب بڑی مشکل سے اپنی آبائی قومی اسمبلی کی نشست بچا پائے تھے تو دونوں مین اسٹریم جماعتوں یعنی ن لیگ اور پی پی نے ان پر نواب زادہ نصراللہ خان کی ٹانگہ پارٹی کی تہمت دھرنی شروع کردی تھی۔مئی 2013کے الیکشن میں بہر حال تحریک انصاف خاص طور پر پنجاب میں دوسری بڑی پارٹی بن کر ابھری ۔مئی 2013ء کے الیکشن سے دو دن پہلے جس حادثے سے عمران خان دوچار ہوئے ،اس وقت اسپتال کے بیڈ پر تھے۔یقینا یہ ایک متنازعہ الیکشن تھے جس میں ساری جماعتوں نے ہی دہائیاں دیں اور پھر سال بھر بعد جب خان صاحب کی صحت بحال ہوئی اور انہوں نے اسلام آبادمیں دھرنے کی کال دی تو اسے زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا گیا مگر،جس بڑے پیمانے پر اسلام آباد کا گھیراؤ ہوا، اگر واقعی امپائر ان کے ساتھ ہوتا تو شریف حکومت کا اقتدار 2016ء میں ہی لپٹ چکا ہوتا۔ جولائی2018ء کے الیکشن کے آتے آتے جب electablesکی بھی پی ٹی آئی میں لائن لگ گئی، تو انتخابی نتائج اتنے غیر متوقع نہ تھے ۔اس بارے میں آج بھی تمام سروے اور رائے عامہ متفق ہیں کہ پی ٹی آئی اپنی کمزوریوں اور خامیوں  خاص طور پر bad governanceاور incompetentٹیم کے سبب وہ سب کچھ دس ماہ میں ڈلیور نہ کرسکی جس کی توقع کی جارہی تھی ۔مگر اس سے قطعی یہ نتیجہ اخذ نہیں کیا جاسکتا کہ عوام کی اکثریت ایک بار پھر ’’بار بار باری‘‘ والی ن لیگ اور پی پی کو ترجیح دے رہی ہے۔مسئلہ حکومت کی کارکردگی اور کارگزاری کا نہیں۔پارٹی کا ہے۔جوجولائی 2018ء کے بعد سے پس منظر میں چلی گئی ہے۔ پی ٹی آئی کا سیاسی کردار اگر مستقبل میں overہوگیا تو یہ خان صاحب کی نہیں،اس قوم کی بدقسمتی ہوگی کہ آج ستّر سال بعد وہی امید کی آخری کرن رہ گئے ہیں۔پی ٹی آئی اگر Overتو پھر اللہ اور خلائی مخلوق ہی اس ملک کی مالک ۔