مارچ 1977ء کے الیکشن میں دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کے بعد جب قائد عوام ذوالفقار علی بھٹونے سرکاری ٹی وی پر اپنی کرسی پر زور دار ہاتھ مارتے ہوئے کہا تھا کہ ’’میری کرسی مضبوط ہے،Party is not over۔تو اس وقت اپوزیشن اتحاد پی این اے کے مستقل حامیوں سے سارے ملک کے شہر دہل رہے تھے۔پی این اے کی بھٹو مخالف تحریک میں اندرون سے زیادہ بیرون ملک خاص طور پر امریکہ بہادر نے خاص طور پر سی آئی اے کے ذریعے کھلی مارکیٹ میں کس طرح بڑے پیمانے پر ڈالروں کے ڈھیر لگادئیے۔اس پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔مگر حقیقت یہ ہے کہ اپنے اقتدار کی پہلی مدت پوری کرنے کے بعد جس دھاندلی زدہ الیکشن کے ذریعہ وہ جب دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہوئے تو اس وقت 70کے جیالوں کی پیپلز پارٹی واقعی overہوچکی تھی۔اور یہ ہونی بھی تھی کہ اس دوران محاورے کی زبان میں پلوں کے نیچے سے ایک دریا نہیں سمندر بہہ چکا تھا۔70کی دہائی کی کابینہ ،وزرائے اعلیٰ ،گونروں ،معاونوں اور مشیرانِ خاص ۔۔۔جے اے رحیم ،میاں محمود علی قصوری ،ڈاکٹر مبشر حسن ،معراج محمد خان ،مختار رانا،حنیف رامے ،غلام مصطفی کھر ،عبدالحمید جتوئی،تالپور برادران جیسے پارٹی کے لئے خون پسینہ بہانے والوں کی جگہ ۔۔۔7سال بعد معذرت کے ساتھ کہ اکثر مرحوم ہوچکے ہیں۔مولانا کوثر نیازی ،نواب صادق قریشی ،کمال اظفر،مسعود محمود ،حیات محمد ٹمن،یٰسین وٹو وغیرہ جیسے ۔۔۔ایک بار پھر معذرت کے ساتھ ،موقعہ پرست ،چاپلوس ،اُن کی آنکھ ،ناک ،کان بن چکے تھے۔سو کروڑوں عوام کے دلوں میں دھڑکنے والی پارٹی کو توoverہونا ہی تھا۔بدقسمتی سے 22سال تک نئے پاکستان کا خواب دکھانے والے پی ٹی آئی کے سربراہ، وزیر اعظم عمران خان پر یہ وقت سال گزارنے سے پہلے ہی آگیا۔جولائی 2018ء کے الیکشن سے تین دن قبل جب کراچی ائیر پورٹ سے میں محترم عمران خان کی گاڑی میں ان کی انتخابی مہم سے پہلے آخری انٹرویو لے رہا تھا تو انہوں نے اپنے مخصوص ،مضبوط لہجے میں کہا۔’’بڑی مضبوط ٹیم میدان میں اتار رہاہوں۔میں نے بڑی محنت سے پارٹی کو منظم کیا ہے۔دیکھنا سالوں نہیں،مہینوں میں نتائج سامنے آسکیں گے۔‘‘مستند نہیں،اس لئے اس پر مزید کچھ کہنے سے گریز کرنا چاہئے۔18اگست کو وزیر اعظم عمران خان کی پہلی تقریر واقعی بڑی پُر اثر اور دل کو چھو جانے والی تھی۔صدر ِ مملکت کی حیثیت سے ڈاکٹر عارف علوی ،سندھ عمران اسماعیل اور پنجاب محمد سرورکا انتخاب میرٹ پر ہی تھا۔وزارت خارجہ کیلئے شاہ محمود قریشی ،وزارت ِ اطلاعات کیلئے فواد چوہدری اور وزارت خزانہ کے لئے اسد عمر بجا طور پر اس کے مستحق تھے کہ کئی برسوں سے پارٹی میں یہ ان امور کو دیکھ رہے تھے۔پہلی کابینہ کے وزیر وں اور مشیروں کی تعداد کیوں کے مختصر رکھی گئی تھی ۔اس لئے اسے ایک مثبت قدم ہی قرار دیا ۔ملک کی معاشی صورتحال جس بحران سے دوچار تھی ۔اس کے لئے عوام کا فوری رد عمل منفی اس لئے نہیں تھا کہ ’’عوام ‘‘ماضی کی زرداریوں اور شریفوں کے کرپشن اور ان کے وزیر وں ،مشیروں کی لوٹ مار کے سبب بڑی سے بڑی ’’گولی‘‘ نگلنے کیلئے تیار تھے۔تحریک انصاف کے ووٹروں اور حامیوں کو 100دن کا انتظار اس لئے بھی تھا کہ اس کا دعوی ٰ خود وزیر اعظم عمران اور ان کی ٹیم اس کی صورت میں کررہی تھی۔100دنوں کے اندر صورتحال معاشی طور پر اس نہج پر پہنچے گی اور حکومت کے اندر اتنی تیزی سے ٹوٹ پھوٹ ہوگی۔ یہ پریشان کن معاملہ اس لئے بھی تھا کہ اگر ’’پی ٹی آئی‘‘کی حکومت بھی ماضی کا مداوا نہ کرسکے گی تو پھر کیا خلائی مخلوق کے آنے دن گنے جائیں ۔مگر ہاں ،معذرت کے ساتھ میں ایک بڑا فیکٹر نظر انداز کر گیا ۔جولائی 2018ء کے الیکشن سے پہلے ایک بڑی تبدیلی آچکی تھی۔پارٹی کے اندر برسوں سے ما ر کھانے والے نوجوانوں کے لئے روایتی گھرانوں کے امیرزادوں کو کاندھوں پر اٹھا کر بھنگڑا ڈالنا اتنا آسان نہ تھا۔مگر ان electiblesامیرزادوں کو تحریک انصاف کی اصلی تہ وڈی فورس یعنی نوجوانوں کی یوں بھی ضرورت نہیں تھی کہ وہ اور ان کے آبا واجداد کی انتخابات میںکامیابی کی کنجی تو ان کی اپنی خاندانی اور وراثتی رعایا تھی۔سو ہمارے وزیر اعظم عمران خان کی پہلی کابینہ میں ہی ان وفاقی وزیروں اورمشیروں کا غلبہ دیکھا گیا ہے ،جنہوں نے ماضی کی سویلین اور ملٹری حکومتوںکے گھاٹ کا پیٹ بھر کر دودھ اور شہد پیا تھا۔ یہ لیجئے،حوالہ حاضر ہے: 1مخدوم خسرو بختیار۔1997ء میں رکن صوبائی اسمبلی مسلم لیگ ن۔ 2002ء میں رکن قومی اسمبلی مسلم لیگ ق۔2004-7ء میں وفاق وزیر ،پرویز مشرف حکومت ۔2013ء رکن قومی اسمبلی آزاد۔2018ء وفاقی وزیر برائے قدرتی وسائل و مواصلات۔2علی محمد خان مہر۔1993ء رکن قومی اسمبلی ن لیگ ۔1997ء رکن اسمبلی پی پی پی ۔2002ء رکن قومی اسمبلی آزاد۔2008ء رکن قومی اسمبلی آزاد۔2013ء رکن قومی اسمبلی پی پی پی 2018ئآزاد۔ 3عمر ایوب خان۔ 2002ء رکن قومی اسمبلی ن لیگ ۔2013ء ہار گئے۔2018ء وفاقی وزیر بجلی پانی پی ٹی آئی۔ 4صاحبزادہ محبوب سلطان ۔2002ء رکن قومی اسمبلی ق لیگ۔2008ق لیگ۔2013ء ن لیگ سے ہار گئے۔2018ء رکن قومی اسمبلی تحریک انصاف۔5حماد اظہر۔ق لیگ کے سربراہ ۔میاں اظہر کے صاحبزادے ۔وزیر مملکت وزیر برائے ریونیو 6ملک محمد امین ۔2002ء وفاقی وزیر ق لیگ ۔2013ئاور 2008ء میں ہار گئے۔2018ء وزیر ماحولیات کے مشیر۔7میاں محمد سومرو۔1986ئمسلم لیگ ۔2003ء سینیٹر ق لیگ ۔1993ء پی پی ۔2008ء نگراں وزیراعظم۔2018ء وفاقی وزیر8اعظم سواتی۔2003ئسینیٹر جمعیت علمائے اسلام۔2003ئسینیٹر جمعیت اسلام ۔9چوہدری طارق چیمہ۔1990ئپی پی پی ۔1993ء پی پی پی ۔2004,2013,2018ء ق لیگ(مخلوط حکومت کے سبب وزیر ہاؤسنگ)10ڈاکٹر فہمیدہ مرزا۔1997ئسے 2013ئتک رکن اسمبلی پی پی۔2018ئجی ڈی وفاقی وزیر۔11زبیدہ جلال ۔2002ء ق لیگ۔2013ء ن لیگ۔2018ء وفاقی وزیر صفحہ تمام ہوا،اور مدعا باقی ہے بنی گالہ کے سارے دوست تو نوکر یوں سے لگے ہی ۔باقی بھی کون آیا کون گیا۔اسے آئندہ کے لئے اٹھا رکھتا ہوں۔(جاری ہے)