11ستمبر 2012ء کو ورک پلیس پر ہونے والی تاریخ کی ہولناک دہشت گردی کراچی میں‘ بلدیہ ٹائون کی گارمنٹس فیکٹری میں ہوئی۔ 260کام کرنے والے ورکروں کو زندہ جلا دیا گیا۔ اس سے بھی بڑا سانحہ یہ ہوا کہ علی انٹر پرائز کی گارمنٹس فیکٹری کو جن نامعلوم افراد نے آگ لگائی تھی انہی نامعلوم افراد نے اس سانحے کا سوگ منایا اور تعزیتی ریفرنس کے لئے کالے جھنڈے لہرائے اور متاثرین کو انصاف دلانے کے لئے ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا۔یہ نامعلوم افراد اپنے نام شناخت اور عہدے سمیت سب اہل اختیار سے لے کر عوام تک کو معلوم ہوتے ہیں لیکن یہ ایف آئی آرز۔ اخباری خبروں پریس کانفرنسوں اور تمام دفتری فائلوں کی لکھت پڑھت میں نامعلوم افراد ہی رہتے ہیں۔ عقیل عباس جعفری جو اسی شہر آشوب کے باسی ہیں جہاں ان نامعلوم افراد کی کارستانیاں برسوں اس شہر کے رہنے والوں پر قیامت ڈھاتی رہی ہیں اسی عقیل عباس جعفری نے لکھا تھا کہ پہلے میرے گھر کے اندر مجھ کو قتل کریں اور پھر میرا سوگ منائیں نامعلوم افراد پہلے شہر کو آگ لگائیں نامعلوم افراد اور پھر امن کے نغمے گائیں نامعلوم افراد جب سانحہ ہوتا ہے تو ان کی شناخت اور نام پتے جاننے کے باوجود انہیں نامعلوم افراد قرار دے دیا جاتا ہے اور یہی سانحہ بلدیہ ٹائون میں ہوا اور پھر جب حادثے کے متاثرین کے زخموں پر وقت کی گرد جم جاتی ہے تو جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم کی رپورٹ قاتلوں اور ظالموں کے نام بے نقاب کرتی ہے۔ حادثے کے ساتھ آٹھ سالوں کے بعد وہ حقائق سامنے لے آئے جو پورا شہر پہلے سے جانتا تھا کہ بلدیہ ٹائون کی فیکٹری میں آگ کوئی اتفاقی حادثہ نہیں ہے۔ جیتے جاگتے 260انسانوں کو زندہ جلا دینا ان ہی کا کارنامہ ہے۔ جو اس شہر میں برسوں قتل و غارت کا بازار گرم کئے رہے۔ بوری بند لاشیں‘ بھتہ خوری زمینوں پر قبضے‘ چائنا کٹنگ‘یہ سب اسی پریشر گروپ کا کام ہے جو ایک سیاسی جماعت کا روپ دھارے اور سیاستدانوں کا لبادہ پہنے ہوئے‘ ہر حکومت کا حصہ ہوتی ہے طاقت دھونس اور دھاندلی سے ہر حکومت سے اپنا حصہ کسی بھتے کی طرح وصول کرتی ہے۔ بلدیہ ٹائون پر بننے والے جے آئی ٹی کی تحقیقاتی رپورٹ میں جو سال ہا سال کی تحقیق کے بعد منظر عام پر آیا کیا وہ ہمارے لئے کوئی انکشاف ہے۔؟اپنے دل سے پوچھ کر بتائیں کہ اس جے آئی ٹی رپورٹ میں ہمارے پولیس سسٹم میں موجود جن بڑی خامیوں کی نشاندہی کی گئی ہے کیا یہ واقعی کوئی ہوشربا قسم کی تحقیق ہے۔؟کون نہیں جانتا کہ سال ہا سال سے سیاسی جماعتوں کی کھینچا تانی نے اس شہر کی خوبصورتی اور امن کو گرہن لگایا۔ ان سیاسی جماعتوں نے امن نافذ کرنے والے اداروں کو سیاست سے آلودہ کیا۔ پولیس افسران کو اپنا لے پالک بنایا اور قانون نافذ کرنے والے اہلکار اور افسران سیاسی جماعتوں کے گماشتے بنے رہے اور پھر جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے کا کھیل برسوں اس شہر میں کھیلا جاتا رہا۔ مفاد پرستی کی جنگ زمینوں پر قبضوں اور بھتہ خوری سے لے کر ہر قسم کی حرام خوری تک صرف قانون نافذ کرنے والے ادارے نہیں۔ بلکہ پورے کا پورا سسٹم سیاستدانوں کے روپ میں موجود ان ظالموں کی دہلیز پر پڑا رہا۔ پورا سسٹم ایک موم کی ناک کہ جدھر چاہو جیسے چاہو موڑ لو۔! مجھے اس JITکی تحقیقاتی رپورٹ میں یہ پڑھ کر قطعاً حیرت نہیں ہوئی کہ جب ظالموں نے کارخانے کے سینکڑوں مزدوروں کو اندر بند کر کے آگ لگا دی تو انسانی تاریخ کے اس بھیانک ظلم کو پولیس کی ایف آئی آر میں محض ایک حادثہ لکھا گیا۔ اصل حقائق چھپائے گئے۔بھتہ خوری کا پریشر فیکٹری مالکان پر جولائی 2012ء سے مسلسل بڑھ رہا تھا اور ایم کیو ایم کے کارندوں نے ایک شام فیکٹری کے مالک کو روک کر ایم کیو ایم کے سیکٹر انچارج حماد صدیقی کا پیغام پہنچایا تھا کہ عافیت چاہتے ہو تو 25کروڑ کا بھتہ دو اور ساتھ ہی گارمنٹس کے اس کاروبار میں شراکت داری بھی۔ اس دھمکی سے پہلے اور بعد میں بھی کئی دھمکیاں دی گئیں۔ مطالبات پورے نہ ہوئے تو ایم کیو ایم کے ورکروں نے اس فیکٹری کو آگ لگا دی۔ کیا ہوا کہ 260زندہ انسان اندر جل کر مر گئے۔ بھتہ دینے سے انکار پر بھائی نے سبق تو خوب چکھایا اور یہ کوئی نیا یا انوکھا طرز عمل تھوڑی تھا۔ ’’بھائی‘‘ ہمیشہ سے ہی انکار کرنے والوں کے ساتھ ایسا ہی عبرت ناک سلوک کرتا تھا۔ ایم کیو ایم کا عشرت العباد‘ اس وقت گورنر ہائوس میں موجود تھا۔ سو گورنر کو اس سانحے پر تعزیتی بیان جاری کرنا پڑے شہر میں تین دن سوگ کا اعلان ہوا۔ سیاہ جھنڈے لگائے گئے۔ آنکھیں نوچ کر شہر میں چراغ بانٹنا ہی تو ان کا طرز سیاست تھا۔ اتنے برسوں کے بعد جے آئی ٹی رپورٹ وہ سچ سامنے لے کر آئی ہے جو پتہ پتہ بوٹا بوٹا ۔پہلے سے جانتا تھا۔کیا اس جے آئی ٹی کی تحقیقات اور سفارشات کی بنیاد پر ہمارے پولیس نظام میں کوئی تبدیلی آئے گی۔؟کیا نامزد ملزمان کو عبرتناک سزا ہو گی کیا اس گھنائونے جرم کے اصل سرغنہ تک پاکستان کے قانونی اداروں کے ہاتھ پہنچ پائیں گے۔؟یہ سب مشکل اور پیچیدہ سوال ہیں۔ ایسا ان معاشروں میں ہو سکتا ہے جہاں واقعی قانون انصاف اور سچ کی حکمرانی ہو۔ لیکن ہمارے جیسے معاشروں میں جہاں چور اور چوکیدار محافظ اور ظالم قاتل اور مسیحا میں فرق کرنا مشکل ہو وہاں 27صفحات کی ایسی جے آئی ٹی رپورٹیں کچھ دن میڈیا پر چھائی رہتی ہیں۔ بحث و مباحثے کا حصہ بنتی ہیں اور پھر بھلا دی جاتی ہیں۔ ویسے بھی اس جے آئی ٹی رپورٹ میں کون سا کوئی نیا انکشاف ہے۔