معزز قارئین!۔ انتخابات میں جیتنے کے لئے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا پاکستان اور اہلِ پاکستان کے خلاف جنون بڑھتا جا رہا ہے ۔ بھارتی فوج اور فضائیہ کی طرف سے ’’جنگ بندی کی لکیر ‘‘ (Line of Control) کی خلاف ورزی کے نتیجے میں "Self Decence" کے لئے پاکستان کی بری فوج اور فضائیہ کو بھی میدان میں اُترنا پڑا۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ (آئی۔ ایس۔ پی ۔ آر) کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور نے کل میڈیا سے خطاب کرتے ہُوئے کہا کہ ’’ آج صبح پاک فضائیہ نے اپنی حدود میں رہتے ہُوئے ’’لائن آف کنٹرول ‘‘ کے پار مقبوضہ کشمیر میں 6 اہداف کا انتخاب کِیا کیونکہ بھارت نے ہم پر جارحیت کی اور ’’ لائن آف کنٹرول‘‘ کی خلاف ورزی کی اور دعویٰ کِیا کہ مبینہ دہشت گردوںکا ٹھکانہ تباہ کِیا اور 350 دہشت گردوں کو مار گرایا‘‘۔ میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ ’’ بھارتی دراندازی کی کوشش کے بعد اُس کا جواب دینے کے علاوہ کوئی چارا نہیں تھا ۔ پاکستان کی مسلح افواج کے پاس صلاحیت بھی ہے اور جذبہ بھی ۔ جب کہ عوام کا ساتھ اور ہر قسم کے وسائل موجود ہیں لیکن، ہم ذمہ دار ریاست ہیں اور امن چاہتے ہیں ‘‘ ۔پاک فوج کے ترجمان نے کہا کہ ’’ پاک فضائیہ نے بھارتی ائیر فورس کے دو طیاروں کو پاکستانی فضائی حدود کی خلاف ورزی کے بعد گرا لِیا۔ ایک طیارے کا ملبہ پاکستانی حدود میں اور دوسرا بھارت کی طرف جا گرا‘‘۔ ترجمان نے یہ بھی بتایا کہ ’’ پاکستانی فورسز نے دو بھارتی "Pilots" کو اپنی تحویل میں لے لِیا ۔ ایک زخمی پائلٹ کو علاج کے لئے "C.M.H" میں داخل کرادِیا گیا ہے ‘‘۔ میجر جنرل آصف غفور نے بھارت کے اِس دعوے کو غلط قرار دِیا کہ ’’اُس کی فضائیہ نے پاکستان کا ایک طیارہ "F-16" گرا لِیا ہے ‘‘ ۔ اُس کا یہ دعویٰ سراسر غلط ہے کیوں کہ ’’آپریشن میں پاک فضائیہ نے اِس طرح کا کوئی طیارہ استعمال ہی نہیں کِیا‘‘۔ معزز قارئین!۔ 14 فروری کو بھارت کے مقبوضہ کشمیر کے علاقہ پلوامہ میں سینٹرل ریزرو پولیس فورس کی بس پر حملے میں 44 پیراملٹری اہلکار ہوگئے تھے اور بھارت کی جانب سے اُس حملے کا ذمہ دار پاکستان کو قرار دِیا گیا تھا جبکہ پاکستان نے ان الزامات کی تردید کردِی تھی۔ اِس پر وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت قومی سلامتی کمیٹی کے ہنگامی اجلاس میں بھارتی دعوئوں کو مسترد کرتے ہُوئے کہا گیاتھا کہ ’’ پاکستان کسی مناسب وقت اور جگہ پر بھارتی مہم جوئی کا جواب دے گا ‘‘۔ صدرِ پاکستان اور دوسرے حکومتی ارکان کے ساتھ مختلف سیاسی جماعتوں کے قائدین نے بھی بھارت کے اِس الزام کو غلط قرار دے کر اُس کی مذمت کی تھی۔ معزز قارئین!۔ 16 دسمبر 1971ء کو پاکستان دولخت ہُوا تو، ذوالفقار علی بھٹو (بقول اُن کے ) ’’ نئے پاکستان‘‘ کے سِولین چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور صدرِ پاکستان کا منصب سنبھالا ۔ 2 جولائی 1972ء کو موصوف بھارت کے شہر شملہ تشریف لے گئے جہاں اُنہوں نے بھارتی وزیراعظم مسز اندرا گاندھی کے ساتھ ’’ شملہ سمجھوتہ‘‘ ( Simla Agreement) پر دستخط کئے ۔ اُس سمجھوتے کی رُو سے ’’ جنگ بندی لائن‘‘ ( Cease-fire Line) کو (Line of Control) کہا گیا اُس لائن پر اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین کی ڈیوٹی لگائی گئی۔ جن کی طرف سے اقوام متحدہ کو کبھی کبھار یہ رپورٹس بھجوائی جا تی تھیں / ہیں کہ ’’ پاکستان اور بھارت کی طرف سے ’’ لائن آف کنٹرول‘‘ کی خلاف ورزی کب اور کیسے ہُوئی؟۔ دراصل ’’ شملہ سمجھوتہ‘‘ کی رُو سے جنابِ ذوالفقار علی بھٹو اور وزیراعظم اندرا گاندھی نے طے کر لِیا تھا کہ ’’ مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے لئے پاکستان اور بھارت مذاکرات کریں گے ( کرتے رہیں گے) ۔ جنابِ ذوالفقار علی بھٹو جنہوں نے 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دَوران فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے وزیرخارجہ کی حیثیت سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے خطاب کرتے ہُوئے کہا تھاکہ ’’ ہم ( یعنی۔ حکومت ِ پاکستان اور پاکستان کے عوام) مقبوضہ کشمیر کے عوام کو بھارت کے پنجے سے چھڑانے کے لئے ایک ہزار سال تک جنگ لڑیں گے ‘‘۔ بھٹو صاحب اور اُن کے بعد پاکستان کے دوسرے حکمران ایسا نہیں کرسکے۔ وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو اور دامادِ بھٹو صدر آصف زرداری بھی نہیں؟۔27 دسمبر 2007ء کو محترمہ بے نظیر بھٹو قتل کردی گئیں تو مقتدر قوتوں نے جنابِ آصف زرداری کو صدرِ منتخب کروا دِیا ، حالانکہ محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنے ’’شوہر نامدار ‘‘کو اپنی پارٹی (پاکستان پیپلز پارٹی) میں کوئی عہدہ نہیں دِیا تھا؟۔ صدارت کا منصب سنبھالتے ہی علی الاعلان میڈیا پر ’’خُود کلامی ‘‘ کرتے ہُوئے کہا تھا کہ ’’ کیوںنہ ہم 30 سال کے لئے مسئلہ کشمیر کو "Freeze" (منجمد) کردیں ‘‘۔صدر زرداری نے امیر جمعیت عُلماء اسلام (فضل اُلرحمن گروپ) کو کشمیر کمیٹی کا چیئرمین مقررکردِیا اور اُس کے بعد وزیراعظم میاںنواز شریف نے بھی ۔ یہ صدر آصف علی زرداری اور وزیراعظم میاں نوازشریف کا اندازِ سیاست ہی تھا کہ ’’ دُنیا کے 57 مسلمان ملکوں کی تنظیم "O.I.C"( Organisation of Islamic Cooperation) کو مسئلہ کشمیر سے کبھی کوئی دلچسپی نہیں رہی ۔ کشمیری مسلمانوں کی بدقسمتی کاعالم یہ ہے کہ ’’ اُس نے اپنے آئندہ اجلاس میں بھارتی وزیر خارجہ سُشما سَوراج کو ’’ مہمان خصوصی‘‘ (Guest of Honor) کے طور پر مدّعو کرلِیا ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ’’ کیا "O.I.C" میں بھی سُشما سَوراج صاحبہ کے ’’باپ کا راج ‘‘ ہے؟۔ وزیر خارجہ پاکستان شاہ محمود قریشی صاحب نے اعلان کردِیا ہے کہ ’’ اگر بھارتی وزیر خارجہ کومدّعو کِیا گیا تو مَیں ’’ او۔ آئی۔ سی‘‘ کے اجلاس میں نہیں جائوں گا‘‘۔ شاہ محمود قریشی صاحب نے تو امریکی وزیر خارجہ "Michael Richard Pompeo" سے بھی اپنا کردار ادا کرنے کی درخواست کی ہے ؟۔ نہ جانے کِس شاعر نے اورکسے مخاطب کرتے ہُوئے کہا تھا کہ … تمہی نے درد دِیا ہے ، تمہی دوا دینا! …O… معزز قارئین!۔ انگریزی زبان کی ایک "Phrase"( محاورہ) ہے "Oh i See" (یعنی۔ اوہ ،مَیں دیکھتا ہُوں) ۔ اُدھر مقبوضہ کشمیر میں ’’ آل پارٹیز حریت کانفرنس‘‘ کے چیئرمین سیّد علی گیلانی نے ’’او۔ آئی۔ سی‘‘ کی جانب سے سُشما سَوراج کو مہمان خصوصی کے طور پر مدّعو کرنے پر اُسے ’’ کشمیریوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف قرار دِیا اور کہا ہے کہ کشمیر میں مسلمان مسلسل جبر و تشدد سے تکلیف میں ہیں ، جموں اور کشمیر پر تمام اخلاقی ، انسانی اور جمہوری قدروں کے خلاف بھارت نے قبضہ کررکھا ہے جس کے نتیجے میں کشمیری عوام پر ظلم و استبداد، قتلِ عام، تشدد، گولیوں، بیلٹ گنز "Gang Rape"اور استحصال کا نہ تھمنے والا سلسلہ عام ہو چکا ہے ‘‘۔ اب صورت یہ ہے کہ ’’ پاکستان کی سیاسی کی سیاسی اورعسکری قیادت کے علاوہ حزب اختلاف کی تقریباً سبھی جماعتوں ، مختلف طبقات کے قائدین اور عوام ۔بھارتی جارحیت کے مقابل یک زبان ہیں لیکن، کیا محض یک زبان ہونا کافی ہے؟‘‘۔ اللہ کا شکر ہے کہ پاکستان کی مسلح افواج دُنیا کی بہترین افواج میں سے ہیں لیکن جنگ کے لئے تو بہت سے سرمائے کی ضرورت ہوتی ہے۔ سپریم کورٹ نے ارکان پارلیمنٹ کو ’’ پائیدار ترقی کے اہداف ‘‘ کے لئے ارکان پارلیمنٹ کے صوابدیدی فنڈز پر پابندی لگا تھی لیکن، 26 فروری کو شائع ہونے والی اِس خبر کی تو، وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور جناب نعیم اُلحق نے بھی تصدیق کردِی ہے کہ ’’ وفاقی حکومت نے "PTI" ارکان پارلیمنٹ کو خاموشی سے 24 ارب کے فنڈز جاری کردئیے ہیں۔ معزز قارئین!۔ 8 ہجری میں ’’جنگ ِ تبوک ‘‘ کا موقع پیش آیا تو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلیہ وَسلم نے صحابہ کرامؓ کو اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے کی ترغیب فرمائی ۔ اکثر صحابہؓ نے بڑی، بڑی رقمیں پیش کردِیں ۔ حضرت عُمربن الخطابؓ نے اپنے سارے مال و اساب میں سے نصف پیش کردِیا لیکن، حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے اپنا سارا مال و اسباب‘‘۔ یہ تھی ’’ ریاستِ مدینہ‘‘ ۔ سوال یہ ہے کہ ’’ اگر جنگ شروع ہو جاتی ہے تو، کیا ’’ ریاست مدینہ جدید‘‘ کے حکمران ،اُن کی اتحادی جماعتوں اور حزبِ اختلاف کے قائدین اپنے مال و دولت کا کتنا حصّہ قومی خزانے میں جمع کرادیں گے ؟ یا یہی کہیں گے کہ "Oh i See" ۔