معزز قارئین!۔ یکم اکتوبر کو پاکستان کے عظیم دوست ’’ عوامی جمہوریہ چین‘‘ نے اپنی 70 ویں سالگرہ منائی۔ پاکستان میں بھی حکومتِ پاکستان اور ہر سطح پر اہلِ پاکستان نے اپنے اپنے انداز میں ، عوامی جمہوریہ چین کی حکومت اور عوام کے ساتھ دوستی کے رشتوں کو مضبوط کرنے کے لئے جوش و جذبے کا اظہار کِیا۔ ’’ پیغمبرِ انقلاب‘‘ صلی اللہ علیہ و آلہ وَسلم نے اپنے دَور میں چین کا تعارف کراتے ہُوئے مسلمانوں کو تلقین کی تھی کہ ’’ علم حاصل کرو ، خواہ تمہیں چینؔ ہی کیوں نہ جانا پڑے؟‘‘۔ اُس وقت چین میں کاغذ ایجاد ہو چکا تھا اور لکڑی کے "Blocks" (ٹھپّوں)کے ذریعے کتابیں چھپنا شروع ہوگئی تھیں اور یقینا ’’ مدینۃ اُلعلم ‘‘ صلی اللہ علیہ و آلہ وَسلم کو اِس کا ادراک بھی ہوگا؟‘‘۔ ’’ مصّورِ پاکستان‘‘ علاّمہ اقبالؒ نے ’’ بدھ مت‘‘ کے بانی ’’ مہاتما گوتم بدھ‘‘ کے حوالے سے ایک نظم میں کہا کہ … دِیار ہند نے جِس دم میری صدا نہ سُنی! بسایا خطّہ جاپانؔ اور مُلکِ چیںؔ مَیں نے! 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے وقت عوامی جمہوریہ چین کے بانی چیئرمین مائوزے تنگ (Mao Zedong) اور (اُن دِنوں ) وزیراعظم چو۔ این ۔ لائی (Zhou Enlai)نے پاکستان کی بھرپور مدد کر کے اہلِ پاکستان کے دِل موہ لئے تھے ۔ پھر وقت کے ساتھ ساتھ دونوں ملکوں کی حکومتوں اور عوام کی دوستی مضبوط سے مضبوط تر ہوتی گئی۔ یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ ’’ جب ’’ قائدِ انقلاب‘‘ چیئرمین مائوزے تنگ کا انتقال ہُوا تو اُنہوں نے ترکے میں 6 جوڑے کپڑے ( Uniform) ، ایک لائبریری اور بنک میں چند ڈارلز چھوڑے تھے ، اُن سے پہلے ’’ بانیٔ پاکستان‘‘ قائداعظم محمد علی جناحؒ نے تو گورنر جنرل آف پاکستان کا منصب سنبھالتے ہی اپنی ساری جائیداد کا ایک ٹرسٹ بنا کر اُسے قوم کے نام کردِیا تھا۔ فیلڈ مارشل صدر محمد ایوب خان کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو کے دَور میں ’’ پاک چین دوستی‘‘ کا "Credit" لیتے۔ موصوف اپنی پارٹی ’’ پاکستان پیپلز پارٹی‘‘ کے ’’ چیئرمین‘‘ کی حیثیت سے اقتدار سے محروم ہونے تک چیئرمین مائوزے تنگ کی نقل میں پتلون پر بند گلے کا کوٹ پہن کر اور سر پر مائو کیپ ؔسجا کر عام جلسوں میں (چیئرمین مائو کی طرح ) دونوں ہاتھ بلند کر کے تالیاں بجایا کرتے تھے لیکن، جنابِ بھٹو نے غریبوں کے حق میں انقلاب لانے کا وعدہ پورا نہیں کِیااور نہ ہی اُن کے سیاسی وُرثاء وزیراعظم بے نظیر بھٹو اور صدر آصف علی زرداری نے ؟پھر اُن حکمرانوں سے کیا گِلہ کِیا جائے جنہوں نے غریبوں کے حق میں انقلاب لانے کا کوئی وعدہ نہیں کِیا تھا؟‘‘۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے بعد مجھے دورۂ چین کے بارے میں کئی سیاستدانوں ، دانشوروں اور صحافیوں کی کتابیں یا مضامین پڑھنے کا موقع مِلا ۔ مَیں نے ملتان کے مرحوم قانون دان اور سیاستدان بیرسٹر تاج محمد خان لنگاہ، نامور صحافی مرحوم صحافی جناب ارشاد احمد حقانی اور تحریکِ پاکستان کے کارکن جناب کرامت علی خان اور کئی دوسرے دوستوں کی کتابیں پڑھیں تو، مجھے بہت روشنی ملی۔ ستمبر 1999ء میں برادرِ عزیز سیّد ارشاد احمد عارف نے روزنامہ ’’نوائے وقت ‘‘ کے ڈپٹی ایڈیٹر کی حیثیت سے عوامی جمہوریہ چین کا دو ماہ تک دورہ کِیا اور ’’ دیوارِ چین کے اُس پار‘‘ کے عنوان سے پرانی اور نئی نسل کے لئے کتاب لکھی۔ وہ بھی خاصے کی چیز ہے۔ معزز قارئین!۔یہ میری خوشی قسمتی تھی / ہے کہ ’’ پہلی بار اگست 1991ء میں (اُن دِنوں ) وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات شیخ رشید احمد کی قیادت میں گیارہ سینئر صحافیوں کی "Eleven" کے رُکن کی حیثیت سے اور دوسری بار وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کی میڈیا ٹیم کے رُکن کی حیثیت سے عوامی جمہوریہ چین کا دورہ کرنے کا موقع مِلا۔ اُن دِنوں مَیں چینی سیاستدانوں ، دانشوروں ، صحافیوں اور غیر صحافیوں سے جو بھی علم حاصل کر سکا مَیں نے کِیا۔ دونوں بار مجھے شیشے کے ایک "Box" میں محفوظ ،چیئرمین مائوزے تنگ کے جسدِ خاکی کو دیکھنے کا بھی موقع مِلا۔ 1996ء میں مَیں نے… ’’ہمالہ سے عظیم تر ہے ، پاک چین دوستی!‘‘ کے عنوان سے ایک نظم لکھی تھی (جو 1985ء سے میرے دوست ) چیئرمین ’’ پاکستان کلچرل فورم ‘‘ اسلام آباد برادرِ عزیز ظفر بختاوری نے نہ صِرف پاکستان میں بلکہ دُنیا بھر کے سفارتخانوں میں پھیلا دِی تھی۔ ظفر بختاوری صاحب خود 7/8بارعوامی جمہوریہ چین کا دورہ کر چکے ہیں ہیں ۔ اُن کا آخری دورۂ چین اگست 2016ء میں تھا۔میری نظم کے تین بند پیش خدمت ہیں۔…… خُلوص و بے ریائی کے ، حسِین گُل کِھلے ہُوئے! سدا سے ہیں ، عوام کے، دِلوں سے ،دِل مِلے ،ہُوئے! محبتّوں کی دُھن پہ ،رقص کر رہی ہے زندگی! ہِمالہ سے عظیم تر ہے ،پاک چین ،دوستی! خُدا کی بارگاہ میں ، دانائی ہی قبول ہے! ’’ تم پائو عِلم چین سے‘‘ فرمودۂ رسولؐ ہے! اُس دَور میں بھی، چین تھا، مَنّبعٔ عِلم و آگہی! ہِمالہ سے عظیم تر ہے ،پاک چین دوستی! کشمیر ہو ،یا ہو عراق ، یا سر زمینِ ،فلسطیں! چمکے گی شمّع حُریتّ ، ہوگا اُجالا بِالیقیں! عِفرِیت ظُلم و جَور کو، کرنا پڑے گی ،خُود کُشی! ہِمالہ سے عظیم تر ہے ،پاک چین دوستی! مجھے جب بھی موقع ملتا ہے مَیں عزّت مآب مائوزے تنگ اور دوسرے چینی قائدین کی پاکستان دوستی کا تذکرہ کرتا رہتا ہُوں۔ 20 اپریل 2015ء کو جب ، عوامی جمہوریہ چین کے موجودہ صدر عزّت مآب ’’ شی۔ چن ۔ پنگ‘‘ (Xi Jin Ping ) اور اُن کی اہلیہ ، خاتونِ اوّل ’’ پنگ۔ لیو ۔ آن‘‘ (Madam Peng Liyu An ) دورہ پاکستان پر تشریف لائے تو ، 23 اپریل کو میرے کالم کا عنوان ، میرے دوست ’’ شاعرِ سیاست‘‘ کا یہ مصرع تھا ۔ ’’ جُگ جُگ جِیو ،تُسِیں ، شی چِن پِنگ جی!‘‘ مکمل دو شعر یوں تھے ہیں … تُسِیں تے ہو، ساڈے دِل دے ’’King‘‘جی! شالا مُڑ مُڑ، پیار ’’Bring‘‘ جی! پیار توں وڈّی ، نہیں کوئی ’’Thing‘‘ جی! جُگ جُگ جِیو، تُسِیں ، شی چِن، پِنگ، جی! معزز قارئین!۔ (اُن دِنوں )میاں نواز شریف وزیراعظم تھے جب، اُنہوں نے 31 اگست 2016ء کو اسلام آباد میں عوامی جمہوریہ کے سفیر "Excellency Sun Weidong" کی موجودگی میں ۔ ’’ سی پیک نمائش اور کانفرنس میں کی اور بڑے وثوق سے قوم کو یقین دلایا کہ ۔ ’’ China Is Protector of Pakistan`s Identity"( یعنی چین ۔ پاکستان کے تشخص کا محافظ ہے‘‘۔ فارسی زبان کے ایک شاعر نے شاید اللہ تعالیٰ ( یا اپنے محبوب سے مخاطب ہو کر) کہا تھا کہ … ’’سُپر دم بتو مایۂ خویش را تو دانی، حسابِ کم و بیش را‘‘ یعنی ۔’’ مَیں نے اپنے سازو سامان ( جمع پونجی) کو تمہارے سپرد کردِیا ہے اب تو ہی میرے خسارے اور نفع کا ذمہ دار ہے ‘‘ لیکن، پھر کیا ہُوا ؟ ۔ ’’پاکستان کا تشخص ‘‘ تو ماشاء اللہ قائم و دائم ہے لیکن، 28 جولائی 2017ء کووزیراعظم میاں نواز شریف کا اپنا تشخص ؔ ، مجروح ؔہوگیاجب سپریم کورٹ کے جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے لارجر بنچ کے پانچوں جج صاحبان نے اُنہیں صادق ؔاورامینؔ نہ (ہونے) پر تا حیات نا اہل قرار دے دِیا ‘‘۔ ’’صدر جمہوریہ چین کا دوسرا دورہ !‘‘ نااہل وزیراعظم میاں نواز شریف نے یکم اگست 2017ء کو ،مسٹر شاہد خاقان عباسی کو وزیراعظم پاکستان منتخب کروا دِیا تھا ۔اب کیا کِیا جائے کہ ’’ پاکستان کا تشخص تو ماشاء اللہ پھر قائم و دائم ہے لیکن، شاہد خاقان عباسی صاحب بدعنوانی کے مختلف مقدمات میں جیل میں ہیں ؟اور پہلے سے وہ جیل میں قید سابق صدرِ پاکستان ، آصف علی زرداری صاحب کے برابر مراعات و سہولیات حاصل کر رہے ہیں ؟۔ "Love Export Policy" معزز قارئین!۔ کسی دَور میں امریکہ کے بعد ’’ سوویت یونین ‘‘ دوسری بڑی سپر پاور تھی لیکن، وہ دوسرے ملکوں میں ’’انقلاب‘‘ (Export) کرنے کی پالیسی کی وجہ سے ’’ ٹوٹ پُھوٹ‘‘ کا شکار ہوگئی لیکن، عوامی جمہوریہ چین نے ، شروع ہی سے "Love Export Policy" اختیار کر رکھی ہے ۔ تو پھر کیوں نہ مَیں بار بار اپنی نظم کا یہی مصرع دُہرائوں کہ… ’’ ہمالہ سے ،عظیم تر ہے ،پاک چین دوستی !‘‘