آپ نے چینی کھانا کئی بار کھایا ہو گیا۔ گھروں میں بھی اور ریستورانوں میں بھی! سب سے پہلے سُوپ پیا جاتا ہے۔ اس کے بعد کھانا آتا ہے۔ کھانے کا ساٹھ ستر فیصد حصہ چاول پر مشتمل ہوتا ہے مگر کبھی آپ چین جائیں تو اصل چینی تو صرف چاول کھائے گا یا صرف نوڈلز ۔ ہاں دعوت میں بہت سے آئٹم ہوں گے مگر جو اہمیت یہاں سوپ اور چاول کی ہے، وہاں ہرگز نہیں! کافی دیر کے بعد چاول آئیں گے، وہ بھی قلیل مقدار میں اور سوپ تقریباً کھانے کے آخر میں!! اسی پر جمہوریت کو قیاس کر لیجئے۔ ہمارے ہاں کی جمہوریت اس جمہوریت سے مختلف ہے جو مہذب، ترقی یافتہ ملکوں میں رائج ہے۔ انسان ورطۂ حیرت میں گم ہو جاتا ہے جب چیخ و پکار سنتا ہے کہ جمہوریت خطرے میں ہے! کون سی جمہوریت؟ اس قدر ڈھٹائی اور بے شرمی سے جمہوریت کو درپیش خطرے کی نشاندہی کی جاتی ہے کہ اس ڈھٹائی اور بے شرمی پر داد دینا پڑتی ہے۔ اس وقت عملاً مسلم لیگ نون کی قیادت میاں نواز شریف کی بیٹی کے ہاتھ میں ہے۔ شہباز شریف اپنی سی کوشش کر رہے ہیں مگر صاف نظر آ رہا ہے کہ ریت ان کے پیروں کے نیچے سے سرک رہی ہے۔ بڑے میاں صاحب کی صاحبزادی کے Credentials کیا ہیں؟ اعتبار کا حوالہ کیا ہے؟ یہی کہ وہ سابق وزیراعظم کی بیٹی ہیں اور انتہائی دولت مند ہیں۔ جب خواجہ آصف، راجہ ظفر الحق اور احسن اقبال جیسے بزرگ اور جہاندیدہ سیاستداںاپنی زمام کل کی ایک بچی کے ہاتھ میں دیتے ہیں تو جمہوریت کی قلعی کھل جاتی ہے۔ جھگڑا بھی خاندان کے اندر ہی ہے۔ یہ کہ قیادت شہباز شریف کے ہاتھ میں ہو یا مریم کے ہاتھ میں! بزرگ سیاستدان دونوں صورتوں میں پیروکار خاندان ہی کے رہیں گے۔ اگر مسلم لیگ نون واقعی جمہوریت کی علم بردار ہے تو اس خاندان سے باہر نکل کر قسمت آزمائے۔ راجہ ظفر الحق، سعد رفیق، احسن اقبال، خواجہ آصف، رانا ثناء اللہ اور دوسرے سرکردہ لیڈروں میں مقابلہ ہو۔ پارٹی کے ارکان جسے اپنی ووٹوں سے کامیاب کریں اسے پارٹی کا سربراہ بنایا جائے۔ یہی صورتحال پیپلز پارٹی کی ہے۔ رضا ربانی، شیری رحمن اور اعتزاز احسن میں مقابلہ ہو۔ پارٹی کے ممبران جسے منتخب کریں، وہ پارٹی کا سربراہ ہو۔ زرداری صاحب اور بلاول اس سربراہ کی اطاعت کریں۔ بالکل اسی طرح جیسے مغرب کے جمہوری ملکوں میں ہوتا ہے۔ دو تین ہفتے پہلے خبر آئی کہ مولانا فضل الرحمن اتنے عرصہ کے لئے ایک بار پھر اپنی پارٹی کے سربراہ ’’منتخب‘‘ ہو گئے ہیں۔ اس طرح کی خبریں مصر، شام، عراق اور ازبکستان جیسے ملکوں سے بھی آتی رہی ہیں اور آتی ہیں۔ حافظ الاسد، بشار الاسد، حسنی مبارک، صدام حسین، اسلام کریموف ہر بار ’’انتخابات‘‘ میں حصہ لیتے تھے اور ’’بلا مقابلہ‘‘ منتخب ہو جاتے تھے۔ کبھی کبھی انتخابات کو ذرا رنگین بنانے کے لئے کسی کو ’’مقابلے‘‘ میں کھڑا کر دیا جاتا تھا جو کم ووٹ لے کر ’’شکست‘‘ کھا جاتا تھا۔ آثار بتا رہے ہیں کہ (خدا مولانا کو سلامت رکھے) مولانا حیدری صاحب اور حافظ حسین احمد جیسے ثقہ بزرگوں کو برخوردار اسد محمود کی قیادت میں بھی کام کرنا پڑ سکتا ہے۔ اسفند یار ولی نے بھی اپنا گھوڑا آگے بڑھا دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ان سب لیڈروں کو جو عقل مند ہیں اور صحیح الدماغ ہیں کیا نہیں معلوم کہ عوام اب ان کی چیخ و پکار پر توجہ دینے سے معذور ہیں۔ کس منہ سے کس جمہوریت کی بات کر رہے ہیں؟یہ سب حضرات ایک ہاری ہوئی جنگ لڑ رہے ہیں۔ یہ دلیل کہ عوام کے ووٹوں سے منتخب پہلے یا دوسرے یا تیسرے وزیر اعظم کو گرفتار کیا جا رہا ہے‘ شاید ہی کسی کو متاثر کر سکے۔ کسی ملزم یا ججز کو رہا کرانا ہو تو عدالت میں اپیل کی جاتی ہے۔ قمیضوں پر فوٹو بنوا کر‘ یہ مطالبہ لکھوانا کہ فلاں کو رہا کرائو۔ ایک بے معنی حرکت ہے اور کھمبا نوچنے کے مترادف ہے؟ صورت حال اس قدر بدل چکی ہے کہ جو لکھاری شریف فیملی کے زبردست حامی ہیں۔ وہ بھی یہ پوچھنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ کیا شریف فیملی نے اس (ویڈیو والے) گند کا حصہ بن کر خود کو مافیا ثابت نہیں کر دیا؟ ایک اور سینئر صحافی نے جس نے چند دن پہلے شہباز شریف کو مدبر قرار دیا‘ برملا کہا ہے کہ شاہد خاقان عباسی قطر سے ایل این جی معاہدے کے بارے میں کچھ بتاتے ہی نہیں تھے۔ ان اعتراضات سے صاف ظاہر ہے کہ بساط الٹ رہی ہے۔ وہ جو پامال شدہ محاورہ ہے کہ آپ چند لوگوں کو کچھ عرصہ کے لئے بے وقوف بنا سکتے ہیں مگر تمام لوگوں کو ہمہ وقت بے وقوف نہیں بنا سکتے‘اس وقت صورت حال پر صادق آ رہا ہے۔ ڈیلی میل لندن میں جو کچھ سابق خادم اعلیٰ کے بارے میں شائع ہوا ہے۔ وہ بذات خود ایک لٹمس ٹیسٹ ہے۔ جس سرکاری محکمے کی وضاحت کو شہباز شریف دلیل بنا کر پیش کر رہے ہیں۔ وہ اگر دلیل ہوتی تو اخبار اعتزار شائع کرتا اور معذرت کرتا! مگر صحافی کا کہنا ہے کہ اس کے پاس ثبوت ہیں۔ گمان غالب یہ ہے کہ شہبازشریف عدالت میں نہیں جائیں گے اس لئے کہ وہاں جسٹس ملک قیوم یا جج ارشد ملک نہیں ہوں گے۔ برطانوی عدالت ہو گی اور برطانوی جج۔ وہی برطانیہ جس کی سڑکوں پر شہباز شریف عام لوگوں کی طرح دوڑتے اور شاہراہ کراس کرتے دیکھے جاتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ پاکستان میں وفاداریاں ذاتی ہیں یا جدی پشتی! ورنہ وال سٹریٹ جرنل جیسے شہرہ آفاق اخبار میں جس دن میاں نواز شریف کی کرپشن کی داستان چھپی تھی اور میاں صاحب نے اس کے خلاف عدالتی چارہ جوئی نہیں کی تھی‘اسی دن مسلم لیگ نون کے حامیوں‘ خاص طور پر شریف برادران کے ذاتی اور خاندانی وفاداروں کو ہوش آ جانا چاہیے تھا۔ مگر جس ملک میں لوگ دلیل یہ دیتے ہوں کہ کھاتے ہیں تو لگاتے بھی ہیں اور فواد احمد فواد اور احد چیمہ جیسے سرکاری اہلکاروں کی کرپشن سے صرف نظر کرتے ہوئے محض ان کی کارکردگی کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہو‘ اس ملک میں ساری کرپشن اور عالمی میڈیا کی ساری شہادتوں کے باوجود ان نام نہاد لیڈروں کے ڈھکوسلے قائم ہیں! یہی پاکستان کی سب سے بڑی کمزوری ہے جس دن سیاسی پارٹیوں کے حامی ذہنی طور پر اتنے پختہ ہو گئے کہ سیاہ کو سیاہ اور سفید کو سفید کہیں گے اور کرپٹ عناصر کو معاف کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں گے‘ اس دن پاکستان کی قسمت ‘ پلٹا کھائے گی! یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ عمران خان کو ٹیکس کے نظام اور دیگر معاملات میں تبدیلیوں کو بتدریج اختیار کرنا چاہیے تھا۔ ایک حد تک یہ تشویش بجا ہے مگر یہ بھی سوچیے کہ ہر معاملہ دوسرے معاملے سے مربوط ہے۔ عمران خان کے پاس زیادہ وقت نہیں۔ اسے مہاتیر محمد اور لی کوان یئوکی طرح شاید تین دہائیاں نہ مل سکیں۔ اس قوم میں صبر شکر‘ دونوں مادے کم مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ فرض کیجیے عمران خان ٹیکس نہ دینے والے تاجروں کو تین برس وعظ سناتا رہتا اور چوتھے سال یہ اقدامات اٹھاتا تو کیا یہ تاجر مان جاتے؟ نہیں! صورت احوال ’’اب یا کبھی نہیں‘‘ جیسی ہے۔Now or Never۔جو کچھ مخالفین نے اور کرپشن کے حامیوں نے کرنا ہے کر لیں‘ جو کچھ عمران خان نے کرنا ہے وہ بھی ابھی کرے۔ بخت نے یاوری کی تو چیرہ دستوں اور سیاہ کاروں سے نجات ملے گی! ضرور ملے گی! ؎ تم اپنی اقلیم سے زر وسیم جمع کر لو میں اپنی گُدڑی سے ایک آیت نکالتا ہوں