"Liaquat (Ali Khan) casually mentioned that he had invited the Chief Justice to the dinner, but the latter had declined the invitation on the grounds that it was not befitting for the Chief Justice to accept the invitation from the Chief Executive for an official dinner. (Normal protocol would, of course, have rendered it entirely appropriate for the Chief Justice to have accepted an invitation from the Governor General.) Liaquat's appreciative comment was, "It was my duty to invite him and it was perfectly correct on his part to decline it."" پہلے تو اس بات پر معذرت کہ گفتگو کا آغا ز بہ زبان انگریزی ایک خاصے طویل اقتباس سے کیا۔ ۔ ۔ جمشید مارکر ایک کیرئیر ڈپلومیٹ تھے۔پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان (1947-1951)سے لے کر جنرل پرویز مشرف (1999-2008)کے عہد کے دوران فارن آفس سے وابستہ رہے۔نصف صدی کیسے کیسے شریف النفس اور ہاں، خود سر، سرکش حکمرانوں کے ساتھ وہ کس طرح اپنی عزت نفس اور کمٹمنٹ کے ساتھ سرکاری ڈیوٹی نبھاتے رہے ۔جی چاہتا ہے کہ ساری کتاب ہی جستہ جستہ ترجمہ کر کے قسط وار کالموں کی نذر کردوں کہ یہ سب کچھ بڑے دلچسپ پیرائے میں لکھے گئے ہیں۔درج بالا اقتباس دیکھنے کا فوری خیال بدھ کی رات کے اُس پہر آیاجب ہمارے محترم وزیر اعظم عمران خان اور ہمارے چیف جسٹس ثاقب نثار ایک پبلک تقریب میں ایک دوسرے سے بڑی گرم جوشی سے مصافحہ کررہے تھے۔محترم خان صاحب کو برسوں سے قریب سے دیکھا اور سنا ہے۔حس ِ مزاح کے حوالے سے ہمارے سابق حکمرانوں کا ریکارڈ بڑا غریب رہا ہے۔ہاں، بھٹو صاحب کی بات اور تھی۔ موچی دروازے پر ہزاروں کے مجمع میں جوش ِ خطابت میں یہ تک کہہ بیٹھے۔۔۔’’ہاں پیتاہوں۔ایک دو پیگ ،جب دن میں کا م کے بعد تھک جاتا ہوں۔ مگر کسی کا خون نہیں پیتا۔‘‘گو نظام ِ مصطفی کی تحریک زوروں پر تھی لیکن پُر جوش جیالوں نے جئے بھٹو کے نعروں سے آسمان سر پر اٹھا لیا ۔ہمارے محترم خان صاحب نے بہر حال دھرنوں کے درمیان ضرور زبان پر دسترس حاصل کرلی ۔عوام سے پوچھ رہے ہوتے تھے ۔۔۔’’شادی کروں،یا نہ کروں؟‘‘یوں لاء کمیشن کی جانب سے آبادی کے کنٹرول پر ہونے والی تقریب میں وزیر اعظم عمران خان نے ،جو چیف جسٹس ثاقب نثا ر کی دعوت پر تقریب میں آئے تو ازراہ ِمذاق کہا،شکر ہے چیف جسٹس صاحب نے کورٹ نمبر ون میں نہیں بلا لیا۔خان صاحب کے شستہ اور چست جملے پر سارا ہال تالیوں سے سے گونج اٹھا ۔عموماً چہرے پر بردباری اور ایک حد تک سختی رکھنے والے چیف جسٹس نے بھی خان صاحب کے اس بے تکلفانہ جملے کا لطف لیا۔جس کا اندازہ اُن کے چہرے پر بکھری مسکراہٹ سے ہوا۔سابق سفارتکار جمشید ماکر کا حوالہ دیتے ہوئے جو طویل تمہید باندھی ۔کسی بھی ایسے شعبے میں جس میں معلومات غریب ہوں۔۔عموماً اُس شعبے کی کسی مستند ،معتبر شخصیت سے ضرور رجوع کرلیتا ہوں۔اس حساس مسئلے پر قلم پکڑا ۔۔۔اٹھایا تو ملک کے ممتاز قانون دان سابق نگراں وزیر محترم علی ظفر سے رجوع کیا۔ماہر قانون علی ظفر نے دو ٹوک الفاظ میںکہا ’’قطعی نہیں‘‘ ماضی میں اس کی کوئی مثا ل نہیں ملتی کہ ملک کا چیف جسٹس کسی بھی مسئلے پر چاہے وہ کتنا ہی ملکی مفاد میں ہو،نہ تو چیف ایگزیکٹو یعنی منتخب وزیر اعظم یا صدر کسی ایسی تقریب میں شرکت کرسکتا ہے جہاں چیف جسٹس آف پاکستان موجود ہو۔اور یہ دوطرفہ ہے۔14اگست ،23مارچ جیسے قومی دن اس سے مستثنیٰ ہیں ۔شادی بیاہ کی تقریب تک میں ایک طویل عرصے تک ہماری عدلیہ کے سربراہان شرکت نہیں کرتے تھے ۔مبالغے کی حد تک یہ بھی مشہور تھاکہ عدلیہ کے سربراہ ریڈیو،ٹی وی اور اخبارات تک دیکھا اور پڑھا نہیں کرتے تھے کہ وہ بالواسطہ طور پر ان پر اثر انداز ہوں۔مگر یہ روایت بد قسمتی سے ہمارے پہلے چیف جسٹس سر عبد الرشید تک ہی رہی بلکہ اُ ن محترم و معزز پاکستان کے پہلے جج کے دور میں ہی اسپیشل ٹربیونلز کی بنیاد رکھ دی گئی۔میری مراد راولپنڈی سازش کیس سے ہے ۔جس کی سماعت چا رپھاٹکوں کے اندر جیل کی چاردیواری میں ہوئی۔قطعیت کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ اس وقت لاء اینڈ آرڈر کا ایسا مسئلہ نہ تھا کہ چند زیر زمین کامریڈ اس سازش کیس کے بڑے مجرم یعنی سکریٹری کمیونسٹ پارٹی سجاد ظہیر،شاعر فیض احمد فیضؔ ، یاریٹائرڈ جنرل اکبر خان کو جیل کی دیواریں توڑ کرفرار کروا دیتے۔معذرت کے ساتھ قیام پاکستان کے بعد ہماری ’’عدلیہ‘‘ کااُس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کے سامنے یہ پہلا سرینڈر تھا جس کا سرخیل کوئی اور نہیں آرمی چیف جنرل محمد ایوب خان تھا۔شاعر بے مثال فیض احمد فیض ؔ نے پنڈی سازش کیس کے حوالے سے اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے کہ جب مقدمے کی کاروائی کا آغاز ہوا تو پنڈی سازش کیس کے ایک ملزم ریٹائرڈ میجر اسحٰق نے جو بعد میں مولانا بھاشانی کی نیشنل عوامی پارٹی کے سکریٹری جنرل بنے ،اپنی پہلی پیشی پر عدالت سے استفسار کیا۔’’ہم کئی ماہ سے قید ِ تنہائی میں نظر بند ہیں۔ہمارا جرم کیا ہے؟اور پھر آپ ایک فوجی پر مقدمہ چلانے کا قانونی حق بھی نہیں رکھتے۔ہمارا کورٹ مارشل فوجی عدالت میں ہونا چاہئیے۔‘‘ریٹائرڈ میجراسحٰق کے اس جرأت رندانہ سوال پر عدالت کے سینئر جج جسٹس ایس اے رحمٰن بھڑک اٹھے اور تقریباً چلّاتے ہوئے کہا۔’’تمہاری ہمت کیسے ہوئی؟ ایسا سبق پڑھاؤں گا کہ ساری زندگی یاد رکھو گے۔‘‘نوجوان میجر اسحق نے بڑی شانت آواز میںکہا۔''To hell with you"ـ یعنی ۔’’جہنم میں جاؤ‘‘ عدالت میں سناٹا چھا گیا۔چلتے چلتے ایک بڑی دلچسپ بات سناتا چلوں کہ تمام فوجی حکمرانوں کے دور میں جتنے بھی اسپیشل ٹربیونلز کیس چلے اُس میں وکیل استغاثہ سندھ سے تعلق رکھنے والے ممتاز وکیل اے کے بروہی ہی ہوتے ۔جی ہاں،بھٹو صاحب کے کیس میں وزیر استغاثہ بروہی صاحب جیسے پائے کے وکیل ہی تھے۔موضوع ہی ایسا ہے قلم اٹھاتے ہی خدشہ تھاکہ یہ ایک کالم میں سمٹے گا نہیں کہ بدقسمتی سے وطن عزیز کو معاشی ،سیاسی ،معاشرتی ،اخلاقی تباہی کے دہانے پر پہنچانے کے ذمہ دار سویلین ،ملٹری حکمرانوں کے ساتھ ہماری اعلیٰ عدلیہ بھی ایک نہیں دو قدم آگے رہی۔پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی توڑنے پر جسٹس محمد منیر کا ذکر اتنا آچکا ہے کہ اُسے دہرانا نہیں چاہتا ۔پاکستان کے پہلے مارشل لاء پر بھی جس طرح محمد منیر نے جنرلوں کے پلڑے میں اپنا وزن ڈالا وہ ہماری ساری عدلیہ کی تاریخ کا ایک تاریک ترین باب ہی کہلایا جائے گا۔پاکستان کے دوسرے مارشل لاء میں جسٹس انوار الحق کا مارشل لاء کو نظریہ ٔ ضرورت کے تحت نہ صرف کھلی چھوٹ دینا بلکہ بھٹو صاحب کے جوڈیشل مرڈر میں عدلیہ کا کردار سیاہ حرفوںسے لکھا جائے گا۔مگر ہاں، اس دور میں کم ازکم تین نام تو فوری طور پر یاد آرہے ہیں کہ جنہوں نے عدلیہ کا سر انفرادی طور پر بلند رکھا۔جسٹس اے آر کارنیلئس ،جسٹس ایم آر کیانی ،جسٹس دراب پٹیل ۔یقینا حالیہ مہینوں میں چیف جسٹس ثاقب نثار نے از خود نوٹسوں اور بڑے بڑے مگر مچھوں کو جیلوں میں ڈالا ہے اُس سے عدلیہ کا وقار بھی بلند ہوا ہے اور خود اُن کا بھی ۔ جبھی تو اُنکی اپیل پر ڈیم کے نام پر اربوں روپے کے عطیات ان کی جھولی میں گر رہے ہیں۔اس لئے Sorry Chief ۔اچھا نہیں لگا کہ آپ اُس وزیر اعظم کے پہلو میں کھڑے تھے جن کے وزراء آپ کی عدالت کے کٹہروں میں کھڑے ہیں۔