واشنگٹن میں مقیم ممتاز دانشور اور تجزیہ نگار شجاع نواز کی حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب The Battle for Pakistan and The Bitter US Friendshipکے اوراق الٹ رہا تھا۔ ۔ ۔ شجاع نواز اپنی پہلی کتاب Crossed Swordsبزبان ِ اردو’’بے نیام تلواریں‘‘ کے ذریعے ایک ایسے معتبر اسکالراور مصنف کی حیثیت سے خود کو منوا چکے ہیں کہ جن کا لکھا اور کہا اسلام آباد سے واشنگٹن تک بڑی توجہ سے پڑھا اور سنا جاتا ہے ۔کتاب ابھی مکمل نہیں کی ہے ۔ایک چوتھائی کتاب ہی تک پہنچا ہوں انکشافات اتنے سنسنی خیز اور دلچسپ ہیں کہ قلم بے چین بلکہ بے قابو ہوگیا۔یوں بھی کرنٹ افیئرز کے حوالے سے آرمی ایکٹ میں ترمیمی بل ،قومی اسمبلی اور سینیٹ سے محض آدھے گھنٹے میں جس فرمانبرداری سے پاس کیا گیا ہے ،وہ اتنا ہاٹ یعنی گرم موضوع نہیںرہا۔ ۔ ۔ امریکہ ایران میں محاذ آرائی آج نہیں دہائیوں سے جاری ہے۔اگر کچھ لکھوں گا بھی تو محض رپورٹنگ کے خانے میںہی ڈالا جائے گا۔سو شب کے پہلے پہر اپنے محترم شجا ع نواز کی کتاب کے اوراق الٹنے کے ساتھ ہی قلم رواں ہوگیا۔ شجاع نواز کی اس تصنیف کو ان کی پہلی کتاب ’بے نیام تلواریں‘ کا تسلسل ہی قرار دیا جائے گا کہ شجاع نواز نے بے نیام تلواریں میں پہلی بار پاکستانی فوج کی تاریخ بڑے مستند حوالوں اور متوازن زبان میں لکھی ہے کہ جسے پڑھے بغیر پاکستان میں فوج کے کردار پر کوئی سنجیدہ تبصرہ اور تجزیہ ممکن ہی نہیںہوسکتا ۔یوں تو پاکستانی فوج کے حوالے سے ایک دو اور بھی کتابیں لکھی گئیں۔مگر ان میں ایک خاص تعصب غالب تھا۔ جنرل ضیاء الحق کے دور ِ سیاہ میں فوج پر لب کشائی اور احتجاج پر کوڑوں جیسی بدترین سزائیں تک دی جاتی تھیں۔ سابق جنرل پرویز مشرف سے ایک حلقے کی تعصب کی حد تک مخالفت اپنی جگہ مگر یہ حقیقت ہے کہ یہ سابق جنرل پرویز مشرف ہی تھے کہ جن کے دور میں نجی الیکٹرانک میڈیا آیا۔اور آج اسکرینوں کے سرخیلوں نے ملک کی ساری سیاست کو ہائی جیک کیا ہوا ہے۔اور اب تو خیر سے جی ایچ کیو بھی کوئی Iron wallمیں یعنی آہنی پردے میںنہیں۔آرمی چیف کی مدت ملازمت اس کی چھڑی کی طرح ذاتی حق ہوتا تھا۔ ۔ ۔ کہ اپنی مرضی اور منشا سے جتنے برس چاہے کھینچ لے ۔کوئی سرگوشی میں بھی اختلافی آواز نہیں اٹھتی تھی۔دیکھیں کیسے ٹھاٹ سے جنرل ایوب خان ،جنرل ضیاء الحق ،جنرل پرویز مشرف نے دہائی اوپر آرمی کیپ اپنے سر پہ سجائی ۔حتیٰ کہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کی مدت ملازمت جب تین سال کے لئے بڑھائی گئی تو اس پر بھی کہیں سے کوئی احتجاجی آواز نہیںاٹھی۔اور اب تو صورتحال یہ ہے کہ ماہ ِرواں میں جب آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں تین سال کی توسیع کی گئی تو باقاعدہ اس پر اعلیٰ عدالت میں کیس لگتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ سپریم کورٹ یہ حکم بھی صادر فرماتی ہے کہ اگر عوام کی منتخب پارلیمنٹ میں چھ ماہ میں آرمی ایکٹ میں ترمیم نہیں کی ،تو پھر آرمی چیف جنرل باجوہ جو گھر جانا پڑے گا۔ ہمارے محترم شجاع نواز اب تو مستقل امریکہ کے ہو کے رہ گئے ہیں۔ ۔ ۔ ساؤتھ ایشیا پر اپنی گہری نظر رکھنے کے سبب انہیں مغرب کی اکیڈیمیا میں ایک معتبر مقام حاصل ہے۔دہائی پہلے شجا ع نواز سے ان کی پہلی کتاب Crossed Swordsکے حوالے سے اسکرین پر مجھے گفتگو کرنے کا موقع ملا۔ ۔ ۔ اس وقت تک اسکرینوں پر سنجیدہ موضوعات پر گفتگو ریٹنگ کے ہاتھوں ذبح نہیں کی جاتی تھی۔شجاع نواز کی اس کتاب کو اس وقت بہت زیادہ اہمیت نہیں دی گئی کہ یہ اس وقت شائع ہوئی جب اسلام آباد پر ن لیگ کے قائد میاں نواز شریف کی حکمرانی تھی۔ارے ہاں، شجاع نواز کے بارے میں یہ بتانے میںچوک ہوگئی کہ وہ سابق آرمی چیف مرحول جنرل آصف نواز کے بھائی ہیں۔جنرل آصف نواز کا کراچی میں پراسرارطور پر انتقال ہوا۔اُس پر ان کے خاندان کی جانب سے شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا۔غالباً کوئی انکوائری کمیٹی بھی بیٹھی اور ان کے ڈی این اے ٹیسٹ بھی باہر بھجوائے گئے۔مگر اس سارے قضیئے کو دبا دیا گیا۔جنرل آصف نواز اپنے دو پیش رو جنرل ،عبدالوحید کاکڑ اور جہانگیر کرامت معروف اصطلاح میں خبر میں اس لئے بھی نہیں آتے کہ ان تینوں جنرلوں نے جنرل ایوب خان ،جنرل ضیاء الحق ،جنرل پرویز مشرف کی طرح اپنے اپنے وقت کی سویلین حکومتوں کا تختہ الٹ کر عنان اقتدار نہیں سنبھالا تھا۔ان تینوں جنرلز کو اپنے اقتدار میں خاموشی سے گھر بھیجنے کے سبب ہی ہمارے تین بار منتخب ہونے والے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کے سر میں یہ سودا ڈیرے ڈا ل بیٹھا کہ ساڈا صدرتہ ساڈا جج کے ساتھ ساڈا جنرل کے بغیر اقتدار کو مستقل دوام حاصل نہیں ہوسکتا۔جنرل شجاع نواز نے اپنی کتاب میں بڑی تفصیل سے ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے دور اقتدار میں سول ملٹری تعلقات میں جو کھنچاؤ کی انکشافات سے پُر اندرونی کہانی لکھی ہے ،وہ ہم جیسے بزعم خودباخبر لکھاریوں سے بھی پوشیدہ رہی۔ ۔ ۔ شجاع نواز کی کتاب کے پہلے باب کا عنوان The Revenge of Democracy"ہے۔ شجاع نواز لکھتے ہیں کہ جنرل پرویز مشرف اپنے اقتدار کے ابتدائی دنوں میں اس بات میں کامیاب ہوگئے تھے کہ دونوں مین اسٹریم جماعتیں یعنی پیپلز پارٹی اور ن لیگ سیاسی طور پر irrelevantہوگئی تھیں۔مگر یہی ان کی غلط فہمی تھی ۔کہ انہوں نے ماضی سے کچھ نہیں سیکھا۔ اور خود ایک مطلق العنان حکمراں بننے کے خواب دیکھنے لگے ۔انہوں نے ملک میں موجود سیاسی پارٹیوں کو ایک realityکے طور پر تسلیم کرنے کے بجائے ان میں توڑ پھوڑ کرکے خود ایک اپنی سیاسی جماعت تشکیل دی۔ مگر جنرل پرویز مشرف اس بات کاادراک کرنے میں ناکام ہوگئے کہ 9/11کے بعد واشنگٹن کی یہ مجبوری بلکہ ضرورت تھی کہ وہ اپنے سے قریب پاکستان پیپلز پارٹی کو ہر صورت میں اسلام آباد میں شریک اقتدار کرے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اس دوران پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی قیادت لندن میںایک چارٹر آف ڈیموکریسی پر دستخط کرچکی تھی۔دونوں جماعتوں کے قائدین نے یہ عہد و پیماں کیا کہ وہ مستقبل میں ایک دوسرے کی حکومت کو گرانے میںکوئی کردار ادا نہیں کریںگے ۔اور اس کے لئے وہ جنرل پرویز مشرف کی حکومت کے خلاف ایک اتحادی کے طور پر جد و جہد کریںگے۔ادھر جنرل پرویز مشرف دسمبر 2007ء میں انتخابات کرا نے کا اعلان کرچکے تھے ۔ ۔ ۔ پیپلز پارٹی کی چیئر پرسن بے نظیر بھٹو کا ان دنوں تواتر سے امریکہ آنا جانالگا رہتا تھا۔کہ انہیں اس بات کا اچھی طرح ادراک تھا کہ اسلام آباد میں اقتدار میں آنے کے لئے واشنگٹن کی آشیر باد ضروری ہے۔ شجاع نواز لکھتے ہیں کہ بے نظیر بھٹو ستمبر2007ء میں واشنگٹن پہنچتی ہیں۔اس وقت تک واشنگٹن کے تھنک ٹینک یہ فیصلہ کئے بیٹھے تھے کہ وہ محض بے نظیر بھٹو پہ اعتبار نہیں کریں گے بلکہ ان کے ساتھ جنرل پرویز مشرف کوبھی ایک پیج پر ساتھ لائیں گے ۔یہی وہ وقت تھا جس کی بعد میںجاکر معروف معنوں میں این آر او کی بنیاد پڑی۔ ۔ ۔ (جاری ہے)