پرسوں (14 جنوری کو ) پورے ملک میں ، قومی ترانہ کے خالق ابو اُلاثر حفیظ جالندھری صاحب کی 119 ویں سالگرہ منائی گئی۔ مختلف نیوز چینلوں پر بار بار جناب حفیظ جالندھری کی تصویر دِکھائی گئی اور قومی ترانہ بھی بجایا / سُنایا گیا۔ کیوں نہ قومی ترانے کا یہ بند آج کے کالم میں شامل کرلِیا جائے ؟ … پاک سر زمین شاد باد! کِشورِ حسین شاد باد! تُو نشانِ عزمِ عالی شان! ارضِ پاکستان! مرکز یقین شاد باد! معزز قارئین!۔ خوشگوار حیرت ہے کہ ’’ارضِ پاکستان کو نشانِ عزمِ عالی شان اور مرکز یقین ‘‘ بنانے کے لئے اپنے طور پر 14 جنوری ہی کو اپنے طور پر ، چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں (18 جنوری سے چیف جسٹس ) جسٹس آصف سعید خان کھوسہ ، جسٹس گلزار احمد ، جسٹس مشیر عالم اور جسٹس مظہر عالم پر مشتمل 5 رُکنی بنچ نے "Even Field Reference" میں اسلام آباد ہائیکورٹ کی طرف سے ستمبر 2018ء میں سابق وزیراعظم میاں نواز شریف ،اُن کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن ( ر) محمد صفدر کی سزا ئوں ( 10 سال، 7 سال اور ایک سال ) کی معطلی اور ضمانت پر رہائی کے خلاف قومی احتساب بیورو (N.A.B) کے سپیشل پراسیکیوٹر اکرم قریشی کی اپیل مسترد کردِی۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ ’’ ہم ہائیکورٹ کا فیصلہ کیوں معطل کریں؟۔ اُن کی ضمانت منسوخ کرنے کے لئے کوئی ٹھوس وجہ نہیں ۔اگر ہائیکورٹ نے غلطی کی تو کیا ہم بھی غلطی کر کے کسی قانونی وجہ کے بغیر ضمانت منسوخ کردیں؟‘‘۔ جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے کہا کہ’’ نواز شریف جیل میں ہیں ، جو شخص آزاد نہیں اُس کی ضمانت منسوخ کرنے پر کیوں اصرار کِیا جا رہا ہے ؟۔ ہم شفاف ٹرائل کا حق یقینی بنائیں گے ۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کو "Guideline" دیں گے ‘‘۔ جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے یہ بھی کہا کہ ’’ اگر مَیں نے " William Shakespeare" کے ناول/ ڈرامہ "Merchant of Venice"کا حوالہ دِیا تو، مجھ پر پھرناول کی بات کا الزام لگا دِیا جائے گا ‘‘۔ جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ ’’ عوامی جمہوریہ چین میں "White Collar Crime" کے مجرموں کو "Firing Squad" کے سامنے کھڑا کردِیا جاتا ہے ‘‘۔ (قابل احترام جسٹس گلزار احمد صاحب! جب مدینۃ اُلعلم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اِسی لئے مسلمانوں کو ہدایت کی تھی کہ ’’ علم حاصل کرو ! خواہ تمیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے؟‘‘ ۔ 28 جولائی 2017ء کو جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کی سربراہی جسٹس اعجاز افضل خان ، جسٹس گلزار احمد ، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز اُلاحسن پر مشتمل پانچ رُکنی بنچ نے پانامہ کیس کی تحقیقات کے لئے قائم "F.I'A" کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل جناب واجد ضیاء کی سربراہی میں قائم "Joint Investigation Team" (J.I.T) کی تحقیقاتی رپورٹ پر آئین کی دفعہ "62-F-1" کے تحت صادق اور امین نہ (ہونے ) پر وزیراعظم نواز شریف کو نااہل قرار دیتے ہُوئے "N.A.B" کو میاں نواز شریف، مریم نواز، حسین نواز ، حسن نواز، کیپٹن (ر) محمد صفدر اور وزیراعظم نواز شریف کے سمبندھی اسحاق ڈارکے خلاف 6 ہفتے میں ریفرنس دائر کرنے اور عدالت کو 6 ماہ میں فیصلہ کرنے کا حکم دِیا تھا۔ معزز قارئین!۔ اِس پر 30 جولائی 2017ء کو میرے کالم کا عنوان تھا ’’ سلام !۔ ’’ عدالتی انقلاب‘‘ تو شروع ہوگیا؟‘‘۔ مَیں نے لکھا تھا کہ ’’ سپریم کورٹ کے لارجر بنچ کی طرف سے وزیراعظم نواز شریف کو نااہل اور اُن کے اہل خاندان کے خلاف نیب کو مقدمہ چلانے کی ہدایت سے پتہ چلتا ہے کہ ’’ ہمارے پیارے پاکستان میں ججوں کی حکومت تو نہیں لیکن ، بڑی آہستگی سے "Judicial Revolution" (عدالتی انقلاب) شروع ہوگیا ہے ‘‘۔ مَیں نے یہ بھی لکھا تھا کہ ’’ کیوں نہ ہم سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں اور پنج تن پاک ؑکا بھی ، جن کی شفقت سے سپریم کورٹ کے لارجر بنچ کے پانچ جج صاحبان ’’عدالتی انقلاب ‘‘ کے بانِیانِ بن گئے ہیں۔ یقین کیا جانا چاہیے کہ اب ’’عدالتی انقلاب ‘‘ جاری رہے گا ۔ پاکستان میں قومی دولت لوٹنے والا صِرف شریف خاندان ہی نہیں بلکہ آصف زرداری اور اُس قبیل کے اور بھی کئی گروپ ہیں۔ اب عدالتی انقلاب کا "Law Roller" تیز رفتاری سے چلے گا۔ اِنشاء اللہ‘‘۔ نااہل وزیراعظم میاں نواز شریف اُن کی بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر نے ’’عدالتی انقلاب‘‘ کو تسلیم نہیں کِیا۔ اُنہوں نے تو، اپنے خلاف فیصلہ آنے سے پہلے ہی عام جلسوں اور الیکٹرانک میڈیا پر پانچوں جج صاحبان کے بارے میں کہا کرتے تھے کہ ’’ پانچ ججوں کو کیا حق حاصل ہے کہ ’’ وہ 22 کروڑ عوام کے منتخب وزیراعظم کو نااہل قرار دے سکیں ؟ فیصلہ تو، عوام کریں گے ‘‘ ۔اِس پر 12 جولائی 2017ء کو ’’ فیصلہؔ۔ عوامی عدالت کو کرنا پڑا تو؟‘‘۔ کے عنوان سے مَیں نے اپنے کالم میں ’’انقلابِ فرانس‘‘ کے دوران فرانس پر (ستمبر1792ء تا اکتوبر 1795ئ)حکومت کرنے والی۔ "Convention"۔ (انقلابی اسمبلی)۔ کے فیصلے کا تذکرہ کِیا۔ فرانس کے بادشاہ لوئی شانز دہم(Louis XVI) پر بیرونی ملکوں کے ساتھ سازش اور فرانس سے غدّاری کرنے کا مقدمہ چلا کر، 21 جنوری 1797ء کو۔"Guillotine"۔(گلا کاٹ مشین) سے اْس کا سر قلم کر ادیا گیا تھا۔ جب لوئی کو، گلّو ٹین کے پاس لایا گیا تو اْس نے وہاں کھڑے ہجوم سے مخاطب ہو کر کہا تھا۔ ’’میرے عزیز لوگو!۔ مَیں بے گناہی کی سزا پا رہا ہوں‘‘۔اللہ نہ کرے کہ ’’میاں نواز شریف کو پاکستان کی کسی ایسی ’’عوامی عدالت ‘‘ میں پیش ہونا پڑے‘‘۔ معزز قارئین!۔ عدالتی انقلاب کے "Law Roller" کی زد میں سابق صدر آصف زرداری اور اُن کی بہن فریال تالپور آ چکی ہیں اور کچھ دوسری سیاسی / مذہبی جماعتوں کے قائدین بھی ۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی ریٹائرمنٹ کے بعد ، نئے چیف جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کی جگہ کوئی اور جج صاحب پانچ رُکنی بنچ کے رُکن بن جائیں گے ، اب کسی نئے "N.R.O" یا ’’ مُک مُکا‘‘ کا کوئی امکان نہیں ہے ۔ معزز قارئین!۔ پانامہ لیکس کیس کی سماعت کے دَوران جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے (محض بھوکے ، ننگے عوام میں ادبی ذوق پیدا کرنے کے لئے ) امریکہ میں غیر قانونی تنظیم خصوصاً مافیا کے بارے میں ، امریکی ادیب "Mario Puzo" کے ناول "The Godfather" اور مجرموں کے بین الاقوامی گروہ "Sicilian Mafia" کا تذکرہ کِیا تھا ۔ اِس پر نااہل وزیراعظم اور اُن کے سارے سیاسی قبیلے نے آسمان سر پر اُٹھا لِیا تھا۔ پھر 22 فروری 2018ء کو جسٹس کھوسہ صاحب کو وضاحت کرنا پڑی کہ ’’مَیں نے میاںنواز شریف کو "Godfather" اور "Sicilian Mafia" نہیں کہا ‘‘۔ 14 جنوری کو نیب کی اپیل خارج کئے جانے سے پہلے ہی احتیاطاً یہ وضاحت کردِی اگر مَیں نے " William Shakespeare" کے ناول/ ڈرامہ " The Merchant of Venice"کا حوالہ دِیا تو، مجھ پر پھرناول کی بات کا الزام لگا دِیا جائے گا ‘‘۔ معزز قارئین!۔ ولیم شیکسپیئر نے اپنے ناول۔"The Merchant of Venice"۔میں ( اٹلی کے شہر وینس کے ایک "Moneylender" (ساہوکار اور سود خور) یہودی کے ہاتھوں ایک "Merchant" (تاجر ، سوداگر ، بلکہ ملک اُلتجّار )"Antonio" کے لُٹ جانے کی داستان بیان کی ہے لیکن، مَیں سوچتا ہُوں کہ ’’ ہمارے دو ’’سابق حکمرانوں ‘‘نواب شاہ کے آصف علی زرداری اورلاہور کے میاں نواز شریف وغیرہ تو، "Moneylending"کے الزامات / مقدمات میں ملوث نہیں ، اُن پر تو "Money Laundering" کے الزامات / مقدمات ہیں ۔صاحب ِ تاج ؔ / بادشاہ کو’’ تاجدار ‘‘ کہا جاتا ہے ۔ علاّمہ اقبالؒ نے اپنی ایک نظم (ہندوئوں کی مقدس کتاب ، رگ ویدؔ کے گائتری منترؔ کا ترجمہ ) ’’آفتاب ‘‘ میں مالکِ کائنات کی مخلوقات کو اپنی روشنی اور حرارت سے فیض یاب کرنے والے آفتاب ؔسے مخاطب ہو کر کہا ہے کہ … ہر چیز کی حیات کا پروردگار تُو! زائیدگانِ نُور کا ہے تاجدار تُو! ریاست ِ مدینہ میں تو، ریاست کے ہر فرد کے لئے ، شاہِ مدینہ صلی اللہ علیہ و آلہ وَسلم اور خُلفائے راشدینؓ کا فیض عام تھا ، دیکھنا یہ ہے کہ ’’ ریاست ِ پاکستان کو ریاستِ مدینہ بنانے کے علمبردار / دعویدار کیا کریں گے؟۔