پچاس برس کے طویل وقفے کے بعد کشمیر کا لہو رستا مسئلہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ بڑوں کے سامنے پیش کیا گیا۔ بے اختیار اس صورت حال پر یہ مصرعہ یاد آیا ۔خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک۔ یا پھر بڑی دیر کی مہرباں آتے آتے۔ کشمیریوں پر ہونے والے بھارت کے ریاستی جبر و استبداد پر عالمی طاقتوں کی یہ بے حسی ان کی روایت ہے۔ جس پر وہ پابندی سے قائم ہیں۔ اگست 2019ء سے پہلے 1965ء میں مسئلہ کشمیر سلامتی کونسل کی میز پر موضوع بحث بنا تھا اور اب پچاس برس کے وقفے کے بعد سلامتی کونسل کی توجہ مسئلہ کشمیر پر مبذول ہوئی یہ بھی پاکستان کے دوست ملک چین کی تحریک پر ممکن ہوا۔ بھارتی ظلم و جبر پر عالمی طاقتوں کی روایتی بے حسی کے باوجود کشمیری تو ستر سال سے اپنے لہو سے تحریک آزادی کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ وہ ایک لمحے کو آزادی کی خواہش سے دستبردار نہیں ہوئے۔ آزادی کی یہ خواہش اتنی فطری ہے اور اتنی زور آور ہے کہ ظلم کے کسی ضابطے کو نہیں مانتی۔ خار دار تاروں سے اَٹا ہوا سری نگر اور کرفیو زدہ گلیوں کے ستم کدے میں کشمیری کشمیر بنے گا پاکستان اور ہم لے کے رہیں گے آزادی کے نعرے لگاتے ہوئے بھارت کے ہر جبر کو اپنے جذبے تلے روندتے چلے جاتے ہیں۔ ستر برسوں سے بھارتی فوجی آزادی کے ان متوالوں کے سینوں میں گولیاں اتارتے ہیں۔ تڑ تڑ تڑ لیکن آزادی کے اس فطری اور زور آور جذبے کی موت واقع نہیں ہو رہی اسے ہر شہادت کے ساتھ ایک نئی زندگی ملتی ہے۔آج اگر 50برس کے بعد کشمیریوں کے حق آزادی اور استصواب رائے کے حق کو سلامتی کونسل میں زیر بحث لایا جا رہا ہے تو اس کا کریڈٹ صرف اور صرف کشمیریوں کو جاتا ہے۔ جنہوں نے دنیا پر ثابت کر دیا کہ ظلم کے بدترین آندھیاں بھی آزادی کی خواہش کے چراغ نہیں بجھا سکتیں۔ بلند اور ہوئی ہے مرے چراغ کی لو ہوائیو تند کو اتنا جواب کافی ہے! سو ہوائے وتند بھارتی ظلم کی ہو یا عالمی طاقتوں کی بے حسی اور مسلم امہ کی ضمیر فروشی کی۔ یہ ہوائے تند کشمیریوں کے دل سے آزادی کی خواہش کے چراغ بجھا نہیں سکی۔ سلامتی کونسل کے اجلاس سے سب سے بڑا بریک تھرو جو سامنے آیا ہے وہ روس کا کشمیر کے ایشو پر حیران کن موقف ہے جس سے بھارت کو دھچکا لگا۔ پہلی بار روس نے کشمیر پر پاکستان کے موقف کی حمایت کی ہے اور کشمیر کے مسئلے کو پاکستان اور بھارت دونوں ملکوں کا مسئلہ کہہ کر ایک متوازن موقف اپنایا اور کشمیر ایشو پر یو این او کی قرار دادوں کی حمایت کر دی ہے۔ تاریخ پر نگاہ رکھنے والے جانتے ہیں کہ روس نے ہمیشہ مسئلہ کشمیر پر بھارتی موقف کی تائید کی۔ سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ممبران ہیں جنہیں ویٹو کا حق حاصل ہے ان میں امریکہ‘ برطانیہ چین ‘فرانس اور روس شامل ہیں۔ روس نے سلامتی کونسل کے مستقل ممبر کی حیثیت سے پاکستان کے موقف کو ہمیشہ ویٹو کیا۔ یوں کشمیریوں پر بھارتی جبرو استبداد کی حمایت کی۔ 5اگست 2019ء کو جب بھارت نے آئین کے آرٹیکل 370اور 35اے کو ختم کر کے کشمیر کے ریاستی تشخص کو ختم کرنے اور ظلم و جبر کے نئے حربے آزمانے کی راہ ہموار کی تو پوری دنیا میں مودی سرکار کی اس کھلی ناانصافی اور ظلم کے خلاف آواز اٹھی جبکہ روس نے ایک بار آرٹیکل 370اور 35اے کی شقوں کو ختم کرنے کے معاملے کو بھارت کا اندرونی معاملہ قرار دیا۔ روس کا کردار پاکستان اور کشمیریوں کے حق میں ہمیشہ منفی رہا ہے۔ سلامتی کونسل میں روس نے اپنا ویٹو کا حق ہمیشہ بھارت کے موقف کو سپورٹ کرنے استعمال کیا ہے۔ یہ واقعہ 1962ء کا ہے 1965ء کی پاک بھارت جنگ سے تین سال پہلے کا۔ بھارت نے خطے میں جنگ کا سماں پیدا کر رکھا تھا کشمیریوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے تھے۔ پاک بھارت سرحد پر فوجیں پڑائو ڈال چکی تھیں۔ خطے میں بدامنی اور جنگ کے شدید خطرات لاحق تھے سلامتی کونسل کے ایک عارضی ممبر آئر لینڈ نے قرارداد پیش کی بھارت خطے میں ملٹرائزیشن کو روکے اورجنگ کے حالات پیدا نہ کر کے اس قرار داد کو روس نے ویٹو کر دیا اور تاریخی بات یہ ہے کہ یہ روس کا بھارت کے حق میں 100واں ویٹو تھا ۔اس پر سلامتی کونسل میں اس وقت امریکہ کے نمائندے چیخ کر بولے کہ روس کا یہ کردار یو این کو کشمیر کے مسئلے پر مفلوج کر کے رکھ دے گااس پر روسی نمائندے بولے کہ ویٹو کا حق اس لئے بھی کہ اسے استعمال کیا جائے تاکہ کچھ طاقتیں اپنی اوقات میں رہیں۔ مسئلہ کشمیر یو این کے فورم پر امریکہ اور روس کے درمیان سرد جنگ کی وجہ سے کبھی حل نہ ہو سکا۔ یو این میں پاکستان کے موقف کو امریکہ اور برطانیہ کی حمایت حاصل رہی ہے اس کے جواب میں روس نے ہمیشہ بھارتی موقف کی حمایت کی اور سلامتی کونسل کے مستقل ممبر کی حیثیت سے اپنا ویٹو کا حق کشمیری عوام کے حق آزادی اور استصواب رائے کے خلاف استعمال کیا۔ سو اس بار اگر روس نے مسئلہ کشمیر کو دو فریقوں پاکستان اور بھارت کا باہمی مسئلہ تسلیم کر لیا ہے تو یہ یو این کے فورم پر پاکستانی موقف کی جیت ہے۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ یہ کشمیریوں کے موقف اور ان کے آزادی کے حق کی جیت ہے بلا شبہ آزادی ان کا حق ہے جو انہیں مل کر رہے گا۔ 5اگست کے صدارتی فرمان کے بعد کشمیریوں کے ردعمل نے دنیا کو ایک بار کشمیر کے بارے میں سوچنے پرمجبور کر دیا ہے۔ کشمیر کا ایشو پوری شدت کے ساتھ عالمی طاقتوں کے سامنے آزادی آیا ہے۔ انشاء اللہ آزادی کے جس خواب کو کشمیریوں نے 70سال اپنے لہو سے سینچا ہے۔ ایک روز وہ خواب ضرور قریہ تعبیر میں کھلے گا حالات کیسے ہی کیوں نہ ہوں امید کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔ چیئرمین مائوزے تنگ کے کیا کمال کے الفاظ ہیں There is great chaos under the heaven; the situation is excellent.