حسرت وصل ملی لمحہ بے کار کے ساتھ بخت سویا ہی رہا دیدۂ بیدار کے ساتھ کیا کرے جذبۂ وارفتگیٔ شوق نہاں دل کو گل رنگ کیا گوشہ پرخار کے ساتھ ’’ہائے ہائے‘‘ ایک احساس پس حرف تسلی، اس کا کاش وہ گھائو لگاتا مجھے‘‘ تلوار کے ساتھ کہیے اشعار نئے منظر نامے میں اپنے معنی بدل لیتے ہیں، یہ حرف تسلی بھی کیا ہے ،کبھی کبھی تو یہ آگ لگا دیتا ہے، مگر کیا کیا جائے، کہ اگر اتنا بھی کوئی نہ کر سکے۔ اصل میں مجھے میرے قارئین کی طرف سے کہا گیا کہ آپ نے سید علی گیلانی پر کچھ زیادہ لکھنا تھا کہ تشنگی رہی۔حالانکہ میں نے ان پر دو قطعات بھی لکھے۔واقعتاً سید علی گیلانی کی شخصیت ہی کچھ ایسی تھی کہ پاکستانیوں کے دلوں میں ان کی بہت قدر و منزلت تھی ۔کم کم ایسا ہوتا ہے کہ کوئی اس قدر تہذیب اور بانکپن رکھتا ہو، ہارون الرشید صاحب درست فرما رہے تھے کہ ان کی جدوجہدمیں ایک تسلسل ہے اور وہ نینسن منڈیلا کے ساتھ موازے میں کچھ زیادہ ہی نظر آئے ہیں، یقینا دونوں عظیم ہیں کہ ظلم اور استحصال کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنے رہے۔یہ کچھ اور طرح کے لوگ ہوتے ہیں: ان آبلوں سے پائوں کے گھبرا گیا تھا میں جی خوش ہوا ہے راہ کو پرخار دیکھ کر ایسا شخص کہ جس نے کبھی نہیں بولا کبھی وعدہ نہیں توڑا۔کبھی گھبرایا نہیں کبھی رکا نہیں مگر فیض کے بقول جو رکے تو کوہ گراں تھے ہم جو چلے تو جاں سے گزر گئے اس پیرانہ سالی میں جذبوں اور آدرشوں سے سرشار شخص۔حریت کا استعارا اور امید کا ستارا ۔وہ جس نے کہا کہ ہم بھی پاکستانی ہیں اور پاکستان ہمارا ہے۔انہوں نے اندرونی سازشوں کا بھی مقابلہ کیا۔وہ اپنی منزل سے بے نیاز تھے کہ آزادی کا راستہ بلکہ آغاز کا نکتہ ہی انہیں منزل ہوتا ہے: ہم رہراواں شوق تھے منزل کوئی نہ تھی منزل بنے ہیں نقش ہمارے دھرے ہوئے ایک اور شعر ذھن میں آ گیا: منزلیں ان کا مقدر نہ طلب ہو جن کو بے طلب لوگ تو منزل سے گزر جاتے ہیں اصل میں آزادی تو مومن کے لئے وہ ذینہ جہاں سے اسے اپنے رب کی رضا حاصل کرنی ہو۔اس چیز کو سمجھنے کی ضرورت ہے یہاں کوئی دنیاوی حشمت وجاہ نہیں۔ رہنما اصل میں ایسے ہی ہوتے ہیں۔آپ اگر غور کر لیں تو ان کی طبیعت مزاج عظیم لیڈروں سے مطابقت رکھتا ہے۔ یعنی بلا کی سنجیدگی‘یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے۔لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلمان ہونا وہ راہوں کی دشواریاں سمجھتے تھے مگر عزم مسلسل اور استقلال ان کی شخصیت کا جوہر تھے۔وہ کشمیریوں کا حوصلہ تھے، وقت روکے تو میرے ہاتھوں پر اپنے بجھتے چراغ لا رکھتا۔جیل ان کا دوسرا گھربن گیا اور پھر گھر بھی جیل بنا دیا گیا۔بڑے لوگ ایسے ہی آزمائے جاتے ہیں۔یہ میرے احساسات برجستہ ہیں کہ میں ان کے لئے بنا سنوار کا کچھ نہیں لکھ سکتا، مجھے تو بس ان کے مداحوں میں شمار ہونا ہے کیا ان پر یہ شعر صادق آتا ہے کہ: وقت خود ہی بتائے گا کہ میں زندہ ہوں کب وہ مرتا ہے جو زندہ رہے کردار کے ساتھ سید علی گیلانی کے حوالے سے ایک خاص بات کرنے جا رہا ہوں کہ ان کے سامنے جو آزادی تھی اس کی بنیاد دین کی سربلندی تھی وہ کوئی لسانی یا وطنیت کا مسئلہ نہیں ۔کہنا میں یہ چاہتا ہوں کہ ان کا مقصد بہت اعلیٰ تھا ۔احسان کا اٹھائے مری بلا کشتی خدا یہ چھوڑ دوں لنگر کو توڑ دوں انہی کی سیرت کے باعث افضل گرو۔برھان وانی جیسے نوجوان بنے جو شہید ہو کر آزادی کی راہ پر چراغ بن گئے ہیں اب ذرا تھوڑی سی بات ایک اور رخ سے ہو جائے۔مولانا حمید احمد صاحب نے ایک نکتے کی بات بتائی کہ قرآن میں جو آیا ہے کہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو تو اس سے مراد لی جاتی ہے کہ اتحاد اور یگانگت پیدا کرو تو اس پر مسلمانوں کو سوچنا پڑے گا۔ اس پر غور کریں گے ،تو کئی پرتیں نکلتی چلی جائیں گی۔یقینا اس آیت کا نتیجہ یگانگت ہو سکتا ہے مگر اس میں رسی کا تذکرہ ہے تو حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے بیان کے مطابق یہ قرآن ہی ہے۔قرآن اکیلا نہیں اس کے ساتھ صاحب قرآن کی سیرت بھی ہے اس پر کئی باتیں ہیں کہ قرآن کے الفاظ معانی اور مراد سب مل کر ایک اکائی بناتے ہیں۔ظاہر قرآن کی جو مراد ہے، وہ تو آقا ﷺ نے صحابہؓ کو بتائی۔تو بات ہو رہی تھی، اتحاد کی تو اتحاد تو کئی گروہوں میں ہو سکتا ہے۔ مگر اسلام میں اتحاد کا تصور مختلف ہے، یہاں تو قرآن و سنت پر اساس ہو گی اور قرآن منزل من اللہ ہے اور حضورؐ کی ذات اس کا عملی نمونہ ہے۔ کیسی مزے کی بات ہے کہ علم اور عمل دو ہی تو چیزیں جن پر دین کھڑا ہے۔علم قرآن پاک ہے اور عمل حضورؐ کی سیرت۔ معلوم نہیں کہ میں نے سید علی گیلانی کے مقصد کو پیش نظر رکھ کر جو باتیں کیں آپ کو پسند آئیں یا نہیں۔مگر مقصد سمجھانا اور اسے اجاگر کرنا ضروری تھا۔دنیا نے دیکھا کہ سید علی گیلانی کی قدر مسلمانوں کے دل میں کس قدر ہے۔پاکستان اور کئی ممالک میں ان کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھی گئی۔ملک میں کئی مقامات پر ہی ایسے ہوا خود ہمارے مرغزار کالونی میں علی گیلانی صاحب کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھی گئی۔کالونی کے صدر اور ہر دلعزیز صدر شہزاد چیمہ نے باقاعدہ اس کا اہتمام کیا: کیا بتائوں تجھے کیا ہے بچھڑنے والا ایک جھونا ہے جو خوشبو سی اڑا جاتا ہے بہرحال چند الفاظ میں یہ عقیدت کے قمر شیر نے ایک شعر لکھا ہے: لفظوں نے اب خیال سے کر لی ہے معذرت ہم تجھ کو سوچ سکتے ہیں لکھنا محال ہے بس اتنا کہنا ہے کہ سید علی گیلانی نے جو کشمیریوں کے دلوں میں درد بویا ہے وہ انہیں بیٹھنے نہیں دے گا، جو حوصلے ان کے جذبوں کے ہمراہ کئے ہیں وہ کم ہونے والے ہیں۔وہی انگریزی ڈرامہ یاد آیا ہے جس میں آزادی کی جنگ لڑنے والے ایک دوسرے کو پیغام میں کہتے ہیں کہ جب چاند طلوع ہو گا ۔When the Moon Will Rise