سوچ رہا تھا کہ منٹو کے افسانے پر بڑا کچھ کہا اور لکھا گیا کیوں نہ اس کے فلمی سفر پر کوئی بات کی جائے۔ اس کے متوازی خیال یہ بھی تھا کہ اپنے پسندیدہ اسلامی سکالرز میں سے ایک ڈاکٹر محمد حمید اللہ کی اسلام پر ریسرچ کو موضوع بنایا جائے مگر ۔ مگر ایک خبر نے توجہ اپنی طرف مبذول کر لی۔ وزیر اعلیٰ کے پرنسپل سیکرٹری طاہر خورشید کی جگہ عامر جان کی پوسٹنگ کی خبر ۔ گئے وقتوں میں یہ ٹرانسفرز اور پوسٹنگ اتنی اہم نہ ہوا کرتی تھی۔ جب ہم نے ہوش سنبھالا تو پنجاب پر شریفس کی حکمرانی تھی۔ تب سے ہی یہ رواج زیادہ پڑا کہ کون چیف سیکرٹری آیا اور کون پرنسپل سیکرٹری۔ اسکا مزاج کیا ہے۔ اسکا پس منظر کیا ہے ، یہ کیسے فیصلے کرتا ہے؟ اسکی پسندیدہ ٹیم میں کون کون سے جونیئرز بیوروکریٹس شامل ہوں گے۔ انور زاہد نواز شریف کے پسندیدہ چیف سیکرٹری پنجاب تھے جب وہ وزیر اعلیٰ تھے۔ پنجاب میں بھی رہے اور مرکز میں بھی۔ پھر زیڈ کے شیر دل بھی اس فہرست میں شامل ہو گئے ۔ جونیئر افسروں میں ڈاکٹر نذیر سعید اور عابد سعید بھی شامل تھے۔ مگر جیسے جیسے وقت گزرتا گیا سٹار بیوروکریٹس منظر سے ہٹتے چلے گئے اور نئے نئے نام اور چہرے چیف سیکرٹری اور پرنسپل سیکرٹری بننے لگے۔ آخری نام جو میرے ذہن میں آرہے ہیں اُن میں کامران رسول ، جی ایم سکندر، سلمان صدیق اور جاوید محمود کے ہیں ۔ پرنسپل سیکرٹری وزیر اعظم کا ہو یا چیفف منسٹر کا اسکا مزاج اور ویژن سیاسی حکمران کو لازماً متاثر کرتا ہے۔ آج کل عمران خان کے ساتھ اعظم خان پرنسپل سیکرٹری ہیں۔ یہ صوبہ سرحد میں اچھے عہدے پر فائز تھے کہ ان کی ملاقات جہانگیر ترین سے ہوگئی۔ پھر کیا ہوا؟ یہ کہانی پھر سہی۔ 2008ء کی بات ہے شہباز شریف جلاوطنی کے بعد وزیر اعلیٰ پنجاب بنے ۔ اُن کے چیف سیکرٹری کڑک بیوروکریٹ جاوید محمود بن گئے ۔ چوہدری پرویز الہی کے گھر کچھ سینئرز کے ساتھ ان سے ملاقات ہوئی۔ عباس اطہر مرحوم ، نذیر نیازی صاحب اور حسن نثار صاحب بھی موجود تھے۔ اسی گپ شپ میں میں نے چوہدری صاحب سے پوچھا۔ ’’تہاڈا میاں شہباز شریف دے چیف منسٹر بنن تے کی تاثر اے‘‘؟ چوہدری صاحب نے بڑے ٹھنڈے لہجے میں مسکراتے ہوئے کہا ’’میرا پرنسپل سیکرٹری جی ایم سکندر سی تے چیف سیکرٹری سلمان صدیق‘‘۔ دونوں ہی دھیمے اور ٹھنڈے مزاج کے تھے۔ میرا مزاج بھی ویسا ہی ہے۔ میں سوالیہ نظروں سے چوہدری صاحب کی طرف دیکھ رہا تھا۔ ’’چھوٹے میاں صاحب وی ایکٹو نیں تے اوہناں دے چیف سیکرٹری وی ۔۔۔۔‘‘ ۔ پھر انہوں نے پنجابی کا ایک محاورہ بولا اور کوزے میں دریا بند کر دیا۔ جاوید محمود کچھ ہی دنوں بعد اپنے مزاج کے ہاتھوں چیف سیکرٹری شپ سے ایسے گئے کہ پھر واپس نہ آسکے۔ خان صاحب کے پرنسپل سیکرٹری صاحب نے زیادہ تر سروس کے پی کے میں کی ہے۔ پنجاب کی بیوروکریسی اور مزاج کو وہ ذراکم کم سمجھتے ہیں۔ مگر پنجاب میں کئی افسران اُن کے مسلسل رابطے میں رہتے ہیں۔ اُنہیں فیڈ بیک بھی دیتے ہیں۔ مگر پنجاب میں 2018 سے اب تک افسر شاہی کے معاملات میں رنگ نہیں جم سکا۔ چیف سیکرٹری یوسف نسیم کھوکھر سے اعظم سلیمان تک اور اب جواد رفیق ملک تک ۔۔۔ پولیس کے افسران برائے پنجاب اور پرنسپل سیکرٹریز کا تو ذکر ہی کیا۔ کیا وجہ ہے کہ اسلام آباد میں وزیر اعظم کے ساتھ اُن کے پرنسپل سیکرٹری بغیر کسی تبدیلی کے 2018 سے چل رہے ہیں ۔ مگر پنجاب میں بات کہیں رکتی ہی نہیں ۔ جب بات ہوتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ پنجاب میں طاقت کے مراکز ایک نہیں کئی ہیں۔ سیاسی اتحادیوں کو ایڈجسٹ کرنا ہوتا ہے ۔ اُن کے بتائے ہوئے DPO اور DCO پوسٹ کرنے ہوتے ہیں۔ اسلام آباد اور کسی اور شہر سے بھی سفارشیں آجاتی ہیں۔ اسکے علاوہ غیر روایتی چینل سے بھی مطالبات کی ایک لمبی فہرست ہوتی ہے۔ اس سارے کھیل کو سر انجام دینے کے لیے جتنی سپیڈ درکار ہوتی ہے اُسکے لیے شدید سیاسی تربیت درکار ہوتی ہے۔ خان صاحب کو جب اُن کے قریبی حلقے میں پنجاب میں گورننس کے معاملات کی طرف متوجہ کیا جاتا ہے تو وہ جو کہتے ہیں وہ تو نہیں لکھا جا سکتا مگر یوں لگتا ہے کہ وہ یہ طے کر چُکے ہیں کہ ’’یہی چراغ جلے گا تو تو روشنی ہوگی‘‘۔ ایسے میں پرنسپل سیکرٹری اور چیف سیکرٹری کا کردار زیادہ حساس اور موثر ہو جاتا ہے۔ جب طاقت کے مراکز بہت سے ہوں گے تو بیوروکریسی میں گروپنگ منطقی نتیجہ ہوگی ۔ بظاہر پنجاب کی بیوروکریسی تین گروپس میں منقسم نظر آتی ہے۔ طاہر خورشید گروپ، چیف سیکرٹری گروپ اور نون شین گروپ۔ اس سے پہلے ناصر محمود کھوسہ جو جا چُکے ہیں اُن کے پسندیدہ افسران کا بھی ایک گروہ ہوا کرتا تھااور جاوید محمود صاحب کا بھی۔ فواد حسن فواد ۔۔۔ سکندر سلطان اور توقیر شاہ اینڈ کمپنی نون اور شین کے دور کی باتیں ہیں۔ آج کی تاریخ میں پنجاب میں پوسٹنگ اور ٹرانسفر زیادہ تر اِن تینوں گروپس کے افسران کی ہوتی ہیں۔ موجودہ چیف سیکرٹری عہدے کے اعتبار سے پرنسپل سیکرٹری سے سینئر ہیں مگر معاملات کو زیادہ تر طاہر خورشید ہی دیکھتے تھے۔ سیکرٹری بلدیات مینگل صاحب شہباز شریف کے دور میں ڈی جی فوڈ اتھارٹی تھے۔ ہونہار افسر تھے۔ مگر پھر دور بدلا اور بلوچستان واپس جانا پڑا۔ طاہر خورشید صاحب انہیں واپس لے آئے مگر وفاداری بشرط استواری اصول ٹھہرا ۔ اسی گروپ کے عامر جان اور اِرم بخاری فرنٹ لائن پر نظر آرہے ہیں۔ طاہر خورشید صاحب پر جب میڈیا اور مخالف سیاسی جماعتوں کی تنقید بڑھی تو وہ بڑے احسن طریقے سے سائیڈ پر ہو گئے اور اُن کے پسندیدہ عامر جان پرنسپل سیکرٹری ٹو خادم اعلیٰ پنجاب بن گئے۔ طاقت کے مراکز سرگوشیاں کرتے ہیں کہ طاہر خورشید بزدار صاحب کو سوٹ کریں نہ کریں کسی اور کو بہت سوٹ کرتے ہیں۔ اسی لیے شاید اُنہیں چیف سیکرٹری پنجاب بنانے کی تیاریاں ہیں۔ مگر مرکزی سوال وہی ہے کہ اس میں عام شہری کے لیے کیا خیر و برکت ہے؟ کچھ بھی نہیں ۔ عام آدمی کو انگریزی نہیں آتی مگر وہ سیاسی وعدوں کا برگر کھاتے ہوئے ایک انگریزی محاورے کے مطابق سوال کر سکتا ہے"Where is the Beef?"